بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں

میں ستمبر 1945ء میں مری کے پُرفضا مقام پر محمد احسن علیگ اور رشیدہ احسن کے گھر پیدا ہوا۔ 1950ء میں لڑکیوں کے سکول‘ کوئین میری کالج لاہور‘ جہاں پہلے سے میری دونوں بہنیں پڑھتی تھیں اور میری والدہ جس کی اولڈ سٹوڈنٹ تھیں، میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ وہ عمر تھی جب لڑکیاں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ تین سال کی اذیت کے بعد جب لڑکیاں خوبصورت لگنے لگیں اور من کو بھانے لگیں تو اس سکول سے اٹھا کر خالصتاً لڑکوں کے سکول ایچیسن کالج لاہور میں داخل کرا دیا گیا۔ میرے لیے زندگی میں یہ سب سے پہلا دھچکا تھا ۔ کئی دہائیوں بعد مجھے کوئین میری کالج کی ایک سالانہ تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنا پڑی تو میں نے اسی کالج میں اپنے سابق تجربے کا ذکر کرتے ہوئے طالبات اور خصوصاً ان کی اساتذہ کو کالج میں خوشی خوشی آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا: 
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
ایچیسن کالج میں گزارے دس سال یوں لگتا ہے کہ دنیا سے دور کسی دلکش جزیرے میں گزارے ہوں۔ ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، ٹینس، گھڑسواری، سوئمنگ گویا پڑھائی کے علاوہ ہر میدان کی سہولتیں میسر تھیں‘ صرف پڑھائی ہی پر زور نہ تھا۔ اگر G.D. Lang Lands اور TLG Mullen جیسے برطانوی اساتذہ نہ ہوتے تو میں اور میرے ہم عصر طلباء شاید پڑھائی میں کورے کاغذ ہی رہ جاتے۔ ان اساتذہ نے ریاضی سے لے کر شیکسپیئر‘ ڈکنز‘ ہارڈی اور دیگر شعرا، ادیبوںاور مفکروں سے روشناس کرایا۔ ساری دنیا کی تاریخ اور جغرافیے کے نمایاں سنگ ہائے میل اور نقوش سے آگاہ کیا۔ 
اُردو شاعری اور ادب کا مزاج مجھے والد صاحب سے ملا‘ جو ہمارے بچپن ہی سے جب بھی کار میں سفر پر لے کے جاتے تو دوران سفر میر، غالب اور خصوصاً اقبال کے اشعار، نظمیں اور غزلیں پڑھ کر سناتے اور ان کی اصطلاحات اور استعاروں کو آسان اور سلیس الفاظ میں سمجھاتے۔میری والدہ رشیدہ احسن نے قسم اٹھا رکھی تھی کہ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو گا وہ ریشم نہیں اوڑھیں گی۔ مرتے دم تک انھوں نے یہ عہد نبھایا اور ہماری شادیوں پر بھی پاکستانی سوتی کپڑا ہی زیب تن کیا۔ سوتی ملبوسات میں آخر دم تک ماں کتنی خوبصورت لگتی تھی۔
1963ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو جیسے نئی دنیا میں آگیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد، پروفیسر اجمل ، ڈاکٹر امداد حسین اور پروفیسر رشید جیسے اساتذہ کی گھنی چھائوں میں بیٹھنے کا اعزاز ملا۔ طلبا میں وہ عہد سرمد صہبائی کا عہد تھا‘ جو ٹک شاپ میں محفل لگائے بیٹھا رہتا تھا۔ جبکہ شعیب ہاشمی انگریزی پڑھانے، ڈرامے کرنے اور کرانے کے علاوہ طالب علموں کی سوچ اور ان کے ذہنوں کو روشن اور کشادہ کرنے میں کردار ادا کر رہے تھے۔ ان اساتذہ کی نظروں میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی طلبہ سب برابر تھے۔ اس زمانے میں خالصتاً اور کٹر اسلامی گھرانے میں کرسمس کا کیک کاٹا جاتا۔ دیوالی کے دن مٹھائی بانٹی جاتی۔ گروؤں کی کرپا حاصل کرتے ہوئے جھجک نہ ہوتی۔ تفریق مذہب کی نہیں، طبقات کی تھی۔ آپس میں کوئی تلخی یا جھگڑا نہ ہوتا، اگر کشیدگی تھی تو گورنر پنجاب نواب امیر محمد خان کالا باغ کے ساتھ تھی جس کے خلاف ہم نے مظاہرے کیے اور میں زندگی میں دوسری مرتبہ گرفتار ہوا۔ یہاں ضمناً بتادوں کہ پہلی مرتبہ میں 1946ء میں اپنی والدہ رشیدہ احسن کی بانہوں میں اس وقت گرفتار ہوا تھا‘ جب میرے دادا چوہدری بہاول بخش اور والد احسن علیگ کے گرفتار ہو جانے کے بعد قائداعظم کی کال پر رشیدہ احسن نے بھی گرفتاری پیش کر دی۔
