کہتے ہیںکسی گائوں میں دو بھائی رہتے تھے۔دونوں باشعور، باعلم اور توانا تھے۔ اس کے باوجود دونوں ہی بے روزگار تھے۔ ایک دن دونوں نے فیصلہ کیا کہ گھر کو خیرباد کہیں گے۔ نگری نگری تلاش روزگار کے لئے چھان ماریں گے۔ جہاں رزق ملا وہیں کے ہو رہیں گے۔گھر چھوڑنے کے چند ہفتوں بعد ان کا گزر ایک ایسے ملک سے ہوا جس کے دارالحکومت میں ہر شخص گھر سے باہر کھڑا کسی چیز کا منتظر تھا۔ استفسار پر پتہ چلا کہ یہاں کا بادشاہ اب اس دنیا میں نہیں۔ اور کیونکہ اس کا کوئی جانشین بھی نہیں اس لئے کچھ دیر میںہما اڑے گا جس کے سر پر بیٹھ گیا وہی بادشاہ۔تم بھی تھوڑا انتظار کر لو ۔ کیا پتہ تم ہی وہ خوش بخت ہو جس کا نام نکل آئے۔
دونوں منتظر ہجوم میں شامل ہو گئے۔ بڑا بھائی بولا۔ اگر میں بادشاہ بن گیا تو اس ملک میں انصاف کا بول بالا کردوں گا۔ ترقی اور تہذیب کا دور دورہ ہوگا۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ دودھ اور نہریں بہیں گی وغیرہ وغیرہ۔ اس کو سن کر چھوٹا بھائی مسکرایا اور بولا۔بڑی بڑی باتیں کرتا ہے۔ میں بادشاہ بنا تو کرپشن کا دور دورہ کردوں گا۔ جس کے پاس پیسہ ہو وہی شکاری۔ چاہے وہ شیر ہو یا بکری۔خوب کھائو اور کھلائو بس میرا حصہ نہ بھولنا۔
اسی اثنا میں ہماء اڑا اور چھوٹے بھائی کے سر آ بیٹھا۔سب نے مل کر اس کو مبارکباد دی۔ بڑا بھائی خدا کی تعریف بیان کرتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا۔
اب ٹھیک ایک سال بعد بڑے بھائی کا اسی ملک سے گزر ہوا۔ سوچا جا کر دیکھوں بھائی کا کیا حال ہے۔ سرکاری محل پہنچا۔ ابھی اندر جانے کا راستہ تلاش کر ہی رہا تھا کہ داروغہ نے آ پکڑا۔ کار سرکار میں مداخلت کا الزام لگا کر رشوت مانگی۔ بھائی نے چھاتی پھلا کر کہا ابے بدبخت کیا کرتا ہے میں بادشاہ کا بھائی ہوں۔ یہ سننا تھا کہ داروغے نے ریٹ ڈبل کر دیا۔ پوچھا کیوں۔ جواب ملا اشرافیہ کے لئے اسپیشل سروس ہے وہ زیادہ مال بناتے ہیں تو بھریں گے بھی زیادہ۔ فکر نہ کرو رسید بھی مل جائے گی۔ بھائی بولا بادشاہ سے شکایت کروں گا۔ جواب ملا، حضور، ضرور کیجئے یہ سب بادشاہ کے حکم سے ہی ہو رہا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا رشوت دی اور پھر بادشاہ کے حضور میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے بھائی کو دیکھ کر مسند چھوڑی اور بغلگیر ہونے کو لپکا۔ مگر بڑے بھائی نے حقارت سے منہ پھیر لیا۔ جب وجہ پوچھی تو کرپشن کے خلاف لمبا لیکچر ملا۔ یہ سن کر بادشاہ ہنسا اور بولا، بھائی خفا کیوں ہوتے ہو۔ تم اور ہم کٹھے ہی کھڑے تھے۔ تم نے بڑے بڑے ارادے کئے۔ اگر منشائے ایزدی یہاں برائی کا خاتمہ ہوتا تو ہماء تمہارے سر بیٹھتا اور میں تمہاری جگہ ٹھہرا ہوتا۔ خدا کو ہی یہی منظور تھا اور دیکھو میں نے تو اپنا وعدہ پورا کیا۔
اب ممکن ہے کہ آپ اس کہانی سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے ناپسندیدہ سیاستدان پر یہ قصہ چسپاں کرنے کی کوشش کریں۔ مگر نہیں صاحب یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہو ا ہے۔معاملہ افراد یا نظام کا نہیں معاشرے کا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے قسمت کو یہی منظور ہے کہ ہمارے ہاں اصل مسائل کی طرف توجہ ہی نہ جائے۔ ہم خود کرپشن بھی کرتے ہیں اور کرپشن کے خلاف بھاشن بھی دیتے جاتے ہیں۔طبقاتی فرق بڑھتا جاتا ہے۔ ملک کے بہترین دماغ نوکری کی خاطرملک چھوڑنے کے لئے مجبور ہیں۔ ان میں سے بھی اکثر کی ریاست اور معاشرے نے اتنی مدد نہ کی کہ اپنے ہنر میں ہی اسپیشلائز کر پاتے۔ نتیجہ یہ کہ آج کے فیض اور فراز مشرق وسطیٰ کی فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں، آج کے عبدالسلام اور ثمر مبارک مند مغرب کے ریستورانوں میں برتن مانجھ رہے ہیں۔
