جدید اور جدیدیت پسندی کے درمیان جنگ

سلمان تاثیر مرحوم کے بیٹے ، آتش تاثیر نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں جس خوف اور پریشانی کا اظہار کیا، وہ فطری بات تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد سلمان تاثیر کے قاتل کی حمایت کریں؟نوجوان تاثیر کے لیے جدید اور غیر معمولی تشدد کی قسم اُس لبرل جدت ِفکر کی حریف تھی جس کی علامت اُس کے والد، سلمان تاثیر تھے۔لیکن کیا تاثیر اور قادری مختلف فارمولے پیش کرتے ہیں؟اگرچہ حکومت ِ نے سلمان تاثیر کے قاتل کو عدالت کی طرف سے ملنے والی سزاپر عمل درآمد یقینی بنایا اور اس دوران میڈیا پر بھی مکمل بلیک آئوٹ رہا،اس کے باوجود جنازے میں دولاکھ سے زائد افراد کی موجودگی یہ احساس دلانے کے لیے کافی تھی کہ ابھی یہ سوچ زندہ ہے۔جنازے میں شریک کم و بیش ہر شخص ممتاز قادری کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا،بالکل جس طرح بہت سے لوگوں نے علم دین کو رشک بھری نگاہوںسے دیکھا جب اُس نے 1929ء میں توہین کا ارتکاب کرنے والے ایک شخص کوقتل کردیاتھا۔ علامہ اقبال نے قائد ِ اعظم محمد علی جناح پر زور دیا کہ وہ علم دین کا مقدمہ لڑیں۔ توہین کے خلاف لڑائی یا اسلام کے بنیادی ارکان کا دفاع اُن افراد کے سیاسی نظریات کا حصہ تھا جنہوں نے اس نئی ریاست ، پاکستان، کا تصور پیش کیا۔ چنانچہ آتش تاثیر کا اس بات پر حیرت کا اظہار کرنا کہ ممتاز قادری کے جنازے میں اتنے زیادہ لوگ کیوں شامل تھے اور اسے کوئی نئی اور غیر معمولی پیش رفت سمجھنا، درست نہیں۔
ایک جدید ریاست، جس کا خواب ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے دیکھااور جس کی عملی ترجمانی کرنے کے لیے اُنھوں نے جس رہنما کو تلاش کیا ،اس نے اُس روایتی مذہبی ملائیت کی تونفی کردی جس کی نمائندگی پیر اور سجادہ نشین کرتے ہیں۔ علامہ صاحب کے نزدیک یہ ایک آزمودہ فارمولا تھاکیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر شریعت کی تشریح نسل پرستی پر مبنی سماج کی جگہ ایک نئی قوم کو تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو بعد میں آنے والے برسوںمیں بھی یہی فارمولا مستعمل رہا۔ انفرادی اور شخصی آزادی کے تقاضوںنے کسی قسم کی قیادت پر اس تصور پر نظر ِ ثانی کی ضرورت پر زور نہیں دیا۔ حتیٰ کہ سلمان تاثیر کی جماعت بھی، جس کے ساتھ وہ آخری وقت تک وابستہ رہے، اس فریم ورک سے باہر نہ نکل سکی جس کے خدوخال ڈاکٹر اقبال یا ایم ڈی تاثیر نے وضع کیے تھے۔ یہ دونوں افراد جدید اداروںسے تعلیم یافتہ تھے۔ پی پی پی کے کسی سینئر رہنما نے 1973ء کے آئین کے دوسرے آرٹیکل پر کوئی سنجیدہ سوال نہیں اٹھایا۔ یہ اور بات ہے کہ اگر اس میں ترمیم کی جسارت کی جاتی تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات میں بہت سی معصوم جانیں ضائع ہوجاتیں۔ اہم ایشویہ ہے کہ جب ایک مرتبہ مذہب نے قومیت کو ایک لیگل فریم ورک مہیا کردیا تو پھر اس میں تبدیلی کرنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سلمان تاثیر ، جو قانون کے کچھ حصوں پر نظر ِ ثانی کی بات کررہے تھے، وہ بھی ناممکن ہوگئی۔ قانون میں مکمل تبدیلی کی بات تو سوچی بھی نہیں جاسکتی۔ 
کیا ممتاز قادری کے جنازے میں شریک ہزاروں افراد کو یہ احساس تھا کہ ممتاز قادری اور علم دین کے مقدمات کی نوعیت بنیادی طور پر مختلف تھی؟ علم دین نے ایک پبلشرکو ہلاک کیا تھا جس نے یقینا ایک توہین آمیز کتاب شائع کی تھی، لیکن سلمان تاثیر کا معاملہ ایسا نہ تھا۔ اُس پر توہین کا الزام ثابت نہیں ہوا تھا۔ تاہم تاثیر کے قتل کی وجہ صرف ایک محافظ کا ذاتی فعل نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا قاتل اور اُن سے نفرت کرنے والے لاکھوں افراد کی سوچ اُس مخصوص عقیدے کی اسیر ہے جس میں قوم اور سماج کو ڈھالا گیا ہے ۔ قادری اور ان کی طرح کے بہت سے لوگ اُس سیاسی اور مذہبی بیانیے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں جوکئی صدیوں سے امت مسلمہ کو مظلومیت اورمحاصرہ کا شکار سمجھتا ہے۔ چنانچہ ان افراد کے لیے اس بیانیے کی بحالی صرف مذہب کے اصل اور غیر تبدیل شدہ عقائد کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ علم دین سے لے کر ممتاز قادری 
تک، کوئی بھی اس سوچ سے ہلکا سا انحراف برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ وہ افراد جن کے خیال میں سلمان تاثیر نے توہین کا ارتکاب کیا تھا ، وہ یہ دلیل ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جب اُنھوں نے قانون کے کچھ حصوں پر نظر ِ ثانی کی بات کی تھی تو اُن کا مقصد مذہب کے بنیادی عقائد کی خلاف ورزی نہ تھا۔ جب یہ حقیقت معاشرے میں راسخ ہو چکی ہو تو کسی کی طرف سے قانون پر سوال اٹھانا بھی بنیادی عقائد پر حملہ اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو تبدیل کرنے یا ان سے انحراف کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ چونکہ سلمان تاثیر کو اشرافیہ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا،اور اشرافیہ کو بالعموم مغرب کا ایجنٹ خیال کیا جاتا ہے؛ چنانچہ یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ عوامی سطح پر اُن کے کیس کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اُنہیں بے گناہ سمجھا جاتا ، یا اُن سے ہمدردی کی جاتی۔معاشرے میںغیر ملکی ثقافت اور مقامی ثقافت کی نمائندگی کرنے والوں کے درمیان تفریق کی لکیر موجود ہے۔ اس سے یہ لڑائی مزید شدت اختیار کرلیتی ہے۔ جس بنیاد پرستی کی بات آتش تاثیر کرتے ہیں، وہ ایک ایسی مضبوط دیوار کی مانند ہے جس نے طے شدہ عقائد کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو مقامی کلچر کو بھی برداشت کرنے کے روادار نہیں، وہ کسی مذہبی اصول پر لچک کیسے دکھائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی عقائد مزید سخت اور بے لچک ہوتے جارہے ہیں۔ آج کے پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جو اس قانون پر نظر ِ ثانی چاہتے ہیں جس کی سلمان تاثیر کوشش کررہے تھے ۔ 
اس کے پیچھے تصوریہ ہے کہ بے گناہ لوگ شکار نہ ہوں، صرف توہین کا ارتکاب کرنے والوں کو ہی سزا ملے ۔ اس کے لیے ریاست کے پاس اسلامی نظریاتی کونسل کا میکنزم موجود ہے جو اکثر اوقات پارلیمنٹ کے لیے بھی ہدایات جاری کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل یا دیگر آئینی اداروں کے ذریعے ایک علما کے درمیان ایسا اتفاق ِ رائے پیدا کیا جاسکتا ہے جو اس قانون میں تبدیلی کا راستہ ہموار کرسکے۔ اس کے لیے حکومت کی طرف سے اُس سے کہیں زیادہ عزم کی ضرورت ہوگی جس کا مظاہرہ ممتاز قادری کی سزا پرعمل درآمد کرتے وقت کیا گیا۔
تاہم توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی اتنی آسان بات نہیں ہے ،خاص طور پر ایسی ریاست میں جس کی تشکیل مذہبی تصور کی بنیاد پر ہوئی ؛ حالانکہ بانیوں نے اقلیتوں کو مذہبی آزادی کی یقین دہانی بھی کرائی جو کہ اُس وقت کے لیے ایک اچھی پیش رفت تھی لیکن ایسے وعدے بھی بنیادی مسئلہ حل نہ کرپائے۔یعنی کہ وہ مسئلہ جو کہ اس بات سے جنم لیتا ہے کہ ہمارے ہاں نظام انصاف کی بنیاد کسی سیکولر تصور کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی۔ ایسا تصور مذہی اقلیتوں یا اور اکثریتوں کوشہریت نہ کہ کسی خاص مذہب کی بنیاد پر انصاف فراہم کرتا ہے۔ شاید نوجوان تاثیر ،اور اُن جیسے بہت سے افراد کو اس حقیقت پر غور کرناہوگاکہ جب اس قوم سازی کی بنیادہی اس تصور پر ہے تو پھر جدید اور جدیدیت پسندی کے درمیان کوئی حقیقی لڑائی نہیں۔ ہمارے سامنے صرف ماضی کی بحالی کا تصور موجود ہے جس کے ذریعے ریاست اور نئی قوتوں کی تشکیل ِ نو کی جاتی ہے۔ تشدد اور نفرت تو اس تصور کی صرف ذیلی پیداوار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں