"AYA" (space) message & send to 7575

اسلامی جمہوریہ میں موسمِ کمالات

یہ تو نواز شریف ہیں جن پہ لوٹ مار، دروغ گوئی، منی لانڈرنگ اور متعلقہ قسم کے الزامات ہیں۔ دسمبر 1971ء میں پاکستانی فوج ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو چکی تھی۔ ڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ میں ہماری مشرقی کمان کے سالار جنرل نیازی ہتھیار ڈال چکے تھے‘ لیکن اس خوفناک تناظر میں بھی جنرل یحییٰ خان منصب اقتدار چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔
وہ تو تقریباً ایک بغاوت کا ماحول تھا جو جی ایچ کیو میں پیدا ہوا‘ اور جس میں وہاں موجود افسران بھڑک اٹھے جس نے جنرل یحییٰ اور ان کے دست راست جنرل حمید کو رخصت ہونے پہ مجبور کیا۔ اگر جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نواز شریف اب بھی اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتے ہیں اور یہ دلیرانہ اعلان کرتے ہیں کہ میں مستعفی نہیں ہوں گا تو اس میں اچنبھے کی بات نہیں۔
اخلاقیات اور اس جیسی فضول باتیں جائیں بھاڑ میں، بات جان بچانے کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آخری وقت تک کرسیء اقتدار پہ جم کر بیٹھے رہنے میں دانائی کا ایک زاویہ ہے۔ یہ پاکستان ہے برطانیہ نہیں جہاں ڈیوڈ کیمرون جائے اور ٹریسا مے آ جائے اور جمہوری تسلسل چلتا رہے۔ یہاں تو اقتدار ہے تو جہان ہے ورنہ ن لیگ کا وہی حشر ہو جائے جو اکتوبر 1999ء کے بعد ہوا تھا۔ 
یحییٰ خان کو بھی تقریباًَ دھکے لگا کر ایوان صدر سے باہر نکالا گیا۔ تو یہ ہم میں سے کون سہانے خواب دیکھنے والے ہیں جو تواتر سے وعظ اور نصیحت کر رہے ہیں کہ جمہوریت کی خاطر میاں نواز شریف کو عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے؟ ناممکنات کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ ہاں‘ ایک دفعہ نواز شریف نے استعفیٰ دیا تھا، 1993ء میں۔ لیکن یہ معجزہ تب رونما ہوا جب آرمی چیف جنرل کاکڑ اور 10 کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد سامنے بیٹھے تھے اور نواز شریف صاحب کو ان کی بات سمجھ آ گئی۔
فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے، نکلنے کا بھی یا راہ بچاؤ دینے کا۔ ن لیگ خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ممبران اسمبلی پیٹھ پیچھے باتیں کرنے کے ماہر ہیں۔ یہ میں ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ لیکن میدان کا فیصلہ اور منہ پہ سچ کہنے کی روش‘ یہ سرے سے ن لیگ اور ہماری دیگر بڑی سیاسی پارٹیوں کے مزاج کا حصہ نہیں۔ جو اجلاس جمعرات کے روز وزیر اعظم ہاؤس میں ہوا وہ عین ن لیگ کے کردار اور سوچ کے مطابق تھا۔ میرے دوست سردار مہتاب عباسی جذباتی ہو گئے۔ ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ مرد میدان چوہدری نثار علی خان نے اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ ایسے ناٹکوں کا ن لیگ بھرپور ہنر رکھتی ہے۔
بحران حل کرنے کی کوشش یا initiative کہاں سے آئے گی؟ بس یہ واویلا کیا جا رہا ہے کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے اور جمہوریت خطرے میں ہے۔ جمہوریت کیا ہوئی مجرمانہ کارروائیوں اور غفلتوں کا دفاع بن گئی۔ ایک سال سے زائد اس بحران کی چنگاریاں سلگتی رہیں۔ تھوڑی بہت صداقت اور جوانمردی سے کام لیا جاتا تو وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ لیکن حیلے بہانوں پہ ہی اکتفا کیا جاتا رہا اور وہ بھی بھونڈی قسم کے‘ جس کی سب سے عظیم مثال قطری شہزادے کے وہ دو خطوط ہیں جو کسی تخیلی masterpiece سے کم نہیں۔ 
ایک مخصوص کھیپ وزرا اور نام نہاد ترجمانوں کی اس عمل میں مصروف رہی کہ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی پر کیچڑ اچھالا جائے۔ لیکن جے آئی ٹی رپورٹ ایسے ناقابل تردید شواہد پر مبنی ہے کہ قوم بھی سن کر ششدر رہ گئی اور حکمران خاندان کے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ یہ ثابت ہو گیا کہ مریم صفدر آف شور کمپنیوں کی مالکن ہیں اور یہ کہ مریم صفدر اور حسین نواز کے درمیان مبینہ ٹرسٹ ڈیڈ ایک جعلی دستاویز ہے۔ ستم در ستم دیکھئے کہ دوبئی والوں نے بھی گواہی دے دی کہ 12 ملین درہم کے آنے جانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اور ایک سرکاری خط میں یہ بھی کہہ گئے کہ شریفوں کا کوئی سکریپ مال دوبئی سے جدہ نہیںگیا۔ اور تو اور، اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جائے، وزیر اعظم ایک دوبئی کمپنی کے مالک نکلے اور وہاں سے کچھ عرصہ پہلے تک ہر ماہ دس ہزار درہم کی تنخواہ لیتے پائے گئے۔ حکومتی ترجمانوں سے سادہ سا سوال پوچھنا چاہیے کہ یہ سب حقیقت ہے یا کسی سازش کی پیداوار؟
بدعنوانی، ہیر پھیر اور لوٹ مار کی داستان سے زیادہ جو چیز جے آئی ٹی رپورٹ عیاں کرتی ہے‘ وہ پاکستان کی پرلے درجے کی گھٹیا حکمرانی ہے۔ کیا یہ چیزیں جو حکمران خاندان سے منسوب کی جا رہی ہیں کسی حکمران، منتخب یا غیر منتخب، سویلین یا فوجی کو زیب دیتی ہیں؟ صدر نکسن کسی اور جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے‘ صرف جھوٹ بولا تھا۔ وہ بھی بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہوئے تھے لیکن انہیں مسندِ صدارت چھوڑنا پڑی۔ صدر کلنٹن کے خلاف کارروائی عشق معاشقے کی وجہ سے شروع نہ ہوئی بلکہ صرف جھوٹ بولنے پر۔ یہاں غلط بیانی اور ہیر پھیر کی صرف داستان نہیں بلکہ ایک پورا انسائیکلوپیڈیا کھل گیا ہے‘ اور ہماری حکمران جماعت اور خود حکمران خاندان چیخ چیخ کے چلا رہا ہے کہ ہم پہ کوئی کرپشن تو ثابت نہیں ہوئی۔ ان کے خیال میں یہ ساری چیزیں‘ جن کا الزام لگ رہا ہے‘ کرپشن کے زمرے میں نہیں آتیں۔
پاناما پیپرز، آف شور کمپنیوںکی ملکیت کے بارے میں تھے۔ وہ فلائی اوورز، میٹرو بسیں اور اورنج لائن ٹرین وغیرہ کے بے تحاشا اخراجات یا کسی اور قسم کی کرپشن کے بارے میں نہ تھے۔ آف شور کمپنیوں کی ملکیت‘ جس سے حکمران خاندان انکاری تھا‘ روزِ روشن کی طرح ثابت ہو گئی ہے۔ لیکن سب کچھ سامنے آ جانے کے باوجود اپنی پارسائی کا ایسا شور مچا رہے ہیں کہ ان کی ہمت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
حالت یہ ہو گئی ہے کہ دوبئی کے حکمران شیخ محمد سے بات نہیں ہو پا رہی۔ حکومت کی وقعت اس سطح پر جا پہنچی ہے کہ شیخ محمد سے بات کرنے کی التجا کی جا رہی ہے۔ ایسے سکینڈل کے افشا ہونے کے بعد، ایسے کالے بادل جب سر پہ منڈلا رہے ہوں، تو کیا وزیر اعظم اس پوزیشن میں ہیں کہ اور سربراہان مملکت سے سیدھے منہ بات کر سکیں؟ کیا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے پُراعتماد لہجے میں گفتگو کر سکیں؟ خدا کا کرنا کہیے یا مکافات عمل‘ بہت کچھ سے بچتے آئے ہیں لیکن اب ایسے پھنسے ہیں کہ راہ نجات نظر نہیں آ رہی۔ اور ابھی تو یہ شروعات ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ کیا اندھیرے میں چھپا رہے گا؟ کیا دیگر مقدمات کی تلوار سر پر نہ رہے گی؟
جمہوریت کو خطرہ تب ہوتا اگر پاناما پیپرز میں اٹھنے والی داستانوں سے پہلوتہی کی جاتی۔ اگر سپریم کورٹ یہ مسئلہ اپنے ذمے نہ لیتی تو پاکستانی عوام کا جمہوریت، آئین اور قانون سے اعتماد اور بھروسہ یکسر اٹھ جاتا اور یہ سوچ مزید پختہ ہوتی کہ مملکت خداداد میں طاقتور طبقات اور اشرافیہ کے لئے ایک قانون ہے اور دوسروں کے لئے دوسرا۔ جو ڈر رہے ہیں اس کیس سے انہوں نے تو ڈرنا ہی ہے۔ ان کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے لیکن بہت دہائیوں بعد اگر پاکستان کے مستقبل کے بارے میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے تو یہ اس مقدمے اور اس سے پیدا شدہ بحران کی وجہ سے ہے۔ جیسا کہ چیئرمین ماؤ کہا کرتے تھے،
"There is great disorder under the heavens and the situation is excellent."

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں