ہرسال 11اگست کے آتے ہی دھیان غوث بخش بزنجو کی طرف جاتا ہے۔ میر غوث بخش بزنجو ۔ اس نام کے ساتھ ہی ذہن میں ایک طویل جدوجہد ابھرتی ہے۔ پہاڑوں، ساحلی چٹانوں اور سبزہ زاروں کی سیاست کے رزمیہ نغموں کا سلسلہ بھی در آتا ہے۔ 11اگست 1989ء کو جب مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو میرے ذہن میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ دھماکے کے بعد جو سناٹا سا پیدا ہوجاتا ہے‘ اس نے میری سوچ کو گھیر لیا۔ کتنا کرب تھا اس سناٹے میں، جس نے ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا، ہرسسکی اپنا مفہوم کھوچکی تھی اور ہر چیخ غیر ضروری ہوگئی تھی۔ بزنجو صاحب کو کیا معلوم کہ اب وہ ہم میں نہیں ہیں۔ ان کے لیے تو دکھ یا پریشانی کی کوئی بات نہیں‘ مگر ہمارے لیے ……! میکسم گورکی نے لینن کے متعلق لکھا تھا۔ ’’وہ سادہ مزاج ہے، سچ کی طرح سادہ ‘‘ گورکی نے یہ بات اس طرح کہی تھی جیسے اس نے کافی عرصہ غور کیا ہو اور یہ رائے قائم کی ہو۔ غوث بخش بزنجو کیلئے بھی یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ یہ ان میں سب سے نمایاں وصف تھا۔ میر صاحب کی زندگی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ عظیم انسان اور بااصول سیاست دان عہد حاضر کے نوادرات میں سے ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے اردگرد کی زندگی سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ ان میں توجہ مرکوز کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی تھی۔ وہ انتہائی خوش مزاج اور مستقل مزاج آدمی تھے جنہیں اپنے اوپر بے حد قابو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت بڑے رجائیت پسند تھے۔ میرغوث بخش بزنجو سے میری واقفیت کا آغاز نیشنل عوامی پارٹی سے ہوا۔ یہ واقفیت ذاتی نہ تھی بلکہ پارٹی کے حوالے سے تھی۔ انہی دنوں وہ لاہور آئے تو پروفیسر امین مغل اور ملک شمیم اشرف نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ اس شناسائی نے مجھ پر ایک ایسا انمٹ نقش چھوڑا جو پارٹی میں میرے تمام ترکام کے دوران محو نہ ہوسکا۔ ولی خان، عطاء اللہ مینگل ، خیر بخش ، اجمل خٹک ……لیکن جب میں میر غوث بخش بزنجو کی سادگی، سچائی، عوام دوستی، جمہوریت پسندی اور انقلابی خیالات اور سرگرمیوں سے واقف ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ غیرمعمولی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ میری نگاہ میں وہ نیشنل عوامی پارٹی کے محض رہنما ہی نہ تھے بلکہ اس کے حقیقی بانی بھی تھے‘ اس لیے کہ وہی ہماری پارٹی کے عوامی نظریات‘ پارٹی کی عوامی ماہیت اور اس کے فوری تقاضوں سے واقف تھے۔ جب کبھی میں نے ان کا موازنہ پارٹی کے دوسرے رہنمائوں سے کیا تو ہربار دوسروں کے مقابلے میں بزنجو صاحب نہ صرف ایک رہنما اور ایک اعلیٰ درجہ کے رہنما بلکہ ایک شاہین لگے‘ جنہیں پلٹنے‘ جھپٹنے‘ جھپٹ کر پلٹنے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوتا تھا، جو پاکستان میں انقلاب کے ان دیکھے راستے پر پارٹی کی جرأت مندانہ انداز میں رہنمائی کیا کرتے تھے۔ بزنجو صاحب سے میری پہلی ملاقات لاہور میں پارٹی کے دفتر میں ہوئی تھی۔ میں اپنی پارٹی کے اس رہنما سے ملنے کا مشتاق تھا‘ اس عظیم انسان سے جو نہ صرف سیاسی اعتبار سے عظیم تھا بلکہ میں خود کو ذہنی طورپر بھی ان کے بہت قریب پاتا تھا۔ ان دنوں بھی اسلام پسند یارجعت پسند یا دائیں بازو‘ یا کچھ بھی کہہ لیجیے‘ کے صحافی، نیشنل عوامی پارٹی کی تمام تر لیڈرشپ میں زیادہ تر بزنجو صاحب کی انقلابی سوچ کے خلاف زہر اگلتے رہتے تھے۔ ان صحافیوں نے حکومت وقت سے مل کر بزنجو اور اُن کی عوامی سیاست کے ساتھ وہ سلوک کیا جیسا روایتی طورپر ایک جن نے اپنے مہمانوں کے ساتھ روارکھا تھا۔ وہ بظاہر بڑے خلوص اور احترام سے اجنبی مسافروں کو اپنے ہاں قیام کرنے کی دعوت دیتا‘ پھر جو اس کی چارپائی سے چھوٹا ہوتا وہ اس کے پیٹ کا ایندھن بن جاتا اور جس کا قدچارپائی سے بڑا ہوتا وہ بھی اس کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا‘ یوں ہر کسی کو کھاجانا اس جن کی فطرت بن گئی تھی اور بہانہ یہ بنارکھا تھا کہ آدمی یا تو چارپائی سے بڑا نکلا یا چھوٹا۔ یعنی چارپائی کو پیمانے کی حیثیت دے دی گئی تھی اور بدقسمتی سے نیشنل عوامی پارٹی اس چارپائی پر فٹ نہ بیٹھتی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی میں باچا خان، میاں افتخارالدین ، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، خان عبدالصمد خان اچکزئی، غوث بخش بزنجو ، میرگل خان نصیر، عطاء اللہ مینگل ، ولی خان ، خیربخش مری اور دوسرے بہت سے ترقی پسند اور انگریز (کالے اور سفید ) استعمار کے خلاف سینہ سپر ہونے والے سیاستدان شامل تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی سے قبل باچا خان کی خدائی خدمتگار ، جی ایم سید کی سندھی محاذ‘ میاں افتخارالدین کی آزاد پاکستان پارٹی، حیدربخش جتوئی کی ہاری کمیٹی، عبدالصمد اچکزئی کی ورور پشتون اور غوث بخش بزنجو کی استھمان گل، الگ الگ جماعتیں تھیں۔ پھر سب لوگوں نے مل کر ایک پارٹی تشکیل دی جس کا نام پاکستان نیشنل پارٹی رکھا گیا۔ بعد میں مولانا بھاشانی کی شمولیت پر یہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کہلائی، جس کا منشور غوث بخش بزنجو کی ذہنی عرق ریزی کا نتیجہ تھا۔ انہیں یقین کامل تھا کہ مصائب وآلام، درد وغم انسانی زندگی کے لیے ناگزیر نہیں ہے بلکہ ایسی مکروہ چیزیں ہیں جن سے انسان کو قطعاً چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ بزنجو صاحب کے ساتھ کسی بھی مسئلہ پر بحث کی جاسکتی تھی اور ایسی بحثیں اکثر ہوتی تھیں‘ نہ صرف پاکستان بلکہ لندن اور میرے گھر ایمسٹرڈیم میں بھی۔ وہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ان کے خیالات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بڑی توجہ سے دوسروں کے خیالات سنتے تھے لیکن وہ ایسی کسی چیز کو، کسی بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرتے تھے جو بنیادی اور منطقی طورپر غلط ہو۔ اصول کے معاملے میں وہ کوئی رعایت نہ برتتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایمسٹرڈیم میں میرے گھر پر ایک بار فیض احمد فیض کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’اگر فیض جیسا شخص پیدا نہ ہوتا تو ہم انقلاب کے لیے اسے پیدا کرتے۔‘‘ بزنجو صاحب اپنے بیٹے بزن بزنجو کے ساتھ میرے گھر آئے ہوئے تھے۔ ہم چند دوست رات گئے تک ان کی دلچسپ باتیں اور سیاسی تبصرے سنتے رہے۔ سفر کی وجہ سے وہ کافی تھکے ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔ ’’مفتی ! مجھے میرا کمرہ دکھائو۔ نیند آرہی ہے۔‘‘ میں انہیں ان کے کمرے میں لے گیا، ضرورت کی تمام چیزیں پہلے ہی سے کمرے میں رکھ دی گئی تھیں۔ پھر بھی احتیاطاً میں نے کہا ’’اب آپ آرام کیجیے۔ رات کے کسی حصے میں بھی کسی چیز کی ضرورت پیش آئے تو بلاتکلف مجھے آواز دے دیجیے گا‘‘۔ کہنے لگے۔’’نہیں ! اب میں سوئوں گا اور صبح تک سوتا رہوں گا۔ بس تم یہ کرنا کہ سویرا ہو تو مجھے جگادینا۔‘‘ میں ہولے سے قدم لیتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔ بزنجو صاحب! آپ آرام سے سوئیے‘ جب سویرا ہوگا تو میں یا میرے بچے ضرور آپ کو جگادیں گے۔