ظاہر ہے کہ میں اپنے وطن سے بہت چھوٹا ہوں،لیکن اگر ظُہور میں آنے کی تاریخیں کوئی معانی رکھتی ہیںتو میں اس اعتبار سے دو مہینے تین دن بڑا ہوں۔یہ اور بات کہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے سے چند ماہ پہلے مولانا عبدالقادر آزاد مرحوم کی طرح مجھے بھی احساس ہوا تھا کہ میری تاریخِ پیدائش پانچ سے دس برس پہلے کی لکھی گئی ہے،مگر میرے اس گمان کی تصدیق کے لئے مخدوم سجاد حسین قریشی جیسے نیک دل گورنر نہیں تھے۔بہر طور‘ میرا اور پاکستان کا لہو،مٹی،ہوا،پانی اورآگ ایک جیسے ہیں۔مجھے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے عناصر ترکیبی میں لہو کیوں ناگزیر عنصر کی حیثیت میں شامل ہو گیا۔ہم دونوں کو بتایا گیا کہ دنیا بھر کے مسلمان ہمارے بھائی ہیں مگر جب میں نے کتابوں میں پڑھا کہ افغانستان وہ واحد مسلمان ملک ہے جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ایک برس کی عمر میں ہی پاکستان کو اپنوں کے ہاتھوں کیا کیا سوغاتیں ملنا شروع ہوئیں۔ پھر ہم دونوں نے ہی کم عمری میں یتیمی دیکھی، رقت اور جذباتیت میں اپنے سر پر ہاتھ پھیرنے والے ہر ایک بردہ فروش کو اپنا دوست خیال کیا، جُوں جُوں ہوش سنبھالا‘ امداد کے نام پرہر اُدھار دینے والے کو اپنا محسن سمجھا۔ پہلی مرتبہ ہم سے چین کے وزیرِ اعظم چو این لائی نے کہا کہ ہم امداد کے نام پر سودی قرضہ نہیں دیتے جس کے عوض کوئی دھونس چلاتا ہے کہ ہماری مشینری خریدو اور اسے چلانے کے لیے ماہرین بھی ہمارے رکھو‘ نشے کی طرح اس ’امداد‘ کو دوستوں کی رگوں میں اتارا جاتا ہے۔ چین نے کہا‘ ہم اپنے دوستوں کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیںمگر کر نہیں پاتے اور جو معمولی سی مدد کرتے ہیں وہ قرض نہیں،گرانٹ ہوتی ہے؛ تاہم اس کا اعلان نہیں کرتے بلکہ شرما شرما کے دوست کے کان میں کہتے ہیں تاکہ ہمارے خود دار دوست کی انا مجروح نہ ہو۔ یہ اور بات کہ جونہی اس مدبر دوست نے یہ بات ہمارے وفد سے کی، اس کے کم ظرف ارکان نے خوشی سے ناچنا شروع کر دیا۔ ایوب خان اورذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایران اور ترکی کے ساتھ تعلقات مستحکم ہوئے اور عرب دنیا کے اس حصے سے بھی ہمارا تعارف ہوا جو مغرب نواز تھا۔ ایک قریبی دوست ملک کو سرپرست کا درجہ حاصل رہا جو ہمیں نقدی اور تیل کے ساتھ ہتھیار بھی دے دیتا تھا،مگر آہستہ آہستہ زکوٰۃ کے مہینے سے بھی پہلے ہماری گداگر چٹھیوں اور خود ان کی امریکیوں سے مشاورت نے ہماری حیثیت اس ندیدے بچے جیسی بنا دی جس کی خا طر تجوری کے ساتھ ساتھ فرِج کو بھی مقفل کر دیا جاتا ہے۔ہم‘ جنہیں یہ زُعم رہا کہ ’ہم‘ نے ایک سپر پاور روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے، گزشتہ دو عشروں سے محض’ساگو دانہ‘ لے رہے ہیں۔اگر ہم واپس معمول کی غذا پر چلے جائیں‘ بِب اتار دیں‘ رالیں ٹپکانے کی عادت پر قابو پا لیں اور اُن مہربان دوستوں کا انتظار چھوڑ دیں جو ہمیں دو وقت کی روٹی، آٹھ پہر کی چاکری عنایت کر دیتے تھے تو شاید تنہائی کے آسیب سے نکل آئیں۔اگر تو ہم تاریخ ناولوں کے ذریعے سے نہیں، سیاسی و عسکری بیانات سے نہیں اور معیشت کے گُر ’قرضِ حسنہ‘ کے سہارے سے بھی نہیں سیکھ رہے تو جی کڑا کر کے نئے سرے سے ایسے دوست تلاش کرنا شروع کریں جنہوں نے یتیم پروری کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا۔ آخرانہیں ہمار ی دوستی میں اپنا گھر ہماری طرح ویران نہیں کرنا۔ انہوں نے مفت تیل دینا ہے نہ گیس،نہ پاکستان کے آخری وزیرِ ریلوے پرترس کھا کے انجن مفت دینے ہیں۔ اس لئے آئیے پہلے تین دوست ہی تلاش کر لیں۔ ایران، چین اور ترکی سے گنتی شروع کریں۔ترکی سے ہمیں اور انہیں ہم سے بہت محبت ہے مگر ہمیں ’کارکے‘ شپ والی بجلی کا نرخ بھی یاد رکھنا ہے اور موٹر وے بنانے والی کمپنی کی بد مزہ مقدمہ بازی بھی۔ چین ہمارا بہت عزیز دوست ہے مگر یہ سینڈک پرا جیکٹ اور ناقص ریلوے انجن اور بوگیاں بھی کہیں نہ کہیں ایک آنکھ کھلی رکھنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے بہت ہی قلبی مراسم ہیں۔ابھی ایرانی صدر کی ایک روح پرور فی البدیہہ تقریر میں نے اقبال کے درس ِ خودی کے حوالے سے سنی ہے جس کے آخر میں انہوں نے اپنے عملے کو اشارا کیا توایک بریف کیس سے کلیاتِ اقبال کا منقش نسخہ نکالا گیا اور دیر تک انہوں نے اقبال کا کلام خود پڑھ کر سنایا۔ اسی طرح گیس پائپ لائن کا افتتاح بھی ہماری زندگی کے اس مرحلے پر بہت اہم واقع ہے مگر اسی موقعہ پر میں اپنے بعض زعما کی تقریروں سے شرمسار بھی ہوتا رہا جو گڑ گڑا کے اپنے دوست ملک کے صدر سے کہہ رہے تھے کہ بنام پروردگار ہمیں ہمارے حاکموں سے نجات دلائیے۔ اب ایسی ’حملہ طلب‘ دعوتوں اور مکتوب نگاری سے ہمیں پرہیز کرنی ہو گی۔محسن نقوی ڈیرہ غازی خان کے ایک بزرگ صحافی کا قصہ سنایا کرتا تھا جو ہر نوجوان مہمان سے کہتا تھا ’’سائیں تساں ای کرنے جو کجھ کرنے، میڈے کول کوئی توقع نہ رکھائے اصلوں‘‘ (جو کچھ کرنا ہے آپ ہی کو کرنا ہے‘ مجھ سے ہرگز کوئی توقع نہ رکھنا)۔ ہم یہ انتظار کرنا بند کریں کہ کوئی باہر سے آ کر جہالت،مفلسی اور بد امنی سے ہمیں نجات دے گا۔کب تک ہم بیوقوف بچے ہی بنے ر ہیں گے؟ ہربچہ65 سال کا ہو کر سیانا ہو جاتا ہے اور دوست اور بردہ فروش میں امتیاز کرنے لگ جاتا ہے۔