امریکی کہانی نویس ارنسٹ ہیمنگوے نے ایک کہانی لکھی تھی ''ایک بوڑھا اور سمندر‘‘۔ یہ داستان تھی ایک بوڑھے مچھیرے کی‘ جس کی صلاحیتوں کو اس وقت تک کوئی نہیں مانتا جب تک وہ گہرے سمندر میں جان جوکھم میں ڈال کر ایک وہیل مچھلی کا شکار نہیں کرتا۔ گو کہ وہ وہیل کا صرف ڈھانچہ ہی لا پاتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھی اس کی ہمت اور کارکردگی سے بہرحال مرعوب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے خارجہ پالیسی چلانے والے دونوں بوڑھے نہ تو پالیسی کنٹرول کر سکتے ہیں‘ نہ ہی اس کو چلانے والی مشینری۔ اس لئے بغیر کسی شکار کے گھر آ جاتے ہیں۔ بلکہ ہماری خارجہ پالیسی چلانے والے یہ دو معمر لوگ تو کوئی بھی شکار نہیں کر سکتے۔ بھلا کیا ہم ایک 90 اور ایک 72 سالہ شخص سے امید لگا سکتے ہیں کہ وہ ٹھوک بجا کر برطانوی وزیر اعظم کی طرح ہمارے کسی چیف منسٹر کو فون کرکے کہیں کو ان کے ایک باشندہ کے قتل کی تحقیقات کریں‘ اور کام ہو جائے؟ ہمارے ہاں تو یہ بھی کوئی ہمت نہیں کرے گا کہ برطانوی حکومت سے پوچھ کے پاکستانی لوگوں‘ خاص طور پر وہ جو باقاعدگی سے برطانیہ جاتے ہیں‘ کو ویزا سے محروم کیوں کیا جا رہا ہے؟ پچھلے ایک سال میں پاکستانیوں کے لیے ویزے کم سے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ تھائی لینڈ بھی پاکستانیوں کو کم سے کم ویزے دیتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ اب صومالی پاسپورٹ بھی پاکستان کے پاسپورٹ سے ذرا بہتر ہے۔
گزشتہ دنوں مجھے دبئی میں ہونے والے ایک پروگرام کے آن لائن ٹکٹ بک کرانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ پاکستان ایک خطرناک ملک ہے جس کی وجہ سے وہاں سے آن لائن ٹکٹ اس طرح نہیں لی جا سکتی جیسے بہت سے ممالک کے لوگ لے سکتے ہیں۔ سو جب سعودی عرب میں بے سروسامان پاکستانی نوکری سے نکالے جاتے ہیں تو کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ وزارت خارجہ خاموش ہے۔ لگتا ہے کہ دنیا سے پہلے ہمارے اپنے ادارے نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم ایک خطرناک ملک ہیں اور اسی سلوک کے قابل جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
سچ بات یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں وزارت خارجہ کا سٹینڈرڈ نیچے آیا ہے اور مزید نیچے جا رہا ہے۔ پالیسی کا ذکر تو چھوڑیں‘ افسران کی لگتا ہے کوئی تربیت ہی نہیں کرتا کہ ملک کے باہر پاکستانیوں کو توجہ کیسے دینی ہے۔ لگتا ہے کہ ہم نے اسلام آباد میں کوئی ایسی مشین لگا رکھی ہے جس سے صرف کھوٹے سکے ہی نکلتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں پاکستانی سفارتخانوں کی حالت بہت مخدوش ہوتی ہے۔ آغا شاہی اور اقبال اخوند سے لے کر منیر اکرم تک جو بڑے نام لئے جاتے ہیں کسی نے کبھی پاکستان کو بہتر پیش کروانے کی چھوٹی چھوٹی لیکن ضروری تدبیریں نہیں کیں۔ اب تو حال اور بھی پتلا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اب سول سروس میں اس وزارت کا وہ درجہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ پہلے پڑھے لکھے اور شہری مزاج کے لوگ وزارت خارجہ کو چنتے تھے جنہیں دنیا دیکھنے کا شوق ہوتا تھا۔ اب تو سول سروس میں فارن سروس بہت نیچے چلی گئی ہے۔ لوگ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن، پولیس، کسٹم یا اِنکم ٹیکس کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ فارن سروس میں اس لیے بھی شامل ہوتے ہیں کہ ان کو یہی سروس گروپ دے دیا جاتا ہے بغیر یہ سوچے کہ ان کی اس کام میں دلچسپی نہیں۔ نتیجہ یہ کہ اب بہت سے سفارت خانے رشوت ستانی اور لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے پیرس میں پاکستانی سفارتخانہ‘ جہاں مجھے 1982ء کے اوائل میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان سفیر تھے لیکن سفارتخانے کی لابی میں ایک تیل کے نشان سے اٹا صوفا پڑا تھا اور پاکستانیوں کے درمیان مشہور تھا کہ سفارتخانہ پاسپورٹ بنانے کے لئے پیسے بٹور تا ہے۔ معلوم نہیں کہ سفیر کو معلوم تھا یا نہیں مگر یہ پاکستانیوں کا سپین بذریعہ فرانس غیر قانونی طور پر جانے کا سکینڈل تھا۔ پیسے اور طاقت کا لالچ تو صرف ایک مسئلہ ہے۔ ایک ایشو یہ بھی ہے کہ جن تعلیمی اداروں سے سول سروس کے افسران آ رہے ہیں وہاں تجزیاتی سوچ کا کوئی رواج نہیں۔ رٹا لگا کر امتحان پاس کرنے والوں سے سوچ کی کیا امید؟
سونے پر سہاگا یہ کہ دہائیوں سے ہماری فارن پالیسی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا آخری زمانہ تھا جب خارجہ پالیسی کی سمت نظر آتی تھی۔ بھٹو کی کوشش تھی کہ پاکستان کو دنیا میں خاص کر اسلامی دنیا کی لیڈرشپ کا رول ملے۔ اب تو ہماری ساری خارجہ پالیسی ہمارے ایک واحد خبط‘ کہ انڈیا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اور اس کو نیچا کیسے دکھانا ہے‘ کے گرد گھومتی ہے۔ اسی چکر میں ہم دوسروں کی جنگ اپنے سر مول لے لیتے ہیں اور پھر اس کو سٹریٹجک پارٹنرشپ کا نام دیتے ہیں۔ بعد میں اس پارٹنرشپ کو بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ پیٹھ پر تھپکی کی خواہش یا کسی کڑوی بات کی مذمت‘ فارن پالیسی تو اب اسی کا نام رہ گیا ہے۔
دوسری ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر حکومت‘ چاہے وہ سول ہو یا فوجی، نے خارجہ پالیسی اور فارن آفس کو اپنا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے استعمال کیا۔ ہر حکومت دنیا کے اہم ممالک میں بتانا چاہتی ہے کہ ان کے علاوہ دوسرا کوئی اعتبار کے قابل نہیں۔ اس جھگڑے میں ملک کے لئے سوچ تو بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ ایسے حالات میں فارن آفس کی دیکھ بھال کو لگائے گے دو بزرگوں سے کم از کم یہ توقع تو کی جا سکتی ہے کہ اس ادارہ کی مینجمنٹ کے حالات ہی ٹھیک کر لیں۔ بجائے صرف یہ دیکھنے کے کہ روس جا کر وزیر اعظم کے ہوٹل کا غسلخانہ ان کے شایان شان تھا یا نہیں کبھی یہ بھی تو کریں کہ سفارتکاری کا کام کریں اور لوگوں کو ان کے ہونے کا احساس ہو۔