قصائی کی درخواست… تھانیدار کے نام

تھانیدار صاحب! میرا نام رفیق پلمبر ہے۔ میں ایک خاندانی قصائی ہوں۔ میرے پردادا‘ الحاج نذیر خرادیہ... دادا‘ شوکت کمانی میکرز... اور ابا‘ جمیل مستری بھی قصائی تھے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارا خاندان کئی دہائیوں سے جانور ذبح کرتا چلا آ رہا ہے۔ ہمارے خاندان کی تو اِس پیشے میں اتنی قربانیاں ہیں کہ میں گنوانا شروع کروں تو آپ کے کانوں سے آنسو نکلنا شروع ہو جائیں۔ ہمارے خاندان کے سبھی جواں مردوں نے اِسی پیشے میں جام شہادت نوش کیا۔ دادا عموماً چھوٹے جانور ذبح کیا کرتے تھے‘ ایک دفعہ محلے کی گلی نمبر4 سے گائے کا آرڈر مل گیا‘ لیکن آفرین ہے کہ انکار نہیں کیا۔ گائے کی گردن مروڑ کر نیچے گرانے کی کوشش کی لیکن گائے نے پلٹ کر ایسی ٹکر ماری کہ دادا گلی نمبر6 میں جا گرے۔آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ شاید دادا اُس گائے کی ٹکر سے جاں بحق ہوئے... نہیں جناب! یہ ٹکر تو وہ سہہ گئے تھے‘ لیکن جہاں وہ اڑتے ہوئے گرے تھے وہاں آگے بیل بندھا ہوا تھا۔ بس سیدھے اس کے پائوں میں گرے اور بیل دادا کے اوپر بیٹھ گیا۔ دادا کی باریک سی چیخ نکلی‘ اہل محلہ بتاتے ہیں کہ یہ چیخ نہیں بلکہ کوئی گالی تھی‘ لیکن مجھے پورا یقین ہے دادا نے مدد کے لیے آواز دی ہو گی۔ بہرحال بھاری بھرکم بیل کا بوجھ وہ نہ سہار سکے اور جب تک بیل کو اٹھایا گیا‘ وہ بھی اِس جہان فانی سے اُٹھ چکے تھے۔
تھانیدار صاحب! یہ واقعات بتانے کا ایک خاص مقصد ہے جس پر میں بعد میں آئوں گا‘ پہلے ابا کا واقعہ سن لیجئے۔ ابا بہترین مستری تھے‘ سیمنٹ اور ریت کا تناسب ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا‘ یہی وجہ تھی کہ عیدالاضحی پر جب وہ سائیکل کے پیچھے مونڈھی اور چھریاں لے کر نکلتے تھے تو محلے کی دوشیزائیں دروازوں کی اوٹ سے اُنہیں دیکھ کر آہیں بھرا کرتی تھیں۔ ابا بھی اِسی پیشے کی بدولت رزقِ خاک ہوئے۔ ہوا یوں کہ ایک گھر میں بکرا ذبح کرنے گئے تو اُن سے گزارش کی کہ میں کمزور دل کا بندہ ہوں‘ خون خرابا نہیں دیکھ سکتا‘ لہٰذا براہ کرم آپ اپنا بکرا خود ذبح کر لیجئے‘ کھال وغیرہ بھی خود اتار لیجئے‘ البتہ بوٹیاں وغیرہ میں بنا دوں گا۔ یہ سنتے ہی گھر والوں نے بکرے کی جگہ ابا کو لٹا لیا اور کہنے لگے 'بکرا تو ہم بعد میں ذبح کریں گے پہلے تمہاری کھال اتاریں گے‘۔ ابا نے بہت شور مچایا لیکن گھر والے بضد رہے کہ چونکہ اب کوئی قصائی دستیاب نہیں‘ لہٰذا آپ کو اسی طرح خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ ابا یہ دہشت برداشت نہ کر سکے اور اُسی وقت اُنہیں ٹانگوں میں دل کا دورہ پڑا‘ جس سے ان کی روح پرواز کر گئی۔ میں نے متعلقہ لوگوں پر قتل کا پرچہ درج کرانے کا سوچا لیکن انہوں نے مجھے 35 ہزار دے کر سمجھایا کہ جو ہوا ہے اللہ کی طرف سے ہوا ہے۔ میں چونکہ اللہ کی رضا کو تسلیم کرنے والوں میں سے ہوں‘ لہٰذا اُنہیں معاف کر دیا۔
اب آتا ہوں اصل بات کی طرف۔ جناب عالی! چونکہ عید کے دن تھے اس لیے میں نے رزق حلال کمانے کے لیے پندرہ بکرے ذبح کرنے کا آرڈر پکڑ لیا۔ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت لہٰذا میں نے چھریاں بھی تیز نہیں کروائیں‘ فائدہ بھی نہیں تھا کیونکہ پچھلے سال یہی چھریاں ہر قربانی میں کامیابی سے استعمال ہوئی تھیں۔ جناب عالی! میں ہر عید پر دس پندرہ بکرے ذبح کرتا ہوں اور میرا اصول ہے کہ جس گھر میں ایک دفعہ بکرا ذبح کرتا ہوں‘ دوبارہ وہاں کبھی نہیں جاتا کیونکہ یہ پھر اُن کا بھی اصول بن جاتا ہے۔ میں نے سوچا‘ عید کی نماز پڑھتے ہی سب کے گھروں میں باری باری جا کر بکرا ذبح کرکے چھوڑ دوں گا‘ اور پھر باری بار ی سب بکروں کی کھال اتاروں گا۔ پہلا نمبر ندیم کریانہ سٹور والے کا تھا۔ میں اُس کے گھر پہنچا‘ بکرے کی ٹانگیں باندھیں‘ چھری پھیری اور دوگھنٹے کا ٹائم دے کر باجی شمیم کا بکرا ذبح کرنے نکل پڑا۔ ابھی میں آدھے راستے میں تھا کہ ندیم کریانہ سٹور والا اپنا سکوٹر دوڑاتا ہوا میرے پیچھے آیا‘ اور میری ''کھتی‘‘ پر زور سے چپیڑ دے ماری۔ میں بوکھلا کر رک گیا‘ اور اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی‘ کہنے لگا ''ابے جس بکرے کو تو نے ذبح کیا تھا وہ بھاگ گیا ہے‘‘... پہلے تو یہ جملہ میری سمجھ میں ہی نہیں آیا‘ ذبح کیا ہوا بکرا کیسے بھاگ سکتا ہے؟ پھر سوچا ہو سکتا ہے کوئی معجزہ ہو گیا ہو۔ خیر میں اس کے ساتھ واپس اُس کے گھر پہنچا تو پتا چلا کہ بکرا مارکیٹ کی طرف جاتا ہوا دیکھا گیا ہے۔ ندیم کریانے والے نے مجھے سکوٹر پر ساتھ بٹھایا اور ہم دونوں بکرا ڈھونڈنے نکل پڑے۔ یقین کیجئے چپہ چپہ چھان مارا لیکن بکرا ملا نہ خون کا کوئی نشان۔ میں نے ندیم کریانے والے کی بڑی منتیں کیں کہ میری دیہاڑی ماری جا رہی ہے مجھے جانے دو‘ بکرا مل جائے گا تو میں دوبارہ آ کر ذبح کر دوں گا‘ لیکن ظالم انسان نہیں مانا۔ سارا دن مجھے سکوٹر پر گلیوں میں خوار کراتا رہا۔ اُدھر میرے موبائل پر فون پر فون آ رہے تھے‘ جن لوگوں کے ہاں میں نے بکرے ذبح کرنے تھے وہ میری جان کو رو رہے تھے۔ خدا خدا کرکے تین گھنٹے بعد اُس کا بکرا یونین کونسل کے سکول کے قریب ایک بکری سے گفت و شنید کرتا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ میں نے شکر ادا کیا‘ بکرے کو دبوچا اور واپس ندیم کریانے والے کے گھر لایا۔ پھر سے اسے باندھا‘ چھری اس کی گردن پر پھیری... لیکن ایک حیرت انگیز کام ہوا۔ جیسے ہی میں نے چھری چلائی‘ بکرا زور زور سے ہنسنے لگا۔ تھانیدار صاحب! آپ نے کبھی ہنستا ہوا بکرا دیکھا ہے؟ کبھی نہیں دیکھا ہو گا‘ لیکن میں نے دیکھا۔ یقین کیجئے دل دہل گیا‘ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کس خوشی میں ہنس رہا ہے... اور تب مجھ پر کھلا کہ میری چھریاں کند ہو چکی ہیں۔ وقت بڑا نازک تھا‘ میں نے راز کھلنے سے پہلے ہی جلدی سے ندیم کریانے والے سے گزارش کی کہ ذرا اپنے کچن سے چھری پکڑے۔ وہ جلدی سے آلو کاٹنے والی چھوٹی سی چھری لے آیا۔ میں نے بھی آئو دیکھا نہ تائو‘ وہی چھری بکرے کی گردن پر چلا دی... الحمدللہ پونے تین گھنٹے بعد بکرا قربان ہو گیا۔ 
جناب عالی! اس کے بعد ندیم کریانے والے نے مجھے جانے نہیں دیا اور اُسی چھوٹی چھری سے بکرے کی کھال اتروائی۔ شام 6 بجے تک میں قطرہ قطرہ کھال اتارتا رہا اور پھر مجھ سے اُسی چھری سے بوٹیاں کروائی گئیں۔ میرے ہاتھوں میں گومڑ پڑ گئے‘ پسلیاں درد کرنے لگ گئیں‘ لیکن ظالموں کو ذرا ترس نہ آیا۔ آخر رات دس بجے جیسے تیسے کرکے گوشت بنایا تو ندیم کریانے والے نے دو ہزار روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیے۔ میں نے شکوہ کیا کہ بات تو تین ہزار میں طے ہوئی تھی‘ آگے سے کڑک کر بولا 'ایک ہزار روپیہ چھری کا کرایہ کاٹا ہے‘۔ تھانیدار صاحب! آپ بھی چھریوں والے ہیں‘ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ ایک ہزار میں تو پانچ چھ سو چھریاں آ جاتی ہیں۔ ایک تو ندیم کریانے والے نے میری ہزاروں کی دیہاڑی مروائی‘ اوپر سے پیسے بھی پورے نہیں دیے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ اس ندیم کریانے والے پر آرٹیکل 62-63 کے تحت پرچہ کاٹیں اور گرفتار کرکے اشتہاری قرار دیں۔ یقین کریں اگر چار دن بھی آپ نے اس کو حوالات میں رکھ لیا تو آپ کی 'بخشش‘ پکی ہے۔ اُمید ہے آپ ایک پروفیشنل انسان کی داد رسی کرتے ہوئے ندیم کریانے والے کے خلاف نہ صرف سخت ایکشن لیں گے بلکہ اس سے میرا نقصان بھی پورا کروائیں گے۔ تھانیدار صاحب! مایوس نہ کیجئے گا کیونکہ قصائی کی آہ سے تو عرش کا کلیجہ بھی دہل جاتا ہے۔ آپ کی اس عنایت پر میں انشاء اللہ آپ کے تھانے کی تمام ٹوٹیاں مفت میں مرمت کروں گا۔ فقط... رفیق پلمبر‘ قصائی فیم!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں