ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے؟
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!
کس لئے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے
(فیض)
قصہ حاتم طائی کے مطابق جب حاتم کوہ ندا کا سراغ لگانے پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک پہاڑکے قریب ہی ایک شہر آباد ہے، اس شہر کے باسی یوں تو بہت خوش رہتے ہیں مگر گاہے بگاہے اس پہاڑ سے یا اخی یا اخی کی صدا بلند ہوتی ہے اور بھری محفل میں موجود ایک نہ ایک شخص ہوش کھو کر اس پہاڑ کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ حاتم کی بے تحاشا کوششوں کے باوجود وہ شخص پھر کوئی بات نہیں کہتا، نہ ہی پھر کبھی واپس آتا ہے۔ مگر جس بات پرکہانی کے اس ہیرو کو حیرت ہوتی ہے ،وہ یہ ہے کہ ایسے کسی شخص کے رشتہ دار اس کے کھو جانے پرماتم نہیں کرتے ، چھاتی نہیں پیٹتے بلکہ ضیافتیں کرتے ہیںاور خوش نظر آتے ہیں۔ جب حاتم ان سے استفسارکرتا ہے تو کہتے ہیں یہی ہماری روایت ہے ، اگر اس پر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو فوراً یہاں سے چلے جائو۔ ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
یہ بالکل وہی حال ہے جو میرے ملک کا ہے۔ بارہ سال پہاڑوں سے یہی صدا بلند ہوتی رہی۔ ہمارے پیارے کھنچے چلے گئے، کٹ مرے، ہم سے ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو گئے۔پچاس ہزار پاکستانی گم ہوئے، اور ہم نے کیا کیا؟
آنکھیں نم بھی نہ ہونے دیں، توجہ کہیں اور کی اورکچھ ہی دیر میں چلتے پھرتے نظر آئے۔ ذہن میں بھی کبھی نہیں آیا کہ یہ جو یتیموں کی فصل تم اگاتے ہو، اس کا کیا ہوگا۔ یہ جومعذوروں کا شہر بساتے ہو ،ان کے ہاتھ ، پائوںاور آنکھیں کون بنے گا؟
پھر دیکھیے ان شہیدوںاور غازیوں کو تو شاید پتہ بھی نہ تھا کہ ان کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب ہو جائے گا، مگر ایک اور گروہ ہے جس نے جانتے بوجھتے آپ کے اورمیرے مستقبل کے لیے جان ہتھیلی پر رکھی اور آتش نمرود میں کودپڑا۔ ملک کے یہ بہادر لعل وطن عزیز کے لیے کٹ مرے، اعضا کھو بیٹھے اور ہم نے ان کو کیا دیا؟کون ناخلف کہتا ہے کہ ہمارے ہاں ہیروز کی کمی ہے؟ یہ فوجی ، یہ پولیس مین، یہ فائرفائٹر، پولیو ویکسین پلانے والے، یہ ہمارے ہیروہیں۔ مگر بدقسمتی دیکھیے کہ اس قوم کے ان عظیم سپوتوں کو ہم وہ مقام بھی نہ دے سکے جس کے وہ حق دار ہیں۔
بھلا ہو جنرل کیانی کا کہ یوم شہدا کے نام پر ایک اچھی روایت قائم کرگئے۔ مگر پھر میں اپنے چینلز کی رپورٹنگ پر نالاں ہوں جن میں بار بار خبر کچھ یوں چلی کہ پاک فوج یوم شہدا منا رہی ہے۔ حضور مزاج درست؟ یہ صرف پاک فوج کے ہیروز نہیں، پوری قوم کے ہیں۔ کچھ تو لحاظ کیجیے۔خیر امید ہے مستقبل میں یہ شکایت دور ہوگی۔ یاد رہے کہ اس موقع پر صرف فوجیوں کوہی خراج تحسین پیش نہیں کیا جاتا، بلکہ سول اور ملٹری دونوں اطراف کے شہدا کی قربانیوں کو یاد کیا جاتاہے۔
