"AAC" (space) message & send to 7575

ایمپائروں کے لئے سزا،ایک ’ہاں ٹھار ‘خبر

ہم سرائیکی ،دل دوز یا دل سوز کو’ہاں ساڑ‘ کہتے ہیں اوردل رُبا یا دل خوش کن کو’ہاں ٹھار‘ کہتے ہیں۔’من ٹھار ‘بھی یہی ہے۔’من ساڑ‘ افراد اور بیانات تو بہت ہیں مگر فی الوقت ہم انہیں ’ہاں ساڑ‘ ہی کہتے ہیں۔ان میں گیلانی صاحب کا تازہ ترین انٹر ویو بھی شامل ہے جس میں سولہ سنگھار کر کے وہ پھر مضحکہ خیز انگریزی بول رہے تھے جس کا ذکر وکی لیکس میں متعدد اوراق میں ہے؛ حالانکہ یہ کوئی قومی راز نہیں ۔اہلِ ملتان بخوبی جانتے ہیں کہ ملک بشیر احمد مرحوم کی خدمات کے باوجود وہ کیوں ایف ایس سی مطلوبہ معیار کی نہ کر سکے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی آل اولاد کا بلکہ ان کے بچوں کے دوستوں کا بھی درس گاہوں کی باقاعدہ ڈگریوں کے اہلیت نا شناس نظام سے ایمان ہی اٹھ گیا ۔ ہمارے دوستوں اور شاگردوں میں جو ازلی قنوطی ہیں،ان کی محفل میں جائیں تو آپ کو ’ہاں ساڑ‘ قسم کی خبریں،تجزیے،رپورٹیں اور سوگوار شکلیں ملیں گی جو اپنی خوشی کو گلوگیر بنا کے بتاتے ہیں’ٹائی ٹینک‘ ڈوب رہا ہے،آخری ماتمی دُھن تیار کر لی گئی ہے۔ اب تک کے طاقت ور کرسی نشینوں کی تو ساری طاقت یہی رہی ہے کہ ان کی بے توفیقی ان کی نزعی تقریر سے پہلے کبھی ظاہر نہ ہو ئی مگراب کے ماجرا اور ہے۔ اربابِ اقتدار کے بارے میں پوری طرح ظاہر ہو گیا ہے کہ لوٹ مار کے سوا مرکز اور صوبے میںان کا ہدف کچھ اور نہ تھا۔ان کے بس میں یہی کچھ تھا سووہ لوگوں پر برق بن کے اس طرح گرے کہ اب ہمارے شہر میں وہ ڈاکٹر تک محبوبِ خلائق ہو گیا ہے جو لوڈ شیڈنگ کے اس زمانے میں بھی علاج بذریعہ بجلی ہی کرتا ہے۔میں بھی اس کلینک کی زیارت کے لئے گیا تھا۔ پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب کے کمپائونڈر کا نام بجلی ہے۔ اس طرح وہ شق62,63پر پورے اترتے ہیں۔ویسے یہ باسٹھ تریسٹھ بھی روز مرہ بن گیا ہے۔امید ہے کہ جلد’پورے سولہ آنے‘ جیسے محاورے کی جگہ لے لے گا ۔گزشتہ دنوں ایک کلاس فیلو ملنے کے لئے آئے اور اپنے بیٹے کے لئے ایک معقول رشتہ اپنے ملنے والوں میں ڈھونڈنے کوکہا ،ساتھ ہی اضافہ کیا کہ لڑکاصاحبِ کردار ہے،باسٹھ تریسٹھ کا پورا ہے۔میں نے پریشانی میں پوچھا:کم بخت،اپنے لئے ڈھونڈھ رہے ہو؟ جواب دیا :آئین کی یہی دو شقیں تو اب عوام کو حفظ ہو چکی ہیں۔ سواس مرتبہ ووٹر کئی سیاسی جنازے پڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مشاق یا ڈھیٹ قسم کے امیدوار اپنی اپنی پسندیدہ لائف جیکٹ کے ساتھ انتخابات کے عمل میں چھلانگیں لگا چکے ہیں ۔ان میں پنجاب کے ایک سابق وزیرِ تعلیم بھی ہیںجو میاں صاحبان کے دستِ حق پرست پر دوبارہ بیعت کر چکے ہیں۔کچھ برس پہلے جب میں ایک ثانوی تعلیمی بورڈ کی ایک کمیٹی کا رکن تھا،تب اس رجسٹرڈ محبِ وطن کے بارے میں یہ شواہد لائے گئے کہ وہ پنجاب کے ہر تعلیمی بورڈ سے ایک ایک گاڑی لے چکے ہیں۔