مذاکرات کی بنیاد

مذاکرات کی بات آج کل زبان زد خاص و عام ہے۔ وہ لوگ جو مذاکرات کو ہی واحد حل سمجھتے ہیں‘ اس عمل کے ناقدین کو کچھ ایسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے گھر میں دشمن کا بھیجا کوئی چور گھس آیا ہو‘ جس کا کام فقط کسی قیمتی چیز کو چوری کرکے بھاگ جانا ہو۔ دوسری طرف ناقدین میں کچھ ایسے دوست بھی موجود ہیں کہ اگر آپ انہیں یہ یاد دلا دیں کہ اس عمل کے پیچھے تمام جمہوری قوتوں کی رضامندی کارفرما ہے جو انہوں نے کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے ظاہر کی تھی اور اسی لئے ہمیں مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے تو وہ سمجھتے ہیں کہ آپ بھی شاید اس ملک اور قوم کے دشمنوں سے جا ملے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ایک سادہ لوح وطن پرست کا سر ندامت سے جھک جاتا ہے کہ ایک ہی قوم اتنے خانوں اور طبقوں میں اس طرح منقسم ہے کہ قومیت کا تشخص ہی ناپید ہو گیا ہے۔
مجھے ان دوستوں کی بات سمجھ میں آتی ہے جو کہتے ہیں کہ مذاکرات ہی واحد حل ہے۔ سچ یہ ہے کہ بہت خون ناحق بہہ چکا، جنگ و جدل کے نام پر ہر روز کئی لوگ یا تو متنفر ہو کر باہر چلے جاتے ہیں یا پھر خطرہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ شدت پسندی کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ کچھ یہ بھی مانتے ہیں کہ دونوں اطراف اگر کلمہ گو ہی مارے جا رہے ہوں تو اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ اور پھر استدلال یہ بھی ہے کہ یہ جنگ ہم پر نافذ ہوئی ہے اس لئے ہماری جنگ ہے ہی نہیں۔ ایسے میں ہتھیاروں کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دینے کی خواہش سہل پسندانہ ہی سہی‘ سمجھ سے بالاتر نہیں۔
دوسری طرف وہ دوست ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ جنگجو گروہوں کا طرز فکر ہمارے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حقیقت ہے کیا۔ یقیناً سچ ان دو انتہائی نقطہ ہائے نظر کے درمیان ہی کہیں ہو گا۔ چلیے اِسے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ عجلت میں اپنائی گئی۔ ممکن ہے گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد یہ عجلت منطقی لگتی ہو اور محسوس کیا گیا ہو کہ فوری ہامی بھرنے سے ملک کی مشکلات کو کم کیا جا سکے گا مگر آج یہ حقیقت عیاں ہے کہ جن ممالک نے اتنی عجلت سے کام نہیں لیا‘ ان کو بھی کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ کچھ دوست یہ ضرور کہیں گے کہ آج یہ کہنا آسان ہے اس وقت نہیں تھا‘ جب ساری دنیا کی نظریں ہم پر جمی تھیں، طالبان کے واحد طرف دار کے طور پر ہمارا گہرا مطالعہ کیا جا رہا تھا اور اقوام عالم کی طرف سے سارا دبائو ہم پر تھا۔ شاید یہ بات سچ ہی ہو مگر مسئلہ فیصلے کی نوعیت کا نہیں اس تک پہنچنے کے طریق کا ہے۔ جمہوری ممالک میں ایک پارلیمان ہوتی ہے، اس سے رجوع کیا جاتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ترکی نے عراق پر امریکی حملے کے وقت کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان میں اس وقت کوئی پارلیمان ہوتی اور خواہ جس کی حکومت بھی ہوتی، فیصلہ وہی ہوتا جو ہوا، بس اس میں شفافیت اور قومی ''ملکیت‘‘( ownership )زیادہ ہوتی۔ اب ظاہر ہے مشرف صاحب ایک آمر تھے اور پارلیمان اپنی افادیت کھو چکی تھی تو یہ ممکن نہ تھا۔ وہ کیا کر سکتے تھے؟ اس کا دوسرا طریقہ ریفرنڈم تھا۔ جی ہاں کچھ ایسا ہی جیسا ہم نے ان کی صدارت کے لئے دیکھا۔ اس سے جہاں اتمام حجت ہوتی‘وہاں قوم کو حالات کی سنگینی کا اندازہ بھی ہو جاتا۔ ایسے میں حکمران ایک بڑے بھائی کی طرح باتیں کھول کھول کر سمجھاتا ہے اور باقی ماندہ وقت میں تزویراتی رجحانات کا جائزہ لے کر فیصلوں کو پختہ کیا جاتا ہے۔ وائے افسوس کہ ایسا نہ ہوا، بش انتظامیہ کے بے انتہا دبائو کو حقیقی حملے کا خطرہ سمجھتے ہوئے اس کے تمام مطالبات کو یکسر مان لیا گیا۔