گزشتہ سال یوم شہدا کی ایک دلخراش یاد ایک بلوچ سپاہی کی ماں کی ہے۔ جی غریب کی بھی ماں ہوتی ہے، اس کا بھی دل ہوتا ہے۔ اسے شاید اردو بھی نہ آتی ہو، ڈھنگ سے بات کرنا بھی نہ آتی ہو، مگر جب وہ منہ کھولتی ہے تو بڑے بڑوں کے کلیجے بیٹھ جاتے ہیں، دل کی دھڑکن خطا ہونے لگتی ہے۔ یہ ماں بھی اردو نہ جانتی تھی۔ فرط جذبات میں صرف ایک ہی بات کیے جاتی تھی، میرا بیٹا شہید ہے، میرا بیٹا شہید ہے۔ مجلس کو شاید اس کی باتیں سمجھ میں بھی نہ آتی ہوں، مگر کتنے ہی پتھر دل موم ہوئے ہوں گے ،میں کہہ نہیں سکتا۔ بس ذہن میں ایک سوال تھا، یہ تو ہمیں کہنا چاہیے تھا ، اے عظیم ماں تیرا بیٹا شہید ہے، وہ خود کیوں کہنے پر مجبور ہوئی؟ یہ سوال کیا ہے ،آئینہ ہے۔ دیکھیے اور سوچیے کیا ہم اس لائق ہیں کہ ہمارے لیے کوئی شخص جان دے؟ اگر جواب منفی میں ہے تو خدارا سوچیے کہ اس کو بدلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
گزشتہ بارہ تیرہ سال میں ہمارے دلوں میں کئی وسوسوں نے گھر کیا ہے، کہیں مذہب کے ٹھیکیداروں نے دادرسی نہ کی، کہیں ماضی کے مقدمے لے کر بیٹھا رہا۔ میں بھی یہ مانتا ہوں ، اگر ملک میں بار بار مارشل لا نہ لگتے تو زبوں حالی کی یہ کیفیت نہ ہوتی۔ عوام کی حاکمیت قوم کو بڑے حادثوں سے بچا لیتی ہے۔ مگر ہم کب تک چار جرنیلوں کی غلطیوں کا الزام ان لوگوں کو دیں گے ،جو صرف ملک کی خدمت کے لیے وقف ہیں۔ دو سال پہلے ایک وار زون میں متعین ایک ینگ آفیسر کی بات مجھے یاد آتی ہے جو مجھے شرم سے پانی پانی کر گئی۔ بولا ''سر، اگر میں کسی اور ملک میں پیدا ہوا ہوتا، اس ملک کے دفاع کے لیے جان دے دیتا تو مجھے پتہ ہوتا کہ میرے ماں باپ کے احترام میں پوری قوم کھڑی ہوگی، ان کا خیال رکھے گی، ان کو ہیرو کہے گی، کاش مجھے یقین ہوتا کہ ہمارے ملک میں بھی میرے ساتھ یہی رویہ پیش آتا‘‘۔اس دن سے میں نے تو یہ ٹھان لی کہ میں فوجیوں کی نہیں سٹیزنز ان یونیفارم کی بات کروں گا اور جو قومی ہیروز کی بات میں پہلے کرتا تھا وہ اور زور دے کر کروں گا۔
تو صاحبو، بات صرف احساس کی ہے۔ بہت عرصہ ہم نے ایک ہجوم بن کر کوہ ندا کے کنارے کاٹ لی۔ اب ایک قوم بننے اور اپنے قومی ہیروز کے احترام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہمارے ہیروز کی صف میں سپاہی بھی ہیں اور صحافی بھی،انٹیلی جنس والے بھی اور ڈاکٹر بھی اور علما اورسیاستدان بھی۔غرض یہ کہ ہر وہ شخص جس نے اس ملک و قوم کے لیے جان کا نذرانہ دیا ،یا کوئی اور قربانی دی ،اسے ہیرو کے طور پر یاد رکھنا ہمارا فرض ہے۔ توڑنا آسان ،جوڑنامشکل ہوا کرتا ہے۔ وسوسے ہمیں توڑتے ہیںاور ہم ایک دوسرے کو غدار کہنے لگتے ہیں۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، اب جوڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو ہمیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر جائے گی اسے دل سے نکال پھینکیے، بس یہ یاد رکھیے کہ جنہوں نے ہمارے لیے قربانی دی ،ان کی یہ خیرات رائیگاں نہیں جائے گی اور ع
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو