آج ارادہ تھا،ان ملکوں اور معاشروں کی روداد لکھنے کا،جو حالتِ جنگ میں تھے ،مگر انہوں نے ہمت کر کے انتخابات میں حصہ لیا،جن کی بدولت ادارے وجود میں آئے،قانون کی حکمرانی کی طرف پیش رفت ہوئی اور رفتہ رفتہ عام آدمی کو بھی یقین آنے لگا کہ وہ بھی خاص آدمی ہو سکتا ہے اور چاہے تو اس کی رائے کی ،پروا وہ تک کر سکتے ہیں،جو ایک عرصے سے کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے ، ٹیکس،بجلی ،گیس کی چوری اور قومی وسائل کے ضیاع کو اپنا حق خیال کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک دو دن کا راشن رکھنے والی نگران حکومت کے کچھ اقدامات ایسے ہیں،جن پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تبدیلی تو خیر آ رہی ہے،یہی دیکھ لیجئے کہ ہم جو کبھی ’لکھ لُٹ‘ ہوتے تھے،اب ’لفظ لُٹ‘ بن چکے ہیں،اپنے پسندیدہ لوگوں پر لفظ تو کیا،لغت بلکہ پورا اردو لغت بورڈ تک اُلٹادیتے ہیں،تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ بیورو کریسی فیصلوں سے رو گردانی کرتی ہے۔ آپ کو یاد ہی ہو گا کہ ایک عدالتی فیصلے کے تحت کابینہ ڈویژن نے بہت سے موقر اداروں اکادمی ادبیاتِ پاکستان،مقتدرہ قومی زبان،اردو لغت بورڈ کی سربراہی کے لئے65 برس سے کم عمر کے ’ملازمین‘ تلاش کرنے کا حکم دیا تھا،یہ تلاش اب تک جاری ہے، لیکن نگران حکومت میں کافی عمر رسیدہ لوگ آ گئے ہیں۔ جب تلاش کا یہ فرمان جاری ہوا تب میری طرح کے اُجرتی یاکارِ خاص پر مامور افراد میں سے کس کی جرأت تھی کہ جلالت مآب نرگس سیٹھی جیسی علم پرور شخصیت کو تہذیبی تاریخ پڑھانے کی کوشش کرتا۔ بھلاجن اداروں میں جوش ملیح آبادی،شان الحق حقی،سید قدرت نقوی، ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی،ڈاکٹر جمیل جالبی،ڈاکٹر وحید قریشی ،پروفیسر فتح محمد ملک،فخر زمان،افتخار عارف اورڈاکٹر فرمان فتح پوری نے خدمات انجام دی ہوں، ان کی سربراہی کے لیے اب65 برس سے کم عمر کے ’علماء ‘کابینہ ڈویژن کے بابوئوں اور بابونیوں کودرکار ہوں تو کون بھلا ایسی فہرستیں بنا سکتا تھا۔تب کی بات چھوڑیئے موجودہ بزرگ نگرانوں تک سے کوئی سرکاری اہلکار یہ کہنے کی ہمت نہیںکر سکتا کہ ایسے تہذیبی اداروں کو برباد کرنے کی بجائے سحر صدیقی،فاطمہ حسن، معین الدین عقیل یا ڈاکٹر سرمد حسین کو ہی اردو لغت بورڈ کا چیف ایڈیٹر بنا دیں، دوسرے اداروں کا میَں اس لئے ذکر نہیں کرتا کہ میَں ان میں سے ایک سے وابستہ رہا ہوں۔ نگران حکومت کی بیدار مغزی اور دوراندیشی کے شواہد ایک ایک کرکے سامنے آ رہے ہیں۔نگران وزیرِ اعظم نے15 مئی کے بعد سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں اے سی نہ چلانے کی جو ہدایت کی ہے،اس سے مجھے ایوب خان دور میں اساتذہ کی تحریک کا ایک مر حلہ یاد آ رہا ہے جب ہمارے ایک استاد نذیر احمد مرحوم نے ایک جذباتی تقریر کی کہ اساتذہ کی گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں،اس لیے اس موقع پر رضاکار اور مخلص قسم کے اساتذہ نام لکھوائیں،چنانچہ ہمارے ایک استاد فرخ درانی نے کھڑے ہوکر کہا ’اس تاریخ ساز موقع پر میَں اپنی طرف سے عطاء الحق صاحب کا نام گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں‘۔زیادہ اچھا ہوتا،اگر نگران وزیر اعظم جاتے جاتے وزیر اعظم ہائوس کی بجلی بھی کٹوا دیتے۔عمران خان آگئے تو وہ وعدے کے مطابق یہاں رہیں گے ہی نہیں،میاں نواز شریف آگئے تو وہ چھوٹے میاں صاحب سے مینارِ پاکستان فیم دستی پنکھے مستعار لے کر آ جائیں گے،قربان ہونے والے بکروں کی سنی گئی اور پیپلز پارٹی کا کوئی وزیر اعظم آ گیا تو اس مرتبہ نوید قمر کم از کم وزیرِ اعظم ہائوس کو بجلی نہیں،تو بجلی کے بلوں کے سلسلے میں خود کفیل کر دیں گے۔ویسے تو میَں نجم سیٹھی کی ہمہ داں مسکراہٹ اور گفتگو کا شیدائی ہوں مگر ان کی عملی تر جیحات کا مجھے اندازہ کوئی تیس برس پہلے ان کے اشاعتی ادارے سے کتاب چھپوانے کے ایک شوقین پروفیسر کے ساتھ ملتان سے لاہور جا کر ہوا تھا،انہوں نے کوئی پچیس منٹ تک مصنف کو مشورہ دیا کہ بیک ٹائٹل پر چھپ سکنے والی ان کی تصویر کے لیے کون سا پوز مناسب ہو گا۔اس کامیاب اوراچھی ملاقات کے بعد جب انہوں نے تاریخ کے اس استاد سے پوچھا کہ وہ اپنی دوسری کتاب لے کر کب آئیں گے؟ تو میَں نے کہا تھا ’اگر تو تصویر کے سلسلے میں آپ کی دی ہوئی ہدایات ان کے دل پر نقش رہیں تو اگلی دفعہ یہ کتاب لے کر نہیں،البم لے کر آپ کے پاس آئیں گے‘۔ عدلیہ بحالی تحریک میں حصہ لینے والے ایک رومان پرست سیاسی کارکن کے طور پر میری مجبوری ہے کہ میَں بحال شدہ عدلیہ کے ہر فیصلے کو ’تاریخ ساز‘ کہتا ہوں، موجودہ اطلاعاتی بلکہ تشہیر پرور دور میں کمزور طبقات خصوصاً خواجہ سرائوں کے انسانی حقوق اور شاید سماجی بحالی پر عدالتِ عالیہ کی جانب سے بھی توجہ دی گئی ہے،جو خوش آئند بات ہے مگر پتا نہیں کیوں میَں اپنے آپ کو راجندر سنگھ بیدی کے ایک ڈرامے’خواجہ سرا‘ کا مرکزی خیال بتانے سے باز نہیں رہ سکتا۔کچھ اپنی محبوب شہزادی کی ترغیب میں آ کر اور کچھ اس (لیلائے اقتدار) کے قریب تر رہنے کی تمنا میں ہیرو خواجہ سرا ہونا گوارہ کر لیتا ہے،مگر جب نازک مرحلہ آتا ہے کہ بد بخت ولن، ہیروئن کو تنگ کرتا ہے اور ہیروئن مدد کے لیے ہیرو کو درد ناک آواز میں بلاتی ہے توہیرو فوراً وہاں لپکتا ہے مگر ہیروئن کے ساتھ ساتھ ولن کی بھی بلائیں لینے لگتا ہے۔ اب دہشت گردی کاکوئی واقعہ رونما ہو جائے،لاہور کی ایسی عمارت میں آگ لگے اور لوگ کود کود کر اپنی جانیں گنوائیںجو ان بڑی عمارتیں کے نقشے منظور نہیں کرتی جن میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے محفوظ راستے نہ ہوں یا آتش زنی کے بعدآگ بجھانے کے موثر ذرائع نہ ہوں، اسی طرح یوسف رضا گیلانی کا سب سے زیادہ جینوئن یعنی پڑھاکو بیٹا اغوا ہو جائے،عمران خان جیسے قائد کے قریب تر کوئی ایمبولینس نہ ہو، یا اسی طرح کا کوئی بھی واویلا کریں تو کوئی نہ کوئی بیدار مغز ٹی وی کیمروں کے سامنے آتا ہے اور کسی بھی وقت مغویہ ہو سکنے والی جمہوریت بلکہ اس کے درپے طالبان کی بھی بلائیں لینے لگ جاتاہے۔