دوسری طرف کے دلائل جاننے کے لئے آپ کو ایک ہزار سال پیچھے جانا پڑے گا۔ بات یہ ہے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں انسانی تہذیب ارتقا کے کئی مراحل سے گزری، بجلی، گاڑی، ٹی وی، ٹیلی فون، جہاز جیسی بے شمار ایجادات اسی عرصے کی پیداوار ہیں۔ ان تمام ایجادات کے بارے میں اجتہاد کی ضرورت پڑی مگر وہ کہاں میسر تھا۔ علامہ اقبال یہ شکوہ لے کر دنیا سے چلے گئے کہ اجتہاد کے اس سلسلے کو قریباً ہزار سال پہلے ہی بند کر دیا گیا۔ اس شکایت کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب ''تجدید فکریات اسلام‘‘ (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) میں بخوبی کیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اوپر دی گئی ایجادات کی طرح عصر حاضر کے سیاسی تصورات مثلاً جمہوریت، آئین اور قومی ریاست کا تصور بھی اسی زمانے میں وجود میں آئے تو انہیں بھی اجتہاد کے ناپید ہونے کی وجہ سے یکسر مسترد کر دیا گیا۔ قبائلی رنگ میں رنگے طالبان کا مسئلہ بھی یہی ہے۔
پھر اس خطے میں اسامہ بن لادن آ گئے۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ تاریخ اسلامی کے کثیرالواقعہ معاملات کو ہی مثال بنا کر اصول وضع کئے جاتے مگر یہ صاحب تو حادثاتی طور پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو ہی اصول بنا بیٹھے۔ بدقسمتی سے آج یہ دو دھارے یوں خلط ملط ہو چکے ہیں کہ مذہب کا چہرہ ہی مسخ ہوتا جا رہا ہے۔ ورنہ بتائیے کہ مسلمانوں کو ذبح کرنا، عورتوں اور بچوں کا بے دریغ قتل، خودکشی کی ہر حالت میں ممانعت کے باوجود خودکش حملے کرنا کب سے اسلامی ہو گئے؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص بے شمار ناحق قتل کر چکا ہو‘ اس پر کیونکر کوئی اعتبار کرنے کو تیار ہو گا۔ اسی لئے کئی سنجیدہ لوگ ان مذاکرات کے نام سے بدکتے ہیں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ اپنے باقی ساتھی بھی اسی دلدل میں گنوا بیٹھیں۔ جب انہیں کہا جائے کہ یہ لوگ ہیں تو اپنے تو جواب آتا ہے کہ بھائی جیلوں میں دیکھ لو وہ لوگ بھی اپنے تھے۔ جرم کیا تو سزا پائی۔
اب اس تقسیم و تقطیب (polarisation )کا حل کیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سب ایک قوم کی طرح یکجا ہو جائیں؟ جی بالکل ہے۔ مذاکرات ضرور کیجئے بس کچھ رہبر اصول متعین کر لیجیے۔ ایک یہ کہ ان لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا اثر لینے کی بجائے دلیل سے ان کو قائل کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اس عمل کی کوئی ڈیڈلائن بھی ہونی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ مذاکرات کا لامتناہی سلسلہ فقط تعطل قویٰ کا باعث ہی بنتا رہے۔ تیسرا یہ کہ جس نے جرم کیا ہو ‘اسے مجرم ہی گردانا جائے۔ چوتھا ارتقا اور ہمارے کچے پکے اجتہاد سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کو نہ گنوایا جائے۔ پانچواں اور آخری یہ کہ ہر اقدام سے پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ اگر یہ سب ممکن ہے تو خواہ مذاکرات ہوں یا آپریشن‘ نتیجہ امن ہی نکلے گا اور ملک میں ہم آہنگی پیدا ہوگی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں