آپ چاہیں تو اپنی توجہ عمران خان کے مشکوک سکیورٹی گارڈز کی تلاش پر صرف کریں یا ان کے اس طرح سے گرنے اور ان کی جماعت کے قائدین کی جانب سے وقتی طور پر انتخابی مہم معطل کرنے سے ہونے والے نفع نقصان کے گوشوارے بنائیں،ماجرا یہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کے دل میں درد مندی کے سوا کچھ بھی نہیں؛ چنانچہ یہ دل ہے ہی ایسا کہ وقتاً فوقتاً مٹھی میں آ جاتاہے،سو کل شام بھی ایسی واردات اس دل پر گذری۔بے نظیر کا سانحہ یاد آگیا اور یاس کی ایک لہر بھی اٹھی کہ شاید ہماری اجتماعی اصلاح کے سب دروازے بند ہو رہے ہیں،مگر پھر اندر سے ایک طمانیت پیدا ہوئی جب خبریں آنا شروع ہوئیں کہ کپتان ہوش میں ہے اور بہت جلد پھر عوام میں ہو گا۔عمران خان سے جب ہماری محبت کا اولیں دور تھا اور وہ کرکٹ کے میدان میں پاکستان کی نیک نامی اور وقار کے لئے لڑ رہا تھا تو اچانک خبر آتی تھی،عمران خان کا مسل پُل ہو گیا ہے یا پٹھا چڑھ گیا ہے تو کرکٹ کے شائقین پریشان ہو جاتے تھے۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک سینئر کولیگ پروفیسرمعراج دین امرتسری نے جل کے کہا تھا ’’اوئے،اساں وی کرکٹاں کھیڈیاں نیں، ساڈے زمانے اچ کھڈاریاں دے مسل ای نئیں ہوندے سَن‘‘۔ اب یہ تکلیف دہ خبر سن کر اس کے ہسپتال کی جانب انضمام اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی اور اس کے لاکھوں پرستار ہی بے اختیار نہیں چل پڑے بلکہ انسانیت سے پیار کرنے والے ہر شخص کے دل،ہاتھ اور ہونٹ اس کی زندگی کی دعا کے لئے وقف ہو گئے۔ اس موقع پر کشادہ دلی اور رواداری کے کئی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ میاں نواز شریف نے اپنا انتخابی جلسہ منسوخ کیا اور اپنے بچوں سے عمران خان کی صحت یابی کی دعا کے لئے کہا۔ آصف زرداری نے بھی ان کے لئے دعائے صحت کی اپیل کی ہے اور تو اور گذشتہ چند دن سے شیر جیسے شاہِ جنگل کی نہاری خوری کے بارے میں لطیفے بنانے والے اپنے بیٹے اور تحریکِ انصاف کے بعض اہلِ جنوں کے سامنے جب میں نے کہا کہ ہمارے زخمی شیر کی جلد صحت یابی کی دعا کریں تو ان کے ساتھ میرے وہ شاگرد بھی بیٹھے تھے جو میاں صاحب کے ازلی متوالے ہیں، ان سب کوطنز کا کوئی شائبہ دکھائی نہیں دیا اور نہ ہی میرا یہ مقصود ہے۔ پھر بھی ہمارے ہاں نادان دوستوں کی کمی نہیں۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ان اہلِ قلم کے کارِ خاص کا ذکر موجود ہے۔ ان سب کا ایک ہی کاروبار ہے،سیاسی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل کرنا،جمہوریت اور سیاست کو گالی بنانا،ووٹرز کو دھمکانا اور ہو سکے تو انہیں اس بات پر قائل کرنا کہ تبدیلی پرچی سے نہیں،برچھی سے آئے گی اور جتنی مرضی برچھیاں چاہو آکرہمارے سرپرستوں کے ڈیرے سے لے جائو۔ بدقسمتی سے نفرت کے اس کاروبار میں معزز کرسیوں پر بیٹھے اور متبرک کلمات کا ورد کرنے والے بھی شامل ہیں۔ میثاقِ جمہوریت ایک بہت بڑی سیاسی جست تھی جس کا مذاق ان لوگوں نے اُڑایا جن کی دکانیں سیاسی نفرتوں کو ہوا دینے سے چلتی ہیں۔پیٹریاٹ اور ہم خیال گروپ وجود میں آتے ہیں اور مال اِدھر سے اُدھر کرنے والے سیاسی نظام کے رمز شناس اور کبھی کبھی ضامن یا محافظ بن جاتے ہیں۔