بچے غیر سیاسی نہیں رہے

بیٹے نے بتایا کہ ''بابا ہمارے سکول میں آج ایک ٹیچر بتا رہی تھیں کہ فلاں سیاسی پارٹی اچھی ہے‘‘۔ ایک دم سے میرا ماتھا ٹھنکا۔ اگلے دن میں اس کے سکول پہنچا اور پرنسپل صاحب سے گزارش کی کہ نویں کلاس کے بچوں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے مجھ سے تفصیل پوچھی اور پھر بظاہر بڑے آرام سے فرمایا کہ ''بچوں کو صحیح اور غلط بتانا بھی تو ہمارا فرض ہے‘‘۔ میں نے سر ہلایا ''بالکل ٹھیک ہے لیکن اس کا تعین کون کرے گا کہ کون سی سیاسی پارٹی ٹھیک ہے اور کون سی غلط؟‘‘۔ اس بات پر انہوں نے تیوری چڑھائی؛ تاہم بمشکل خود پر کنٹرول کرتے ہوئے بولے ''سب کو پتا ہے کہ کون سی پارٹی غلط ہے اور کون سی ٹھیک‘‘۔ میں نے پہلو بدلا ''اگر ایسی بات ہے تو آئیے! میرے ساتھ سکول سے باہر چلتے ہیں اور راہگیروں سے پوچھتے ہیں‘ آدھے ایک پارٹی کے حامی نکلیں گے آدھے دوسری کے‘‘۔ معاملہ چونکہ بچے کی فیس کا بھی تھا، لہٰذا پرنسل صاحب نے مٹی پائو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے میری تسلی کرا دی کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔
لیکن ایسا ہو رہا ہے اور بہت سے تعلیمی اداروں میں ہو رہا ہے۔ وہ اُستاد جنہوں نے بچوں کی تربیت کرنی ہے‘ انہیں صحیح اور غلط کی تمیز سکھانی ہے وہ از خود کسی نہ کسی پارٹی کے سپورٹر بنے ہوئے ہیں اور کھلے عام کلاس رومز میں بچوں کو اپنی پسندیدہ پارٹی کی خوبیاں اور مخالفین کی خامیاں بیان کرتے پھر رہے ہیں۔ نفرت کا یہ زہر جس طرح سے پھیل رہا ہے اس کے مکمل نتائج کچھ عرصے بعد ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک تین یا چار سال کے بچے کو باپ موبائل پر ایک سیاسی مخالف کی تصویر دکھا رہا ہے اور پوچھ رہا ہے کہ ''بیٹا بتائو یہ کون ہے؟‘‘۔ اور بچہ نفرت بھرے جملے بول رہا ہے۔ ظاہری بات ہے بچے کو پہلے یہ سبق یاد کرایا گیا ہے پھر اس کی ویڈیو بنائی گئی ہے، جسے اب تک سینکڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ یہ بچہ جب بڑا ہوگا تو کیا اپنے طور پر کچھ سوچنے کے قابل رہے گا؟ ابتداء میں ہی اس کے ذہن کی 'نس بندی‘ کر دی گئی ہے اور بڑے فخر سے اسے شیئر بھی کیا جا رہا ہے۔ ایک تصویر دیکھی‘ یہ غالباً کسی بچے کا اپنے باپ کے نام خط تھا جس میں اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ایک چٹ پر لکھا ہے کہ ''ابو جان! جب تک آپ فلاں پارٹی کی سپورٹ نہیں چھوڑیں گے‘ میں گھر واپس نہیں آئوں گا‘‘۔ یہ بھی گویا ہونا تھا۔ تصویر اس دلیل کے ساتھ شیئر ہو رہی ہے کہ پارٹی کتنی مقبول ہے اور ہر بچے کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ایک ویڈیو میں باریش بزرگ ایک پارٹی کے چیئرمین کو ننگی گالیاں دے رہے ہیں اور بڑے فخر سے بتا رہے ہیں کہ جس نے ان کے خلاف جو کرنا ہے‘ کر لے...!!!