جیٹھ اور ہاڑ کے مہینوں میں گرمیوں کا زور اور شدت انتہا کو پہنچ جاتی۔ لو چلتی تو اس سے بچنے کی تدبیر کرتے ہوئے لوگ کمبل اوڑھ کے گھروں سے باہر نکلتے‘ لیکن ٹھنڈی سڑک یعنی سندر داس روڈ ٹھنڈی ہی ہوتی۔ اس وقت تک سڑکوں کو مسلمان نہیں کیا گیا تھا‘ ڈیوس روڈ اور لارنس روڈ، ڈیوس روڈ اور لارنس روڈ ہی کہلاتی تھی۔ نہر کا پانی، دریا کی طرح ریت سے آراستہ، مگر تازہ اور Invigorating تھا۔ ہم نہر میں نہاتے بھی اور کنڈی کے ساتھ آٹھ آٹھ انچ کی مچھلیاں بھی پکڑتے تھے۔ شام ہوتے ہی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بلا خوف نہر کنارے چہل قدمی کرتی نظر آتی تھیں۔ نہر کنارے اکثر جوان جوڑے پائوں پانی میں لٹکائے سرگوشیاں کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ تم ایک دوسرے کے کیا لگتے ہو؟ راوی اور چناب کا عالم یہ تھا کہ:- 
یہاں دریا کے بیلوں میں ہمیشہ مور پھرتے تھے
یہاں بچے ہمیشہ کھیلتے اور شور کرتے تھے
یہاں کی لڑکیاں دریا کنارے گیت گاتی تھیں
سبھی رانجھوں سے ہیریں سر کی بازی جیت جاتی تھیں
انہی میٹھی دھنوں میں بھیگی راتیں بیت جاتی تھیں
یہاں پنڈت پروہت اور ملا کا گزر نہ تھا
کسی چوچک کو عاشق کی ادا پہ عذر ہی نہ تھا
بسنت کی ڈور کسی کا گلا نہیں کاٹتی تھی اور سائیکل پر سارا شہر پھر آتے تھے۔ اکثر لڑکیاں سائیکلوں پر سفر کرتی تھیں، کوئی ان کو مڑ کے نہیں دیکھتا تھا اور کسی کا مذہب خطرے سے دوچار نہیں ہوتا تھا۔ ملکہ کے بت سے بھی مذہب کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ انسان تو انسان، شہر میں جگہ جگہ گھوڑوں کے لیے پانی پینے کا بھی اہتمام تھا۔ گمے ہوئے بچوں کو شام سے پہلے، کوئی نہ کوئی گھرپہنچا دیتا تھا۔ زندگی قدرے سست رفتار مگر پر سکون تھی جیسے جالب نے کہا تھا: 
یہ بجا زیست پا پیادہ تھی
دھوپ سے چھائوں تو زیادہ تھی
گورنمنٹ کالج سے بی اے کرنے کے بعد میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ڈائوننگ کالج کیمبرج چلا گیا۔ قانون کی تعلیم تو حاصل کی سو کی اور بہت کچھ سیکھا اور دیکھا۔ 
جان ہاپکنز قانون کا استاد ہی نہیں اپنے رویوں سے انسانیت کے اصول بھی ایک غیر محسوس انداز میں سکھاتا تھا، مثلاً وہ زندگی میں اپنی کسی بھی بات یا اپنے کسی بھی نظریے کو حتمی نہیں سمجھتا تھا اور ہر کسی کو ہر وقت اور صرف عدالت کے کٹہرے میں ہی نہیں، شک کا فائدہ دینے کا پابند تھا۔ اس کو لاکھ انگیخت کرو کہ فلاں پروفیسر تمہاری تھیوری کی پھبتی اُڑا رہا تھا: اس کا جواب لفظ ـ"Perhaps" یعنی شاید ہی سے شروع ہوتا تھا، مثلاً ''شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا‘‘ یا ''شاید میری تھیوری میں کوئی سقم رہ گیا‘‘۔ کسی طور بھی وہ اپنے آپ کو دنیا پر یا کسی دوسرے پر فوقیت دینے کو تیار نہ تھا۔
کیمبرج میں فاروق شاہ سے ملاقات زندگی کا ایک سرمایہ ہے۔ چکوال کا یہ لڑکامیرا ہم عصر تھا۔ چار سال پہلے شکار کھیلتے ہوئے دوسرے شکاری کی بندوق سے نکلے ہوئے چھرے لگنے سے کلی طور پر بینائی کھو بیٹھا تھا مگر کیمبرج میں دیدہ وروں کے ساتھ پڑھتے ہوئے دیدۂ بینا رکھے ہوئے تھا۔ فاروق شاہ برطانوی کسٹمز کے لیگل ایڈوائزر کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں اور اپنی بیوی راحیلہ کے ساتھ ایک بھر پور زندگی گزارنے کے بعد ریٹائرمنٹ کے آسودہ ایام گزار رہاہے۔
 
کیمبرج سے ڈگری حاصل کرنے اور لندن سے بار کا امتحان مختصر ترین اور ریکارڈ عرصے میں پاس کرنے کے بعد 1967ء میں پاکستان واپس لوٹا تو ہر کوئی سی ایس پی بنا بیٹھا تھا؛ چنانچہ یہ امتحان دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا لیکن میں تو لیفٹ کا اور سوشلزم کا آدمی تھا۔ امتحان دیا‘ متحدہ پاکستان میں اول پوزیشن بھی آ گئی۔ اب دشوار مرحلہ پیش آگیا۔ نوکری کروں یا نہ کروں؟ لوگ کہتے تھے کہ بھئی نوکری کرو، بادشاہت ہے۔ دل کہتا تھا کہ کارکنوں‘ مزدوروں کی وکالت کرتے کرتے کہاں جبر کرنے والے قبیلے میں شامل ہو جائو گے؟ والد اور والدہ نے اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا تھا۔ بہنوں اور بھائی کے دل میں تھا کہ سی ایس پی افسر بن جائے، مگر کوئی مجبور کرنے کو تیار نہ تھا۔ احسن علیگ کے خاندان میں مکمل جمہوریت تھی۔ بالآخر اوکاڑہ میں انگریزی کے پروفیسر اور میرے بہت قریب ماموں (مرحوم پروفیسر سعید احمد) کو میرے ساتھ بات کرنے پر مامور کیا گیا۔ ستمبر کا آخری ہفتہ تھا، ماموں سعید نے پوچھا: ''رزلٹ کب انائونس ہوا تھا‘‘؟ میں نے کہا: 14 جولائی کو۔ کہنے لگے۔ ذرا یہ سوچو اعتزاز کہ ان دس ہفتوں میں تمہارے لئے سو سے زیادہ رشتے تجویزہوئے ہیں۔میں ہنس دیا اور کہا ''مجھ سرخے کے ساتھ کس لڑکی کا مستقبل خراب کرنا چاہتے ہو؟‘‘ 
سی ایس پی افسر بننے سے میرے انکار کے بعد بھی جس لڑکی نے میرے ساتھ مل کر اپنا مستقبل بھی دائو پر لگانے کا ارادہ کر لیا‘ وہ بشریٰ سیف اللہ ہے۔ نورین، بشریٰ کی بہترین سہیلی ہے۔ فرید حسن میرا بہترین دوست۔ ان دونوں کی شادی پر ہماری ملاقاتیں ہوئیں۔ اب میرے لیے رشتوں کی پیشکشیںشاذونادر رہ گئی تھیں۔ ایک بشریٰ اور ان کی والدہ‘ باپ کیپٹن سیف اللہ خان اور آنٹی نذیر بیگم مان گئے، آئندہ کی جدوجہد اور آزمائشوں کے لیے ایک خوبصورت اور مضبوط ہمسفر نے ہاتھ تھام لیا تھا۔ 
یہ ہاتھ کتنا دلکش اور مضبوط تھا۔ اس کا احساس ستر کی دہائی کے اس زمانے میں ہوا جب ضیاالحق کے مارشل لا ء کے دوران مجھے بار ہا جیل جانا پڑا۔ وکالت بند ہوتی‘ آمدن صفر ہوتی‘ مگر بشریٰ تھی کہ بچوں کی تربیت اور تعلیم میں کوئی فرق نہ آنے دیتی، نہ ہی جیل کی محدوداور کربناک ملاقاتوں کے دوران ماتھے پر کوئی بل لاتی۔
ہاں، بیان کی روانی میں بات بشریٰ تک ہی پہنچنی چاہیے تھی اور پہنچ گئی، لیکن 1950ء تا 1980ء کا میرا قصہ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقاتوں کے ذکر کے بغیرمکمل نہ ہوگا۔ 6 اکتوبر 1970ء کے دن میں نے سی ایس پی کا عہدہ لینے سے انکار کیا۔ 8 اکتوبر کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں بھٹو صاحب سے جا ملا۔ اب میں سیاست کے لیے آزاد تھا، وہ بھی بہت حیران ہوئے کہ میں نے اتنا بڑا قدم کس زعم میں اٹھا لیا۔ لیکن میں اپنی گفتگو میں ان کو اس قدر متاثر ضرور کر پایا کہ جب چار سال بعد گجرات میں ایک ضمنی انتخاب کا مرحلہ آیا تو انہوں نے مجھے ہی ٹکٹ دیا اور پہلے روز ہی صوبائی وزیر مقرر کر دیا ۔
بھٹو صاحب کے ساتھ اور ان کی صوبائی حکومت میں بیتے ہوئے دنوں کی کئی یادیں ہیں اور گو ان کا تفصیلاً ذکر ضروری ہے مگر وہ سیاسی نوعیت کی یادیں ہیں۔ 
(لاہور میں پانچویں عالمی ادبی کانفرنس میں پڑھا گیا) 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں