حکومت پاکستان آج کل امریکہ میں کسی لابنگ فرم کی تلاش میں ہے جو موثر طریقے سے امریکی اہل اقتدار تک ہماری بات پہنچا سکے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ پچاس برس کے مراسم کے باوجود ہمیں واشنگٹن کے طور طریقے سمجھ نہیں آئے، ہم نے سب مسائل کا الزام سابق سفیر حسین حقانی کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ کیا کوئی ایک فرد ریاست کی سفارتی مشینری کو ناکام بنا سکتا ہے؟ یہ شاید اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب سفارتی مشینری اتنی خستہ حال ہو کہ اسے واشنگٹن جیسے شہر کے طور طریقوں سے آگاہی نہ ہو۔ ویسے بھی حال کیا اچھے ہوں گے جب وزیر اعظم نے 2013ء سے وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھالا ہوا ہے، لیکن ان کے گرد سیاسی خلفشار کی وجہ سے وہ اس پر توجہ نہیں دے پا رہے۔ نتیجہ یہ کہ سب معاملات ایک نوے سالہ ایڈوائزر اور ایک ستر سال سے زیادہ عمر کے سپیشل اسسٹنٹ کے کندھوں پر ہیں۔ مسئلہ عمر کا نہیں بلکہ اس سوچ کی تھکاوٹ کا ہے جس کے باعث یہ بزرگ اتنے کٹھن وقت پر مسائل سے نبردآزما نہیں ہو سکتے اور الزام کسی دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
کیا سرتاج عزیز کو یہ معلوم نہیں تھا کہ واشنگٹن میں لابی فرم کتنی ضروری ہے؟ یاد رہے کے 2011ء کے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد وہ لابی فرم ہی تھی جس کی مدد سے اسلام آباد نے اس آپریشن کے بعد ہونے والے نقصانات سے اپنے آپ کو بچا لیا۔ حسین حقانی کا واشنگٹن میں ہونا ہمیں اتنا نہ کَھلتا اگر ہمارے اندرونی تضادات کم ہوتے اور کوئی ایک ادارہ یکسوئی سے پالیسی بنا رہا ہوتا۔ لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہمیں کیوں بھول جاتا ہے کہ گزشتہ ستر سال سے پاک امریکہ تعلقات عارضی اور مخصوص امور تک محدود رہے ہیں۔ہماری عسکری اور سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ جنگی ہتھیار، پیسے اور کچھ سفارستی مدد کے عوض اپنی سلامتی کو داؤ پر لگائے رکھا۔ مزید یہ کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ سلامتی معاملات سے بڑھ کر کبھی کسی دوسرے تعلق کی آبیاری نہیںکی۔ ثقافتی تعلقات تو چھوڑ ہی دیں، ہم نے تجارتی معاملات بھی بھیک مانگنے کی طرح کیے۔
آخر ہمارے پاس بیچنے کو ہے بھی کیا؟ مفاد پرستی پر مبنی تعلقات میں ہماری پوزیشن ہمیشہ کمزور رہی کیونکہ سب صاحبان اقتدار نے ملک کے بجائے اپنی حکومتوں کے لئے کام کیا۔ اس طرح ہم نے واشنگٹن کو بھی دھوکے میں رکھا۔ ان سے کام کرنے کا وعدہ کر کے امداد تو لی لیکن ہر حکومت نے امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ بہتر خدمت کرتی ہے، اس لئے وہ ہم پر یقین رکھے کسی دوسرے پر نہیں۔
مانا کہ امریکہ کے ہدف بھی بدلتے رہے ہیں۔ میجر جنرل راشد قریشی جب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر تھے تو انھوں نے بتایا تھا کہ نائن الیون کے بعد کچھ عرصے تک امریکی اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ عرب جہادی ان کے حوالے کیے جائیں جبکہ طالبان کے ساتھ معاملات راولپنڈی خود حل کرے۔ بعد میں مطالبات کی یہ فہرست بڑھتی چلی گئی۔ امریکہ کو یہ گلہ ہے کہ ایک طرف تو پاکستان یہ یقین دہانی کراتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہے اور دوسری طرف اسامہ بن لادن سے لے کر ملاعمر اور ملا منصور تک سب پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ اب انہیں (امریکہ کو) جنگ ختم کرنی ہے جس کے لئے وہ حقانی گروپ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ شکایتیں تو ہماری بھی بہت ہیں لیکن شاید امریکہ کا کوئی صدر آکر اسلام آباد والوں کے کان میں یہ نہیں کہتا کہ میری کچھ مدد کرو، باقی سب کو میں دیکھ لوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری تمام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا دار و مدار امداد پر ہے اور تمام ادارے امریکہ سی ناخوش ہونے کے باوجود اسی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہماری حیثیت ایک مانگنے والے سے زیادہ کیا رہ جاتی ہے۔
مزید براں ہمیں واشنگٹن میں جو لابنگ کے اعتبار سے ایک پیچیدہ شہر ہے، اس کی اصول اور ضابطے بھی نہیں آتے۔ وہاں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے علاوہ تھنک ٹینک، یونیورسٹیاں اور بہت سے ادارے ہیں جن کا حکومت پر اثر ہوتا ہے۔ وہاں کام کرنے والے ضروری نہیں کے حکومت کی ہاں میں ہاں ملائیں، لیکن ان کے سامنے امریکہ کا مفاد اوّلین حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں کسی کو ملک دشمن قرار نہیں دیا جاتا۔ ان کے ہاں پالیسیاں سوچ بچار اور باہمی گفتگو کا نتیجے میں وضع کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دو ایشیائی ممالک کے بارے میں امریکہ کے موقف میں نظر ثانی ہوئی ہے۔ انڈیا کو سٹریٹیجک پارٹنر بنانے اور ایران کے ساتھ مراسم بہتر کرنے کا فیصلہ صرف کسی دو لیڈروں کے باہمی تعلقات کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ ہے جس میں بہت سے انڈین اور ایرانی نژاد امریکی سکالرز کا اہم کردار تھا۔ مت بھولیں کے آج انڈیا میں امریکی سفیر بھی ایک انڈین نژاد امریکی ہے۔ بہت سے انڈین اور ایرانی امریکی حکومت میں بہت اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ اتنے برسوں میں ہمارے پاس واشنگٹن میں کچھ خاص نہیں سوائے چند پیسے والے لوگوں کے جو فنڈ جمع کرنے کی تقریبات میں پیسے تو دیتے ہیں لیکن ان کا اثر و رسوخ بہت کم ہے۔ ہم امریکی صحافیوں اور دانشوروں کو اپنے ملک کے دورے کراتے اور ان کا رابطہ اپنے عسکری اور دوسرے اہم اداروں سے کراتے ہیں۔ بہت سوں کو تو ہم نے اپنے راز بھی بتائے اور اپنے کاغذات بھی حوالے کیے۔ مسئلہ اس وقت پڑتا ہے جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم انہیں خرید نہیں پائے اور وہ بدستور امریکی ہیں۔ ایک ایسے شخص کو بعد میں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ آج سے چند سال پہلے ٹویٹر پر کسی سے گفتگو کے دوران میں نے یہ بات کہنے کی کوشش کی جسے ایک انڈین اخبار نے مسخ کر کے کہانی چلا دی اور دوستوں نے میرے خلاف بڑا پروپیگنڈا کیا کہ امریکہ میں ہمارے پاس اپنی بات کرنے کے لئے قابل لوگ نہیں ہیں۔ چند جوان ملک کے بجائے خاص اداروں کا پرچار کرتے ہیں لیکن ہمیں تو وہ چاہئیں جو سسٹم کو سمجھتے ہوں اور جو اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے جانے جاتے ہوں۔ حسین حقانی کو تو ہم نے میموگیٹ میں فارغ کر دیا تھا۔ ایسی صورت میں ہمیں صرف خطرات کے ہیولے ہی نظر آتے ہیں۔