خواب فروشوں کی پیش گوئیوں کے باوجود تاریخ کی چٹان سے وطن کا لڑھکنا نہ تھم سکا جب کسی ریاست کے نمائندے ڈھٹائی آمیز بے بسی سے کہنے لگیں کہ تعلیم،صحت اور امنِ عامہ کے تحفظ کی سہولتیں فراہم کرنا ہماری ذمہ داری نہیں،یہ کام نجی شعبہ کا ہے تو پھر وہ سب کچھ ہوتا ہے،جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔سرکاری سکول یتیم خانے،سرکاری ہسپتال گورکنوں کے شراکت دار اور سرکاری محافظ ڈاکوئوں کے جڑواں بھائی ہو چکے ہیں۔ممکن ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے چند نیک دل افراد اور انجمنیں مقامی مسلمانوں میں سے بھی ہوں،جنہوں نے اپنے وسائل سے سکول اور ہسپتال بنائے ہوں۔(مظفر گڑھ کے سردار کوڑے خان تعلیمی ٹرسٹ کے بارے میں تو میَں کچھ جانتا ہوں،مگر مٹھاس کے آرزو مند اس شخص کی وقف املاک کے ساتھ کیا ہُوا، اگر یہ ذکر چھڑاتو بات فنکشنل مسلم لیگ میں دوسری مرتبہ نو وارد ہونے والے خاتون نواز لیڈروں کی ہونے لگے گی،جو فی الوقت میرا موضوع نہیں) لیکن حقیقت میں بھارت نقل مکانی کرنے والے ’کفار‘ نے بہت سے ادارے یہاں بنا رکھے تھے،جنہیں تحریک ِ پاکستان میں خدمات کا کلیم پیش کر کے بڑے بڑے معززین نے ان پر قبضے سے اپنی سیاسی مہم جوئی کا آغاز کیا۔ استثنائی مثالیں بھی ہو ں گی،مگر عام طور پر ان اداروں نے اساتذہ کا استحصال کیا۔علامہ اقبال کے اشعار سے مزّین ان اداروں میں ایم ۔اے ،ایم ایس سی استادوں کو1972 تک سو سے ڈیڑھ سو روپے ماہوار مشاہرہ ملتا تھا مگر اپنے حسابات کو دیانت دار ثابت کرنے کے لیے ان سے تین سو روپے ماہوار کی وصولی پر دستخط لیے جاتے تھے۔تعلیمی اداروں کو قومیانے کے بھٹو کے فیصلے پر بے دردانہ تنقید تو کی جاتی ہے مگر افسوس اساتذہ کی وہ انجمنیں بھی اس فیصلے کے پس منظر کی گواہی نہیں دیتیں،جو بھوک ہڑتالیں اور استغاثے کرتی تھیں اور جواں سال عابد حسن منٹو کسی فیس کے بغیر عدالتوں میں پیش ہو کر نظریہ پاکستان کی اجارہ دار انجمنوں کے طریقِ استحصال کو نمایاں کرتے تھے اور کبھی کبھی کوئی عادل قلم ’علم انڈسٹری‘ کی آڑھت کے خلاف قانون سازی کی ہدایت بھی کردیتا تھا۔پھر جب ضیا ء الحق کا دور آیا اور پاکستان میں ہر برائی کی جڑ کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا،تب بھی بڑے بڑے خواب فروشوں کی پیش گوئیوں کے باوجود تاریخ کی چٹان سے ہمارے وطن اور اہلِ وطن کا لڑھکنا نہ تھم سکا،تا آنکہ نسیم آہیر اور فخر امام جیسے وزرائے تعلیم آئے،جنہوں نے یونیورسٹیوں کے بھرے جلسوں میں کہا’اچھی تعلیم ہر پاکستانی بچے کا حق نہیں،جو اس کے لیے وسائل رکھتا ہے،وہی اسے یہاں یا باہر جا کر پا سکتا ہے‘۔یوں تعلیم کے میدان میں پرائیویٹ سیکٹر کے نام پر وہ لوگ موثر ہوتے گئے،جن کے اوصاف کیا بیان کیے جائیں،مجھے رہ رہ کے ملتان کا وہ بوڑھا گھڑی ساز یاد آتا ہے،جس نے مجھ سے کہا تھا ’بیٹا،تمہاری قسمت ہی بری ہے کہ تمہارے حصّے میں میرے شہر کے اشراف نہیں ، قصاب آئے ہیں‘۔ بہرطور جب میَں ملتان یونیورسٹی میں اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا، جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے الحاق اور ان کے پروگراموں کو سندِ جواز عطا کرتی ہے تو میری کوشش تھی کہ کامرس،کمپیوٹر اور لا کی تعلیم دینے والے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ یہ ڈگریاں پانے والے اپنے روزگار کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر لیتے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں ہمیں ایک عبرت ناک سبق ڈیرہ غازی خان کے ایک ادارے کے سربراہ اور اس کے طاقت ور سرپرستوں نے سکھایا۔ان کے پاس کوئی موزوں عمارت تھی،نہ تجربہ کارباصلاحیت استاد اور نہ ہی قابلِ ذکر کتاب خانہ،مگر ایک سے ایک معزز ان کی سفارش ہمارے وائس چانسلر سے کرتا تھا،چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ گورنر خالد مقبول صاحب تک بھی ان معززین میں شامل ہیں،اس لیے ہاتھ کو نرم اور آنکھ کو خطا پوش بنائو۔ جب مقررہ وقت پر ہماری ٹیم پہنچی تو ہمیں اپنی سابقہ رپورٹوں پر شرمندگی ہوئی،کیونکہ ہمارے سامنے ایک دیدہ زیب عمارت تھی،جس کے کلاس روم تک ایر کنڈیشنڈ تھے۔شہر کے سب سے بڑے وکیل پرنسپل کے لیے آراستہ کمرے میں آٹھ طرف گھومنے والی کرسی پر بیٹھے تھے۔،کتاب خانہ ،اساتذہ کے تقرر نامے اور اکائونٹ رجسٹر بھی نک سک سے درست،سو ہم لوگ کافی مرعوب ہوئے اور جی میں یہ سوچ کر وہاں سے اٹھے کہ ان کی سفارش سنڈیکیٹ میں زور دار طریقے سے کریں گے،مگر ابھی ہم مظفر گڑھ تک ہی پہنچے تھے کہ ہمارے ایک بھلکڑ ساتھی کو یاد آیا کہ ان کا تعلیمی اسناد والا بریف کیس پرنسپل آفس میں رہ گیا ہے،سو ہم پلٹ کر آئے تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ کالج کا بورڈ اکھاڑ کے واپس اسی نام کے ہوٹل کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا تھا۔ کتابیں معروف وکیلوں کے گھروں میں واپس جا رہی تھیں،اسی لمحے یہ نکتہ بھی روشن ہوا کہ کلاس روم کے باہر411 وغیرہ کیوں لکھا تھا۔بہرطور ہم نے تو رپورٹ لکھی اور اس کی رپورٹ جنرل مشرف کے ’وزیرِ اعظم‘ خالد مقبول کو بھی بھیجی مگرگورنر صاحب نے اس کالج کے کرشمہ ساز پرنسپل کو سنڈیکیٹ کا رکن ہی نامزد کر دیا اور یوں میَں اس کمیٹی کی سربراہی سے مستعفی ہو گیا۔بہرطور میَں نے محسوس کیا کہ ان اداروں کے بزنس کا محور یہ ہوتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح دو سو سے ڈھائی سو سیٹوں کی منظوری حاصل کر لی جائے،چاہے داخل دس طالب علم ہی ہوں۔امتحان کے موقعے پر مختلف بس اڈوں پر ہاکر یہ ہانکا لگائیں کہ’ امتحان بس تیار ہے،اس میں اتنے پیسے دے کر بیٹھیں،لا کی،کامرس کی ڈگری حاضر ہے‘،اب تو یونیورسٹیوں کے لیے کسی علاقے کی قید بھی نہیں،اس لیے ہانکا لگانے والے بڑھ گئے ہیں۔