عمران خان کے اتنی بلندی سے گرنے کی چوٹ کو ان لوگوں نے بھی محسوس کیا ہے جو بعض خوشامدیوں اور مصاحبوں کے تشکیل کردہ خوابوں کی ڈور میں بندھے اس وقت پاکستان میں خود کو سب سے بلند خیال کر رہے ہیں۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران لوگوں نے فرشتوں اور متقیوں پر بھروسہ کیااور نہ آزاد یا نیم آزاد انتخابات میں،اس لئے ہر سیاسی جماعت اور قائد کا ایک ماضی ہے جسے وہ چاہیں تو منٹو کے لفظوں میں ڈرائی کلین کرا لیں اور رحمۃ اللہ کی کھونٹی پر لٹکا دیں اور اپنی عفت مآب جماعتوں کی پاک دامنی کے پرچار کے لئے ہر چینل پر اپنے اپنے مداح اور قصیدہ خواں آویزاں کر دیں۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ ہم جنہیں کفار کہتے ہیں،ان کے ملکوں میں ہمارے بچے پڑھنے یا عارضی کمائی کے لئے جاتے ہیں تو میڈیکل سرٹیفیکیٹوں سے بندھی ہم جیسے بوڑھے والدین کی اپیلیں بھی انہیں واپس بلانے سے قاصر رہتی ہیں کیونکہ ان ’بدبخت کافروں‘ نے عوام کی شرکت اور تائید سے جمہوری نظام تشکیل دے لئے ہیں جسے کسی ٹرپل ون بریگیڈ کا دھڑکا ہے اور نہ کوئی وکیل بھری عدالت میں ججوں کو ان کا ڈراوا دیتا ہے‘ جن کی سیاسی اقدار دراصل اخلاقی اقدار ہیں۔رواداری اور قوتِ برداشت اس نظام کی طاقت ہے اورحلف سے رو گردانی پر،غلط گوشوارے دینے پر،کِک بیک یا منی لانڈرنگ پر ان کے محتسب کسی ڈیرہ دار بد معاش کی طرح نہیں پوچھتے کہ یہ ہمارے والا ہے یا دوسروں والا؟میرے پیارے عمران خان،اللہ تمہیں صحت یاب کرے اور تمہیں اس آزمائش میں نہ ڈالے جس میں تم نے مجھے ڈالا ہے،جو 1970ء سے اب تک پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالتا آیا ہے‘ مگر یاد رکھو! اس ملک کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں،اسد عمر جیسے موتی کے باوجود تحریکِ انصاف کو اسحٰق ڈار کے مشوروں کی ضرورت ہو گی۔پاکستان کے مردانِ آہن کے دلوں کو موم بنانے کے لئے میاں نواز شریف کی حمایت درکار ہو گی۔دائیں بازو کی تائید کے ساتھ بائیں بازو کے ان خانہ سوز دیوانوں کی حمایت درکار ہوگی جن کے ضمیر کی دھمک سے اس گئے گذرے دور میں بھی انسانی حقوق کی پامالی پر،بچیوں، عورتوں، درس گاہوں اور پولنگ سٹیشنوں کے لئے تیزاب بردار جتھوں کو اپنی تنظیموں کے نام بدلنے پڑتے ہیں۔ دیکھو! تمہاری خاطر الطاف حسین نے جلسے میں اپنی تقریر ادھوری چھوڑ دی ہے اور جس صدر سے تم نے حلف لینے سے انکار کیا ہے،اس نے فرحت اللہ بابر جیسا نرم گفتار کے ہاتھ گلدستہ دے کے بھیجا ہے۔ اس سے پہلے کہ رحمن ملک راہ میں یہ گلدستہ اچک لے‘ کسی سے کہو کہ باہر کھڑکی سے دیکھے کہیں نہ کہیں ہمارا سرائیکی بھائی فضل الرحمن بھی منہ بسورتا مل جائے گا،اسفند یار ولی،شیر پائو اور بلوچ لیڈروں کے گلدستوں کو خوش دلی سے قبول کرو اور شوکت خانم میں ہی ایک کانفرنس قومی ایجنڈے پر اتفاقِ رائے کے لئے کر ڈالوتاکہ گیارہ مئی ایک دوسرے سے چھٹکارے کا دن نہیں،اس بوسیدہ نظام سے چھٹکارے کا دن بن جائے جس کی ایک محافظ نوکر شاہی ہے ،دوسری وہ حکمتِ عملی جو بے ایمان سیاسی چھتریوں کے شجرہ نسب کو انگریزوں کے وقت سے ہی اہمیت دیتی آئی ہے۔