شمشاد بیگم نے نوشاد کے میوزک میں کئی لازوال نغمے گائے مگر شاید ہی برّصغیر میںکوئی باذوق ہو جسے ’چھوڑ بابل کا گھر‘ جیسا گیت گانے والی یاد نہ ہو۔ وہ سریلی روح‘ جس نے چورانوے برس کی دنیاوی عمر پائی اور جو اپنی کم روئی کے سبب ہر طرح کے چوکس کیمرہ مین سے چھپتی رہی۔ تب میرے باذوق دوست محبوب جیلانی جیسے کئی سادہ لوح تھے جو برقع میں لپٹی شمشاد بیگم کے لیے بعض فلمی مبصرین کی طرف سے دیے گئے لقب ’کوئلِ ہند‘ کا بُرا مناتے تھے۔ ویسے ہم جب دو قومی نظرئیے کی ثقافتی جہت کی بات کرتے ہیں تو ساٹھ پینسٹھ سال پہلے کے اداکاروں، گلوکاروں اور فلم سازوں کے اس مقابلے کو بُھلا دیتے ہیں جو اکھنڈ بھارت اور پاکستان کے لیے پُرجوش لوگوں کی چوپالوں میں سے گزرتا ہوا رقابت میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ محمد رفیع بمقابلہ کشور کمار، طلعت محمود بمقابلہ مکیش، دلیپ کمار بمقابلہ راج کپور، نوشاد علی بمقابلہ شنکر جے کشن، نور جہاں بمقابلہ لتا منگیشکر وغیرہ مگر تاریخی ناولوں کے زیرِ اثر سارے ہندوانہ ناموں والی ہیروئنوں پر جان دینا ہمارا ملّی استحقاق تھا، یہ اور بات کہ کوئی رئوف کلاسرہ جیسا’ دستاویزی ثبوتوں والا باخبر ذریعہ‘ بیچ بیچ میں ان بیبیوں کے قبولِ اسلام کا قصہ چھیڑ کر ہمارے تخیّل کو رنگین بنانے والی کافرانہ دل ربائی کو کم کرنے کی کوشش کرتا۔ اس زمانے کے لیڈر گنجے پن کو چھپانے کے لیے نہ وِگ رکھتے تھے، نہ ہیئر ٹرانسپلانٹ کراتے تھے، سو تب حجام صرف دو ہی آپشن دیتے تھے، دلیپ کمار کٹ، راج کپور کٹ۔ لاہور کے لنڈا بازار میں راج کپورسے منسوب کوٹ زیادہ ملتے تھے‘ جو اے جی آفس کے ان بابوئوں کے کام آتے تھے جنہوں نے دفتروں میںصرف پہلی کی پہلی آنا ہوتا تھا؛ تاہم یہ ان کی انسانیت پروری ہے کہ اپنی پے سلپ کے تعاقب میں میرے جیسے رحیم یار خان سے آنے والے بیوقوفوں کو مزید ٹھگانے کے لیے اپنی میزوں پر یہ اضافی کوٹ اپنے نعم البدل کے طور پر رکھ دیتے تھے اور اس زمانے کے چپڑاسی ابھی نائب قاصد نہیں ہوئے تھے، اس لیے بڑی بشاشت سے کہہ دیتے تھے: ’بائو جی‘ اک نہ اک دن تے آن گے ای، انشاء اللہ آپنی سیٹ تے‘۔ شمشاد بیگم کے اس گانے کے بول تو تھے ہی جادو بھرے‘ دُھن بھی ایسی تھی کہ جنہوں نے ابھی بابل بننا تھا یا جنہوں نے ابھی بابل کے آنگن سے رخصت ہونا تھا وہ سب کے سب دھاڑیں مار مار کے رونے لگتے تھے۔ ہمارا سیاسی اور سماجی شعور اتنا پس ماندہ تھا کہ کبھی ذہن میں یہ سوال آتا ہی نہیں تھا کہ کیا اس برّصغیر کے سبھی بابل گھر والے ہیں؟ بہرطور یہ وہ دور تھا کہ سفید پوش بابل بیٹیوں کی رخصتی سے پہلے ہاتھ جوڑنے کے عادی ہو جاتے تھے، پہلے جہیز کی روزافزوں فہرست لانے والوں کے سامنے، پھر اپنے قرض خواہوں اور ساہوکاروں کے سامنے، پھر اپنے روٹھے عزیزوں کے سامنے اور پھر اپنی بیٹی سے سرگوشی میں یہ وصیت نما اپیل کرتے ہوئے ’بابل کے گھر سے تمہاری ڈولی اٹھ رہی ہے اب جنازہ ہی آنا چاہیے‘۔ آپ کو پتا ہے کہ سسرال والوں کے کان زیادہ حسّاس ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس اپیل کو شرفِ قبولیت بخش کے پہلے دن سے ہی عمل درآمد شروع کر دیتے تھے۔ تب ظاہر ہے کہ مواصلات کے ذرائع پس ماندہ تھے، موبائل فون کا کوئی تصور نہیں تھا کہ دلہن اور اس کی والدہ کے مابین پیغامات کا برق رفتار تبادلہ ہوتا یا ابتدائی گرم جوش تصویریں تک فیس بُک پر پہنچ جاتیں‘ اس لیے کبوتر، کوّے اور ہاتھوں سے گرنے والے آٹے کے پیڑے دلہن کے ماں باپ تک پیغام رسانی کیا کرتے، ہاں کبھی کبھار کوئی سیاّح یا سادھو خبر لاتا کہ ہم نے تمہاری لاڈلی کی آنکھوں میں دیکھا تھا کہ کاجل ٹھہرتا ہی نہیں تھا اور بابل تبھی ایک خط لکھنے بیٹھ جاتا تھا کہ ’بٹیا رانی! اس دنیا میں تمہارا اور ہمارا مالک وہی ہے جو تمہارے گھر والا ہے، جتنی اس کی اطاعت گزار بنو گی، اتنی باقاعدگی سے تمہارے جہیز کے لیے قسطیں اتر سکیں گی، شاید تمہیں پتا چلا ہو کہ منجھلی کے ہاتھ تو بڑے بخار نے اس بیساکھ سے پہلے ہی پیلے کر دیے تھے، پر چھوٹی تو تم سے بھی لمبی نکل رہی ہے، اب اس کی فکر ہے‘۔ ہم جب بڑے بڑے لوگوں کو دامادوں کی خوشنودی کے لیے اپنی موجودہ اور آئندہ کر خوشیوں کا سودا کرتے دیکھتے ہیں تو مجھے اپنے شہر کے ایک کم نصیب بابل کا قصہ یاد آجاتا ہے جس کی بیٹی کا گھر ایک مرتبہ اجڑ چکا تھا جب وہ آمدنی سے کوسوں دور تھا۔ پھر جب محدود سا امکان پیدا ہوا تو اپنا بیٹا تک آوارہ دوستوں کی صحبت میں بگڑ چکا تھا، بہن کے حوالے سے اسے ماں نے کچھ ذمہ داریاں یاد دلائیں تو وہ اپنے سے بھی زیادہ جعل ساز اور نکمّا گھر میں لے آیا جس نے شاید گھر تو حسبِ وعدہ کیا آباد کرنا تھا، گھرانے کی بچی کھچی ساکھ بھی لے ڈوبا۔ بہر طور ایک وہ بابل تھا، جس کے دکھوں کی تصویر شمشاد بیگم کے اس لازوال گانے کے ساتھ مجسم ہو جاتی تھی اور ایک وہ بابل ہیں جو اپنی اولاد کے بگاڑ کے بعد اجتماعی اصلاح کا جارحانہ ٹھیکہ لے لیتے ہیں، مگر کیا کیِا جائے، بابل خسیس ہو یا فیاض، راندۂ درگاہ ہو یا رونقِ بارگاہ یا مقربِ درگاہ ہو، بگڑی اولاد کا تاوان مرتے وقت تک دیتا رہتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ بالزاک کے ’بڈھا گوریو‘ کے آخری منظر کا حوالہ دیا جائے، وہ تو بیٹیوں اور ان کے چاہنے والوں کا بھی گرویدہ تھا، مگر اس کے لبوں پر آخری کلمات کیا تھے۔