’’آج ایک امیدوار مسمی اسداللہ خان غالب ولد عبداللہ خان ترک کے کاغذاتِ نامزدگی تین سو دو اعتراضات کے ساتھ ہمارے رُوبرُو لائے گئے۔اس کے تجویز کنندہ کراچی کے کوئی انور مقصود ہیں کہ بقول خود اپنے استاد خواجہ معین الدین کی وصیت کے احترام میں یہ کام کر بیٹھے ہیں جبکہ تائید کنندہ لاہور کے کوئی ڈاکٹر سلیم اختر ہیں جو اپنے شاگرد ڈاکٹر طاہر تونسوی کے اصرار پر ایسا کرنے پر مجبور ہوئے ۔اول تو محض اسی بات پر امیدوار کے کاغذات مسترد کیے جا سکتے تھے کہ تجویز و تائید کنندگان الگ الگ لسانی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں،دوسرے امیدوار کا اپنا مستقل پتہ نزد آستانہ نظام الدین اولیا،بستی نظام لکھا ہے مگر عارضی پتہ اسلام آباد کے پروفیسر فتح محمد ملک کے گھر کا ہے۔ایک محب وطن فرد کے ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ نادرا کے چیئر مین طارق ملک کا ان کے ہاں بہت آنا جاناہے۔ امیدوار کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اردو اور فارسی میں کتابیں لکھی ہیں (امیدوار کے بیانِ حلفی میں بھی یہ عجیب فقرہ درج ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو غرور بالکل پسند نہیں ’’میَں نے اردو کو دہلی سے اصفہان پہنچا دیا ہے اور فارسی کو شیراز سے ہندوستان لے آیا ہوں‘‘) مگر مقام عبرت ہے کہ اس کی سند تو کیا،درس گاہ ہی فرضی ہے۔ایچ ای سی کے ریکارڈ میں نہ ہرمزد پارسی کا نام فارن فیکلٹی میں درج ہے اور نہ منظور شدہ نگرانِ مقالہ کے طور پر کسی ملّا عبدالصمد کا نام موجود ہے۔امیدوار کے بارے میں یہ ریکارڈ پر لایا گیا ہے کہ وہ کئی معزز شہریوں کے نادہندہ تھے اور کئی نالشیں تقریباً ڈیڑھ صدی سے زیرِ التوا ہیں؛ البتہ ریکارڈ پیش کیا گیا کہ امیدوار باقاعدہ ماخوذ ہو کر جیل میں بھی رہا ہے۔جرم قمار بازی تھا مگر وہ جو کہتے ہیں’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘ تو ڈاکٹر سلیم اختر جیسے عمر رسیدہ استاد نے صفائی میں جب کہا کہ ’’یہ مقدمہ دراصل ایک طوائف کے حوالے سے کوتوالِ شہر کی رقابت کے سبب قائم ہوا‘‘ تب سے اس بندۂ ناچیز پر ریٹرننگ افسر کے لیے اپنے اشتعال پر قابو پانا دشوار ہو گیا؛ چنانچہ ڈاکٹر سلیم اختر کے ساتھ آئے دیگر افرادحق کی کڑک سن کر ادھر ادھر ہو گئے۔ امیدوار کے اثاثوں کے مظہر نامے میں جو دیوان اردو کا اور کلیاتِ فارسی منسلک ہے،ان کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیدوار کی ساری شاعری ہی فسق و فجور سے بھری ہوئی ہے،اب بتائیے یہ شرک نہیں تو کیا ہے؟ جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟ شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟ نگہِ چشمِ سُرمہ کیا ہے؟ سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟ یہی نہیں‘ اس گستاخ نے یہ بھی کہا ہے: قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن دیر و حرم آئینۂِ تکرارِ تمنا واماندگیٔ شوق تراشے ہیں بے پناہ قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے خدا بھلا کرے،ایک قبر رسیدہ صاحبِ کردار تاریخی ناول نگار کا،جنہوں نے امیدوار کے یہ فارسی اشعار تشریح کے ساتھ پیش کیے: زنہار ازاں قوم نہ باشی کہ فریبند حق را بہ سجودے و پیمبر را درُودے نہ چنانم کہ بر عقیدۂِ خویش از فسوں کسے ہراس کنم نہ توانم کہ از نصیحت و وعظ عالمے را خدا شناس کنم اب جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسداللہ خان غالب کے کاغذاتِ نامزدگی بڑی حقارت سے مسترد کیے جارہے ہیں،عدالت اس امر کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتی ہے کہ کراچی کے انور مقصود نے ایک شخص شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی کے ایک مضمون ’ایلیکشن‘ کا تراشہ پیش کیاجو ہفت روزہ ’لیل و نہار‘ میں 7 تا13 دسمبر1970ء کی اشاعت میںشائع ہوا ہے۔نقلِ کُفرکُفر نباشد: ’’دونوں گروہوں نے سونے کے چوہے دان بنوائے ہیں، ایک نے اپنے چوہے دان کے آنکڑے میں حیات ِفردا کی شیرمال آویزاں کر دی ہے اور خدّامِ اَنام نے اپنے چوہے دان میں حیاتِ امروز کی روٹی کا ٹکڑا لٹکا دیا ہے اور یہ دونوں چوہوں کی کھٹکا کے انتظار میں ڈھکی لگائے بیٹھے ہیں‘‘۔ اسی مضمون کے آخر میں قوم سے اپیل کی گئی ہے کہ ’’ووٹ دیتے وقت یہ ضرور دیکھیں کہ امیدوار نے جوانی میں کبھی دل لگایا ہے یا نہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ اعلیٰ قسم کی اورپختہ لیکن سستی شراب کشید کرنے کے واسطے بھٹیاں قائم کرے اور ایسے افراد کے نام اجازت نامے جاری کرے جو صحتِ جسمانی، سلامتی عقل اور شرافتِ نفس کی بنا پر بادہ خواری کی اہلیت رکھتے ہیں‘‘۔ لاحول ولا قوۃ، اگر پورے ملک میں کہیں اس مضمون نگار نے یا انور مقصود نے بھی کہیں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا رکھے ہوں تو انہیں بھی مسترد تصور کیا جائے۔