اب جب کہ انہیں سابق وزیرِ تعلیم ہوئے بھی ایک زمانہ بیت چکا،نہ صرف یہ کہ گاڑی واپس نہیں آئی بلکہ اس کا سالانہ ایندھن بھی بورڈ فراہم کر رہا ہے۔اس پر میں نے ایک قرارداد بھی جناب چیئر مین کی مزاحمت کے باوجود منظور کرائی تھی اور اس کی نقل وزیر اعلیٰ کو بھجوائی تھی۔ مجھے خوش فہمی تو نہیں کہ مجھ ایسے مکتوب نویس کی تحریریں پڑھتے رہے ہوں گے مگر خوش خیالی پر مبنی دعوے تو عام ہیں،بہرحال انہیں پھر سے رائے ونڈ یا ماڈل ٹائون میں پذیرائی بخشی گئی اور کیا عجب کہ پھر سے اندھیرے بانٹنے کے لئے وہ دوبارہ وزیر تعلیم ہی ہو جائیں۔ مگر ہمارے لئے ’ہاں ٹھار‘ بھی کئی خبریں ہیں کہ پاکستان میں کھلاڑیوں کے بعد ایمپائروں کی بھی باری آ گئی ہے اور انہیں بھی سزائیں ملنی شروع ہو گئی ہیں۔میری متعصبانہ یادداشت میں سرور سکھیرا کے ’دھنک‘ میں شائع ہونے والا ایک کارٹون اس سیاسی تاریخ کے پہلے مُصوَّر باب کی طرح محفوظ ہے جس کا آغاز مردِ مومن،مردِ حق ضیا ء الحق سے ہوا تھا۔آپ کو یاد ہو گا کہ انہوں نے پہلے بیان میں فرمایا تھا کہ میں تو ایک ایمپائر کا کردار ادا کرنے آیا ہوں۔کارٹون میں ایک کرکٹ میچ کا منظر تھا۔پی این اے فیلڈنگ کر رہی تھی،نواب زادہ صاحب پھندنے والی ٹوپی کے ساتھ کپتانی کر رہے تھے۔بھٹو بیٹنگ کر رہے تھے اور مفتی محمود اپنی ایک وائیڈ بال پر اپیل کر رہے تھے اور ریفری اپنی مشہورِ زمانہ مسکراہٹ کے ساتھ فرما رہے تھے ’’پوری ٹیم ہی آئوٹ ہے‘‘۔اسی طرح تحریکِ انصاف نے آسان فہم زبان میں اپنا وہ منشور پیش کر دیا ہے جس پر شاید عمل در آمد ہو سکتا ہے ؛حالانکہ آپ کو اندازہ نہیں ہو گا کہ عمران خان کی جانب سے 69 وزارتوں کو19 میں تبدیل کرنے کے ارادے نے ہماری سرکاری جونکوں کو کس درجہ مشتعل کر دیا ہو گاکیونکہ میں خود دیکھ چکا ہوں کہ ایک ایک وزارت میںساٹھ سے ستر ایسے افسر ہوتے ہیںجن کا ایک ہی کام ہوتا ہے کہ اداروں کو اپنے جیسا یعنی عوام دشمن مگر امداد طلب بنانا۔یہ آپس میںاگر لڑتے ہیں تو مراعات،ڈرائیوروں کی کمان سنبھالنے، گاڑیوں، بیرونی دوروں اور پلاٹوں پر اور صلح بھی کرتے ہیں تو انہی کی خاطر۔تاہم اچھی یا بری خبروں میں سے ہمارے وفاقی وزیر داخلہ اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ میاں صاحبان میں سے کسی ایک پر حملے کی صورت میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ خدا ہمیں ایسی ہر مشکل سے محفوظ رکھے جو الیکشن کے التوا کا باعث ہو۔ بڑے میاں صاحب کے لئے میں اپنے کلمہ ٔ تحسین عام طور پرچھپا کے رکھتا ہوں کہ میں جس لیڈر کو پسند کرنے لگتا ہوںاس کی سنائونی عدلیہ سے آ جاتی ہے یا باسٹھ تریسٹھ کے علم لہرانے والوں کی توجہ اس طرف ہو جاتی ہے ؛حالانکہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی بہت سی رپورٹوں کے بارے بھی عوام الناس میں عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں