اُڑن ٹیکسی

کچھ عرصہ پہلے میرے ایک بڑے پرانے دوست نے اچانک امریکہ شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا‘ موصوف کا سسرال چونکہ امریکہ میں ہی رہائش پذیر تھا لہٰذا کچھ تگ و دو کے بعد وہ گرین کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں نے فون پر پوچھا کہ وہاں کیا کام شروع کرنے کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے ''یہاں ٹیکسی چلانا بہت منافع بخش کام ہے‘‘۔ میں نے کنپٹی کھجائی ''وہ تو یہاں بھی بڑا منافع بخش ہے‘‘۔ انہوں نے پتا نہیں کیوں دانت پیس کر فون بند کر دیا حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ جب سے آن لائن ٹیکسی سروس شروع ہوئی ہے ہمارے ہاں بھی پڑھے لکھے لوگ اس کام میں آ گئے ہیں‘ لیکن تباہ کن خبر یہ ہے کہ دوبئی میں اُڑنے والی ڈرون ٹیکسی کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ اب کچھ ہی عرصے میں یہ ٹیکسیاں باقاعدہ مسافروں کو بھی بائی ایئر منزل پر پہنچایا کریں گی۔ پانچ دس سال بعد یہ کام یہاں بھی شروع ہو جائے گا۔ میں شدید پریشان ہوں کہ اگر اڑنے والی ٹیکسیاں چل پڑیں تو ہمارے مسائل یقینا بڑھ جائیں گے۔ 
یہ ٹیکسیاں یقینا گھروں کے اوپر سے بھی گزریں گی اور میں شرط لگا کرکہہ سکتا ہوں کہ غیرت مند گھروں سے اِن کے اوپر پانچ پانچ کلو کے ''وٹے‘‘ برسیں گے۔ سڑکوں کی بڑھتی ہوئی ٹریفک کا حل تو پُل اور انڈر پاسز بنا کر نکالا جا سکتا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ اُڑنے والی ٹیکسیوں کی تعداد اگر بڑھ گئی تو یہ ''ایئر ٹریفک‘‘ کا مسئلہ کیسے حل ہو گا؟ ممکن ہے اِن کے لیے فضائی انڈر پاسز بنانے پڑیں۔ پھر فضا میں بھی ٹریفک سسٹم نافذ ہو جائے گا۔ ہزار فٹ کی بلندی پر اشارے نصب ہوں گے‘ وارڈن اتنی ہی بلندی پر ایک طرف چھپ کے کھڑے ہوں گے تاکہ جونہی اُڑن ٹیکسی اشارہ کاٹے‘ جھٹ سے دھر لیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تنگ گلیوں میں رہنے والوں کو ہو گا‘ اُنہیں ہمیشہ گھر کی چھت پر لینڈ کرنا پڑے گا۔ کیسا منظر ہو گا جب بچے آدھی رات کو چھت پر ''دھم‘‘ کی آواز سن کر خوشی سے چلایا کریں گے... ابو آ گئے...!!!
اُڑن ٹیکسی کی وجہ سے لوگوں کی دشمنیاں بھی بڑھ جائیں گی‘ لوگ اپنے مخالفین کے گھروں پر تھوکتے ہوئے گزریں گے۔ اگر اڑتے ہوئے ٹیکسی اچانک خراب ہو گئی تو ٹیکسی ڈرائیور اور سواری کی اجتماعی نماز جنازہ ادا ہو گی۔ ٹیکسیوں میں سیڑھیاں بھی لگیں گی۔ کسی مشکل جگہ پر سواریاں فضا میں ہی سوار ہو سکیں۔ کیا بھیانک منظر ہو گا کہ بندہ ٹائی کوٹ پہن کر دفتر جانے کے لیے کوٹھے کی چھت پر ہوا میں سیڑھیاں چڑھ رہا ہو گا۔ یقینا اس صورت میں دھوتی پہننے کا رواج بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔ پھر ایسے سین بھی نظر آئیں گے کہ خراب اُڑن ٹیکسی کو رسی کی مدد سے باندھ کر ورکشاپ لایا جا رہا ہے۔ پھر یہ جملہ بھی سچ ہو جائے گا کہ ''میں اُڑ کر آ رہا ہوں‘‘۔ پھر گھروں کی ڈور بیل باہر کے دروازے کے ساتھ ساتھ چھت پر بھی لگوانی پڑے گی۔ مہمانوں کی آمد سے پہلے چھت کی خاص صفائی کی جائے گی تاکہ اچھا امپریشن بنے۔ فلیٹوں میں رہنے والوں کے لیے خاص طور پر ''پھٹے‘‘ بنوائے جائیں گے تاکہ اُڑن ٹیکسی تھرڈ فلور پر اُن کے فلیٹ کی کھڑکی کے بالکل ساتھ رُکے اور وہ پھٹے پر رینگتے ہوئے کھڑکی کے راستے فلیٹ میں داخل ہو جائیں۔ پان کھانے والے افراد کو اُڑن ٹیکسیوں میں بیٹھنے سے پہلے خاص احتیاط کرنا ہو گی ‘ ایسا نہ ہو کہ قبلہ کھڑکی کھول کر پان کی پیک تھوکیں اور نیچے اماں جیراں کا شک مزید پختہ ہو جائے کہ اُن کی بہو نے اُن پر تعویز کرائے ہیں جبھی تو آسمان سے خون کی بارش ہوئی ہے۔ شوگر کے مریضوں کو بھی ایسی ٹیکسیوں میں بیٹھنے سے گریز کرنا ہو گا ‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ 'جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔‘‘ چوریوں کی نوعیت بھی بدل جائے گی‘ چور حضرات مضبوط سی ڈوری ساتھ رکھا کریں گے اور گھروں کے صحن اور گیراج وغیرہ سے چیزیں چرا کر ''لے اُڑیں‘‘ گے۔ اگلی صبح خبر ملے گی کہ گھر کا دروازہ وغیرہ اندر سے لاک تھا اس کے باوجود چچا رفیق کا موٹر سائیکل غائب ہے۔ عینی شاہدین بتایا کریں گے کہ رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب چچا کا موٹر سائیکل شمال کی طرف اُڑتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس کے باوجود جہاں ہر چیز کے کچھ نقصانات ہوتے ہیں وہاں فائدے بھی ہوتے ہیں، یقینا اُڑن ٹیکسی کی بدولت کچھ مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی مثلاً بارش کے دنوں میں ٹیکسی جتنی مرضی تیز چلے‘ کسی پر چھینٹے نہیں پڑیں گے۔ سٹپنی نہیں رکھنی پڑے گی... بلکہ ٹائر ہی نہیں ہوں گے‘ یوں پنکچروں کا خرچہ بھی بچے گا۔ لیٹ آنے پر اگر سکول کا گیٹ بند ہو گا تو بچوں کو اوپر سے ہی سکول کے اندر ڈراپ کیا جا سکے گا۔ محبوبہ کے گھر کا طواف کرنے کی بجائے اوپر سے ہی پتا چل جایا کرے گا کہ والد محترم گھر میں ہیں یا نہیں۔ تاہم اس میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے‘ بعض اوقات والد محترم کمرے میں آرام بھی فرما رہے ہوتے ہیں۔ اُڑن ٹیکسی کی وجہ سے اکثر عزیز و اقارب سے ''بالا بالا‘‘ ہی سلام دُعا ہو جایا کرے گی‘ بندہ اُڑتی ہوئی ٹیکسی کا شیشہ کھول کر نیچے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہہ دے گا ''کیا حال ہے خالو؟‘‘۔ عین ممکن ہے جب یہ اُڑن ٹیکسیاں زیادہ ترقی کر جائیں تو لوگ اپنے رشتہ داروں کو ائیر پورٹ سے ریسیو کرنے کی بجائے اپنے گھر کے اوپر سے گزرتے جہاز سے ہی Pick کر لیا کریں۔ اِن ٹیکسیوں میں ایمرجنسی کی صورت میں پیراشوٹ رکھنے کا تو کوئی فائدہ نہیں‘ ایک ہزار فٹ کی بلندی سے جتنی دیر میں پیراشوٹ نے کھلنا ہے‘ بندے کا سر کھل جانا ہے۔ میرا خیال ہے ایسے کسی خطرے کی صورت میں مسافروں کو سپرنگ والے جوتے پہن کر چھلانگ مارنے کی ہدایت کی جائے گی۔ پتا چلے مسافر نے ایک ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگائی اور سپرنگ زمین پر لگتے ہی اچھل کر دو ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی صورتحال کے لیے گیسی غباروں کی مدد لی جائے، لیکن دھیان رکھنا ہو گا کہ یہ غبارے پرندوں کی چونچوں سے محفوظ رہیں۔ میری تجویز ہے کہ اس مقصد کے لیے پیتل یا تانبے کے غبارے مناسب رہیں گے۔ جب ہمارے ملک میں یہ ٹیکسیاں چلیں گی تو شروع شروع میں ان کا حال بھی پتنگوں والا ہو سکتا ہے‘ یعنی ممکن ہے اندرون شہر پرواز کرتی ٹیکسی پر اچانک کوئی ''گاٹی‘‘ مار کر اسے اپنی طرف گھسیٹ لے یا نیچے سے شُرلی چلا دے۔ پاکستانی من چلے تو ویسے بھی ایسی دلچسپ چیزوں کا شکار کرنے میں ثانی نہیں رکھتے لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ غلیل میں انڈہ رکھ کر اُڑن طشتری کی ونڈ سکرین پر دے ماریں۔ مسافر بھی مختلف طریقے اختیار کر سکتے ہیں مثلاً سفر کے بعد جب کرایہ دینے کی باری آئے تو کھڑکی کھول کر نیچے سے گزرتے ہوئے کسی آٹے کے ٹرک پر چھلانگ لگا دیں۔ لیکن کچھ بھی ہو‘ ایک فائدہ تو ضرور ہو گا کہ سڑکوں پر رش کم ہو جائے گا۔ باراتیں بھی اُڑن ٹیکسیوں میں آیا کریں گی‘ پھولوں سے سجی ٹیکسی آگے ہو گی‘ پیچھے پیچھے بیس ٹیکسیاں اُڑ رہی ہوں گی اور بلند آواز میں گانا لگا ہو گا... ''میں اُڈی اُڈی جاواں ہوا دے نال‘‘۔ انتظار کیجئے کہ کب یہ اُڑن ٹیکسیاں یہاں آتی ہیں لیکن ایک بات ذہن میں رہے‘ جونہی یہ ٹیکسیاں آئیں گی‘ وہ جملے بھی سننے پڑیں گے جو ہم کبھی بھول کر بھی نہیں کہتے... مثلاً اگر شوہر اُڑن ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہو گا اور اُسی وقت اُس کا کوئی دوست دروازے پر بیل دے گا تو بیوی کو کہنا ہی پڑے گا کہ ''وہ تو اوپر چلے گئے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں