آپ مانیں یا نہ مانیں، پاکستان میں سب سے آسان کام سیاسی لیڈروں کی تضحیک اور تخفیف ہے،مگر ہر ایک کے مداحوں کا اپنا ایک حلقۂ اثر ہے،آپ جتنی چاہیں الزام تراشی کر لیں،لطیفے بنا لیں اور افواہیں پھیلا دیں ،ان کے ایسے چاہنے والے ہیں،جو ان میں سے کسی ایک پر یقین نہیں کریں گے بلکہ اکثر ان پر ایسی مہمات کا الٹا اثر ہوتا ہے،یہ تو بعد میں ہوا کہ بعض سیاسی جماعتوں نے کچھ عسکری ونگ بنائے اور ان کے ہاتھ میں پہلے لاٹھیاں،پھر بندوقیں اور اس کے بعد کلاشنکوفیں تھما دیں۔ اب تو سوڈے کی بوتلوں اور ہاکیوں جیسے معصوم ہتھیاروں پر رشک آتا ہے۔ استاد دامن سے کسی نے پوچھا تھا کہ لاہور کے مشاعرے لوٹنے میں کون سا شاعر پہلے نمبر پر آتاہے؟‘انہوں نے کہا ’پُتر،جیدے نال ہاکیاں والے زیادہ ہوندے نیں‘۔ اب اتنی بات تو سب کو معلوم ہے کہ جی،سی کے مہذب بابوئوں کے مقابلے میں اسلامیہ کالج کے نوجوان ہاکیوں کے استعمال کے گُر سے زیادہ واقف تھے۔ بہرطورایسے لیڈروں کے سحر،کرزمے یا کشش کے سبب ہم پارٹیوں کے لاکھ انتخابات کرالیں،جمہوری ڈھانچے بنا لیں،مگر لوگوں کی نگاہیں قیادت پر ہی مرکوز ہوتی ہیں اور خود قائدِ محترم کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جیتے جی تو کیا،مرنے کے بعد بھی کوئی ان کی جگہ نہ لے سکے۔جناح پیپرز میں ہم سب کے قائد اور لیاقت علی خان کے’مثالی تعلق‘ کی باریکیوں کو جاننے کے کئی مواقع اور مقامات ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے اعلان کردہ جانشینوں معراج محمد خان،غلام مصطفی کھر سے کیا سلوک کیا‘ یا ان جانشینوں نے بھی عاشقانہ اضطراب میں کیا کیا ’خفیف الحرکتیاں ‘ کیں،وہ سیاسی تاریخ کے اہم ابواب ہیں،بلکہ گذشتہ دنوں جنابِ نجم سیٹھی نے ایک طویل ملاقات غلام مصطفی کھر سے کی تو مجھ ایسے خوش فہم کو توقع ہوئی کہ انہوں نے اپنے اشاعتی ادارے کے لیے ایک اور ہنگامہ خیز آپ بیتی کے حقوق حاصل کر لیے ہوں گے،وہ ادارہ جس نے تہمینہ درّانی کی ’مائی فیوڈل لارڈ‘ یا’میڈا سائیں ‘ شائع کی تھی۔ عجیب بات ہے کہ1995ء میں،میَں اردو چیئر پر انقرہ یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے پہنچا تو پہلے ہی دن میَں کلاس میں یہ سن کر پریشان ہو گیا کہ اس کتاب کا ترکی زبان میں ترجمہ چھپ چکا ہے اور وہاں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ کیا یہ کتاب ایجنسیوں نے شائع کرائی تھی۔ایک آدھ ترک شاگرد سے میَں نے یہ ضرور کہا کہ میاں نواز شریف تو ذرا شرمیلے ہیں،البتہ میاں شہباز شریف اس مصنفہ سے ایک نہ ایک دن رابطہ کر کے یہ اگلوانے میں ضرورکامیاب ہو جائیں گے کہ کتاب در اصل کس کے ذہن اور قلم کا کرشمہ ہے۔ آپ نے پاکستان کی مسلم لیگی صنعت کار خاتون سلمیٰ احمد کی آپ بیتیCutting Freeضرور پڑھی ہو گی ،جس میں بحریہ کے افسر اور ضیاء الحق کے وزیر سے پہلی شادی،ملتان کے قریشی خانوادے میںدوسری شادی اور پھر کرکٹ ٹیم کے ایک ہیرو سے شادی‘ بگٹی خانوادے کے ایک فرد سے ہر دور میں محبت کا اقرار‘ پاکستانی اشرافیہ میں سے محض ایک انسان یا ایک مثالی فرد جمیل نشتر کے اعلیٰ انسانی اوصاف کا اعتراف تو ہے ہی ،بعض سیاسی پیروں کے ساتھ ساتھ بھٹو کے بعد کے پاکستان میں دیانت دار ترین کہلائے جانے والے اکلوتے وزیرِ اعظم کے مالیاتی اور صنعتی کارنامے بھی بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی نے ابھی تک جنرل مشرف کے خلاف اس خاتون مصنف کو اٹھا کے جیل میں بند کرنے کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی،اس لئے اس ذکر کو چھوڑیں، گڑے مردے اکھیڑنے کی بجائے واپس سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف،ہمیں کوئی لاکھ بتائے کہ تحریکِ انصاف کے قائد دو مرتبہ پارٹی کے سربراہ ہونے کے بعد اس حیثیت میں منتخب نہیں ہو سکیں گے،ہمیں یقین ہے کہ تب وہ عبدالولی خان کی طرح اپنی جماعت کے رہبر کہلائیں گے۔ بہر طور قائد کی شخصی کشش کا ایک خاص مقام اور مفہوم ہے۔جو صالحین موجودہ دور میں جماعتِ اسلامی کی ناطاقتی پر اداس ہو جاتے ہیں،وہ بانی امیر اور پھر بیچ میں قاضی حسین احمد کی شخصیت کے ان اوصاف کو بھول جاتے ہیں،جو ایک مخصوص دائرے کو توڑ سکنے پر قادر تھے۔ مجھے دو سیاسی واقعات اور الطاف حسین کے ایک بیان نے بہت متاثر کیا ہے۔ پہلاواقعہ تو یہ ہے کہ مبیّنہ طور پر ایک استاد پر تشدد کے نتیجے میں جیل میں رہ کر باسٹھ تریسٹھ کے پُل صراط سے گذرنے والے امیدوار نے پارٹی کا نشان ’تیر‘ واپس کر کے’مرغی‘ کا نشان حاصل کر لیا ہے،دوسرا دلچسپ واقعہ ایک امیدوار کی مہم میں حصہ لینے والوں کی جب شربت سے خاطر تواضع کی گئی تو وہ رات انہوں نے ہسپتال میں گذاری،لیڈروں کی تقاریر کے آخری کلمات سننے سے بھی پہلے کھانے پر ٹوٹ پڑنے والے کارکنوں کی تربیت یا اصلاح کے لیے ایسے ہی ایک دو اقدامات کرنے ہوں گے اور کئی لاکھ افراد کی عادات بدل سکنے والے میرے ایک پسندیدہ قائد الطاف حسین نے اپنی جماعت کے امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پان اور گٹکا کھانا چھوڑیں اور اپنے دانت تک صاف کرائیں،شاید وہ اس طرح انہیں قومی دھارے میں لانے میں زیادہ کامیاب ہو جائیں۔