آپ کی بھی ساری عمر نظروں کے سامنے سے گزر رہی ہوگی۔ سوچتے ہوں گے ساری عمر کیا کرتے گزاری۔ ایک سفر تھا کہیں پہنچنے کے لئے۔ مگر کہاں پہنچے۔ وہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ کوہلو کے بیل کی طرح دائرے میں ہی گھومتے رہے ساری عمر۔اگر قسمت اچھی رہی تو ایک گھر بنا لیا ہوگا۔ چھوٹا سا۔ جس میں روح بھی نہ سما پائے۔ اولاد ہے تو اس کے لئے کیا کیا نہ پاپڑ بیلے ہوں گے۔ اولاد نرینہ ہے تو سوچا ہوگا کہ بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔ کسی نے یہ نہ بتایا ہوگا کہ پانی نشیب کی طرف بہتا ہے۔ واپس بہہ کر اونچائی کی طرف نہیں آتا۔ بیٹے کی اپنی زندگی ہے۔ وہ کتنا وقت آپ کے بارے میں سوچ پائے گا۔ وہ بڑا ہوا ، اس کی شادی ہوئی اور وہ چھوٹا سا گھر بھی اس کا ہوگیا۔ اب آپ اس چھوٹے سے گھر کے سب سے چھوٹے کمرے میں رہتے ہیں۔ جب باہر نکلتے ہیں تو کوئی آپ پر چلاتا ہے اور آپ سہم کر واپس اپنے قفس میں چلے جاتے ہیں۔اگر کسی کو یہ باتیں بناوٹی یا افسانوی لگتی ہیں تو براہ کرم کسی خوش فہمی میں نہ رہے، یہ کہانی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے بے شمار گھرانوں کی ہے۔
یا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے حالات سے تنگ آکر کرپشن کے آگے ہار مان لی ہو۔ آج گھر کشادہ ہے، سائیڈ بزنس بھی ہے ۔ اولاد نے بھی خوب عیاشی کی ہے۔ ہر طرف سکون ہونا چاہئے۔ مگر ظالم ایک سکون ہی تو نہیں ہے۔دل میں ہر وقت پکڑے جانے کا خوف ۔ اور ضمیر کی ملامت اپنی جگہ۔ دنیا کو آپ یہ نہیں دکھاتے۔ سینہ تان کر چلتے ہیں۔ مگر دل ملامت پھر بھی کرتا ہے۔ لوگ آپ کے منہ پر بہت عزت دیتے ہیں مگر منہ پھیرتے ہی آپ کو بے ضمیر کہتے ہیں۔ آپ کو اس سب کا علم ہے اور مظلوم کی بددعا کا خوف بھی۔کرپشن میں سکون کہاں۔
یاروں نے نظام بھی بہت خوب بنایا۔ اگر نوجوان لائق ہے، اس میں ٹیلنٹ اور سپارک ہے تو اس کو سی ایس ایس میں لگا دو۔ ابتدا ء میں کچھ طاقت بھی ملے گی، عزت بھی اور تنخواہ بھی۔ اسی بنیاد پر رشتہ بھی اچھا مل جائے گا۔ مگر پھر کیریئر چلے گا چیونٹی کی رفتا ر سے۔ جب ڈپارٹمنٹ کی سربراہی کی پوزیشن پر پہنچے گا تو عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی۔ بہت جلد ریٹائر ہوجائے گا۔ کیریئر ختم۔ اور اس دوران میں اشرافیہ کے سپوت بغیر کسی جدوجہد کے آپ کے باس ہوں گے۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ اب آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ میرٹ اوپر سے اوپر ہی جاتا رہے گا۔ نوکری ملنا بھی اب کہاں آسان ہے۔ یا تو کسی کو رشوت دو، یا کسی کی سفارش لائو یا پھر خود کسی کی چاپلوسی کرو۔
اس تمام مسئلے کا حل موجود ہے۔ مگر کوئی اس کے بارے سوچے تو۔ دو قسطوں میں ہے یہ حل۔ پہلی قسط ، اچھی تعلیم۔ وہ نہیں جو آپ کو بھیڑ چال میں لگا دے بلکہ وہ تعلیم جو آپ کوکچھ نیا سوچنے اور پلان کرنے کا موقع دے۔ نت نئی ایجادات یا کاروبار کا خاکہ ذہن میں لائے۔ اسٹارٹ اپ شروع کرنے کے منصوبے۔ ساری دنیا میں عقلمند نوجوان اسی بنیاد پر امیر سے امیر ہوجاتے ہیں۔ یہ تو آئی ٹی اور ایجادات کا دور ہے۔
اس حل کی دوسری قسط بینکوں سے مناسب شرح پر قرضے کی دستیابی ہے۔اسے وینچر کیپیٹل ازم بھی کہا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ وہ بینک جو امیروں کے کروڑوں اربوں کے قرضے معاف کردیتے ہیںوہ آپ کو قرضہ تو کیا دیں گے پانچ سو روپے اوور ڈرافٹ کے بھی روادار نہیں۔ اور اگر کبھی پرائم منسٹر یوتھ لون پروگرام کی طرز کا کوئی اچھا منصوبہ آ بھی جائے تو اسے سیاست کی سولی پر چڑھادیا جاتا ہے۔ آپ کو کہا جاتا ہے کہ انقلاب سے ہی تبدیلی آئے گی۔کیا فرمایا جناب؟ اس ملک میں بھی کبھی انقلاب آسکتا ہے؟ کیا کبھی پہلے آیا۔ اور یہ تو کوئی آپ کو بتا تا نہیں کہ دنیا میں کبھی کوئی بھی انقلاب دیرپا ثابت نہیں ہوا۔
تو پھر یہی بہتر ہے کہ اس ملک کے شیکسپئر، آرمسٹرانگ، آئن سٹائن اور بل گیٹس بیرون ملک جا کر برتن مانجھیں، باتھ روم صاف کریں۔ شاید وہیں انہیں کوئی بریک تھرو مل جائے۔ ؎
وفا کیسی کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھراے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو