ایک دو شامیں گزارنی ہوں پھر تو لاہور کا مزہ آتا ہے لیکن اس بار مجبوراً ہفتہ بھر رہنا پڑا اور پھر کانوں کو ہاتھ لگایا اور چکوال کی طرف رُخ کیا۔ اس مجبوری کے سفر کے بعد چکوال کی قدر صحیح طور پر آئی۔ قصہ یوں کہ یہ جو ہمارے سوشل میڈیا کے مجاہد بنے ہوئے ہیں کچھ ایسے ہیں اپنے نام پہ کچھ کرتے نہیں‘ اوروں کی ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی یہ ہوا‘ ٹویٹر یا ایکس کا اکاؤنٹ تھا‘ کبھی استعمال نہ کیا لیکن ایک گمنام مجاہد نے ہمارے نام سے ملتا جلتا اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے جہاں سے وہ اپنا جہاد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ جو حالیہ دنوں میں لاہور کے تعلیمی اداروں کے حوالے سے ہلڑ بازی ہوئی‘ اس میں ایسے کئی سوشل میڈیا مجاہدین پیش پیش تھے‘ کچھ نے رپورٹنگ کی ہو گی اورکچھ آگ پر تیل ڈالنے کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ ہنگاموں کے بعد شکایت ملنے پر ایف آئی اے نے لمبا چوڑا پرچہ درج کردیا اوردیگر ناموں میں وہ فیک اکاؤنٹ جو ہمارے نام سے ملتے جلتے نام سے چلایاجارہا ہے اُس کا ذکر بھی ہوگیا۔ بالواسطہ طور پر محکمانہ رابطہ ہوا توبتایا گیا کہ بڑا خطرناک معاملہ ہے ہم تو کسی کو اُٹھا نہیں رہے لیکن کوئی اور اُٹھارہا ہے لہٰذا احتیاط لازم ہے۔ کیا کرتے‘ جلدی میں چکوال سے اُٹھے اور لاہور کا راستہ لیا کہ کچھ دن بعد عدالت وغیرہ سے رجوع ہو جائے گا۔
قیام وہیں جہاں ہم غریب پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ ایک دو شامیں تواچھی گزر گئیں‘ راہِ الفت کے راستے بھی کچھ مانپے‘ وہ صحت کدہ جہاں تھکے ہوئے پٹھوں کی مالش کیلئے کبھی حاضری دیتے ہیں‘ وہاں بھی گئے پر ان راستوں پر کتنی دیر چلاجاسکتا ہے؟ ایک بات بتائے دیتے ہیں اوراہلِ ہنر تو یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ بنکاک کا سفرکریں ایک دو شامیں تو خوب گزر جاتی ہیں لیکن تیسرے دن راہِ الفت کا سوچنا بھی بھاری لگتا ہے۔ اب اس عمر میں ہم جیسوں نے کثرت بھی کتنی کرنی ہے‘ ہر ایک چیز کا ایک معیار اور پیمانہ ہوتا ہے‘ چار پانچ روز گزرے تو لاہور کی شامیں بھاری لگنے لگیں۔ آخری شب تو کھانا جلدی کھایااور دس بجے تک سو گئے۔ صبح سوچا کہ یہی کچھ کرنا تھا تو یہ چکوال میں بھی ہوسکتا تھا۔ بہرحال ممتاز قانون دان جناب اظہرصدیق کی وساطت سے متعلقہ سیشن عدالت سے ضمانت ہوئی تو پہلے ملک عرفان ایڈووکیٹ کی معیت میں ایف آئی اے دفتر میں حاضری دی تاکہ باقاعدہ شاملِ تفتیش ہو سکیں۔ ہمارے پرانے ٹی وی پروگرام کے پروڈیوسر بھی ساتھ ساتھ تھے۔ جب سے اُن سے رفاقت ہوئی ہے ایک دو مقدمات ہم پہ بنے ہیں اوروہ پھر ساتھ ہی رہتے ہیں۔ سلمان غنی کے بھائی صاحب بھی آئے ہوئے تھے جنہوں نے ہماری ضمانت دی۔ یوں یہ سارے مراحل طے ہوئے اور پھر ہم گاڑی میں بیٹھے چکوال کی طرف ہو لیے۔
یہ جو ٹویٹ کا مسئلہ ہے ہماری ٹویٹ کرنے کی عادت ہی نہ بن سکی۔ بتاتے چلیں کہ ایک دفعہ کسی خاتون یا کسی مبینہ خاتون نے ایکس پر اپنی بہکانے والی تصویر لگائی اورنیچے سوال یہ لکھا کہ رابطہ کرنا ہے؟ ہم جو سمجھدار ٹھہرے فوراً ایک ٹویٹ میں لکھ بیٹھے کہ بندہ حاضر ہے۔ کچھ دیر بعد ہی بیٹے نے میسج بھیجا کہ بابا کچھ خیال کریں‘ ایسے پیغامات ساری دنیا پڑھ سکتی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی ٹویٹ کی جسارت نہ کی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کافی سال قبل جب ہم اتنے باریش یا کم از کم ہمارے اتنے سفید بال نہیں ہوئے تھے تواسلام آباد میں ایک محفلِ شام میںبیٹھے ہوئے تھے۔ نوجوانوں کی محفل تھی‘ ہم اُن سے کچھ سال بڑے تھے۔ نوجوانوں کی محفل آپ سمجھ گئے ہوں گے کیسے چل رہی تھی۔ ساتھ ہی وہ خاص سگریٹوں پر کش لگا رہے تھے اور راحتِ شب اور ان کشوں کے درمیان جھوم جھوم کے قہقہے لگ رہے تھے۔ خیال آیا کہ اتنے مزے میں ہیں ہم بھی دیکھیں کس بات پر لُٹ ہو رہے ہیں۔ سگریٹ کا ایک کش ہم نے بھی لگا لیا‘ بخدا صرف ایک کش‘ لیکن چند لمحوں میں ایسا محسوس ہونے لگا کہ کسی دھوبی گھاٹ پر ہیں اور دھوبی ہمارے پیروں کو پکڑ کر ایسے گھما کے لتاڑ رہا ہے جیسے پرانے زمانوں میں دھوبی کپڑوں کے ساتھ کرتے تھے۔ بستر پر ٹیک لی اورایسے چکر آنے لگے کہ خدا کی پناہ۔ وہ دن اور آج کا دن اُس کش کی طرف نہیں گئے۔ یہی حال ہمارا ٹویٹ کرنے پر تھا‘ بیٹے نے جو سنائی توپھر کبھی ٹویٹ کی جسارت یا تمنا نہ رہی۔ اور یہاں ہمارا نام باقاعدہ پرچے میں درج تھا۔
مزید مزے کی بات یہ کہ یہاں ہم لاہور کے راستے ماپ رہے تھے اورپیچھے سے ہمیں پی ٹی آئی نارتھ پنجاب کے کسی سیکرٹری صاحب کا نوٹس موصول ہوا کہ پچھلے الیکشنوں میں آپ کو ٹکٹ سے نوازا گیا تھا لیکن آپ پارٹی کی کارروائیوں میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے اور کسی کارروائی میں آپ شامل نہیں ہوتے۔ سات روز میں اس نوٹس کا جواب دیں نہیں تو پتا نہیں آپ کے خلاف کیا ہوگا۔ کچھ ہنسی آئی‘ کچھ حیرانی بھی ہوئی پھر سوچا کہ جنگ اور عشق میں ایسا ہوتا ہے۔ چکوال سے لاہور جاتے ہوئے جہاں ہم نے اپنا سفری بیگ جلدی سے تیارکیا‘ وہاں ایک عقلمندی کی کہ سامانِ شب یہیں سے لے گئے اور اچھا ہی کیا نہیں تو لاہو رمیں مارے جاتے۔ یا کسی دوست کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے یا کسی مہربان کی دو نمبری کا خطرہ مول لینا پڑتا۔ ہمارے مسائل ہی کچھ ایسے بن چکے ہیں کہ ثواب کے کاموں کا جو حشرہونا تھا وہ تو اپنی جگہ لیکن ہم نے ہرگناہ بھی بے لذت بنا دیا ہے۔ سوچیں تو سہی کہ انسان تیارہوکر جیب میں کچھ ڈال کر شام کو نکلے سامانِ شب لینے کیلئے اوریہ دھڑکا لگا رہے کہ مارکیٹ کے مطابق یا کچھ مارکیٹ سے زیادہ پیسے بھی دیں اور ہاتھ نہ ہو جائے۔ یعنی اچھے کاموں میں ملاوٹ ایک طرف لیکن ہمارا ستیا ناس کہ برے کاموں میں بھی ملاوٹ کو ہم نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔ بتائیے ایسی قوم کا کیا بنے گا۔ بہرحال ہماری احتیاط کام آئی اوراس کے نتیجے میں مجبوری کی شامیں بھی اچھی ہی گزر گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہفتے کے بعد ہم نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور اپنے دل سے کہا کہ لاہور لاہور ہوگا لیکن ہماری بس‘ متواتر کی چھ شامیں ہمارے لیے کافی ہیں۔
واپس آتے ہوئے گانے کان سے لگائے ہوئے تھے اورکبھی آنکھ بند ہو رہی تھی کبھی کھلتی تھی۔ چکوال کا گھر ہمارا عین بازار میں ہے‘ ایک طرف شفیع کا کٹہرہ اور اُس کے ساتھ ہی چھپڑ بازار۔ کہنا تو چاہتا تھا کہ جب اپنے کوٹھے پر پہنچا لیکن کئی ایسے الفاظ ہیں جن پر ہمارے ماحول میں شرفا بدک جاتے ہیں اور اُن میں کوٹھا ایک ہے حالانکہ بے ضرر سا لفظ ہے اورہندوستان کی داستانوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ بہرحال نہیں استعمال کرتے اورلفظ چوبارے پر اکتفا کرتے ہیں۔ چوبارے پر قدم رکھا تویوں محسوس ہوا کہ راحت کا سانس لے رہے ہیں۔ اُس وقت بیچ بازار وہ ہمارا پرانا گھر چھجوکا چوبارہ نہیں لگ رہا تھا بلکہ ہمارے خیالوں میں گنگوبائی کی حویلی کی مانند تھا۔ لیکن ایک گواہی دیتے ہیں‘ اُس شب راحت ہوٹل سے دال منگوائی اور وہ کھائی۔ کوئی اور چیز لبوں کے اُس پار نہیں ہوئی۔ اورپھر جو نیند آئی اُس کا کیا کہیں۔
نصیحت سے زیادہ ترپرہیز ہی برتی لیکن جاتے جاتے آج ایک کر ہی دیتے ہیں۔ پرانی فلم ''بارہ دری‘‘ کا ایک گانا ہے '' درد بھرا دل بھر بھر آئے‘‘، ضرور سنیے گا ۔ اس لائن پر جھوم جائیں گے ''خوب مزے الفت کے اٹھائے‘‘۔