ہمارے اندر بے چینی‘ ڈپریشن‘ غصہ اور بات بات پر کاٹ کھانے کی عادت اس لیے بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ ہمارے موبائل فون پر ہر وقت سیاسی پوسٹ آ جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو شاید سب ہی نے سیاست کو اپنا فرضِ اولین سمجھ لیا ہے۔ مخالف سیاسی جماعت کی معمولی سے معمولی بات بھی بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے اور اپنی دو ٹکے کی بات کو بھی سونے کے ورق لگا دیئے جاتے ہیں۔ میں نے تو ایک طویل عرصے سے دوست احباب سے باقاعدہ گزارش کرکے‘ اس مصیبت سے جا ن چھڑا لی ہے۔ سیاسی کلپ بھیجنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ جو نہیں مانتے اُن کو یا تو میں نے بلاک کر دیا ہے یا میسج پڑھنا ہی چھوڑ دیئے ہیں۔ ہر طرف جنگِ پلاسی کا سماں ہے۔ جو بندہ جس پارٹی سے محبت کرتا ہے‘ اس کے حق میں دن رات نئے نئے سٹیٹس ڈھونڈنے میں لگا ہوا ہے۔ لوگ اتنے باریک بین ہو گئے ہیں کہ اب اس بنیاد پر بھی نفرتیں ہونے لگی ہیں کہ فلاں بندہ بے شک خود سیاسی نہیں لیکن اس کی فرینڈ لسٹ میں مخالف سیاسی جماعت کے لوگ کیوں موجود ہیں۔ جن لوگوں کے گھروں میں لڑائیاں پڑی ہوئی ہیں‘ روٹی روزی کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ خاندانی نظام انتشار کا شکار ہے‘ وہ سب سے زیادہ ملک و ملت کو درخشاں بنانے میں پیش پیش ہیں۔ ڈر لگتا ہے ایسی محفلوں میں جاتے ہوئے‘ جہاں صرف سیاست ہی موضوع بحث ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے دو قومی نظریے پر بات ہو رہی ہے۔ لوگ اپنے سیاسی مخالفین کی بوٹیاں نوچنے پر تلے ہوئے ہیں‘ چونکہ سوشل میڈیا پر یہ ممکن نہیں لہٰذا گالیاں بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہیں۔
حالات یہی رہے تو آج سے محض پانچ سال بعد کا پاکستان (اللہ نہ کرے) کچھ اس قسم کا نظر آ رہا ہے جہاں مختلف مسالک کی مساجد کی طرح سیاسی جماعتوں کی بھی الگ الگ ہائوسنگ سوسائٹیاںہوا کریں گی۔ ہر سیاسی جماعت کے چاہنے والوں کی الگ دکان‘ الگ ورکشاپ‘ الگ سکول ‘ الگ ہسپتال‘ اور الگ پارک ہوا کرے گا، جہاں مخالف سیاسی جماعت کو قطعاً داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ جس نسل کو بچپن میں ہی نفرت کا زہر پلایا جا رہا ہے کوئی بعید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں وہ مخالف کو جان سے مارنے میں بھی فخر محسوس کرنے لگے۔ جن بچوں نے کھلے ذہن سے جائزہ لے کر صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا تھا‘ اُنہیں ہم نے بچپن اور لڑکپن میںہی اپنی عقل کے مطابق 'سیدھے‘ راستے پر لگا دیا ہے۔
پہلے جب بچوں کی لڑائی ہوتی تھی تو وجہ کوئی کھیل ہوتا تھا‘ کسی بچے کی گیند گم ہو جاتی تھی‘ کسی کا بیٹ ٹوٹ جاتا تھا‘ کسی کو باری نہیں ملتی تھی... اب یہ لڑائیاں بھی سیاسی ہو گئی ہیں، بچے آپس میں الجھ پڑتے ہیں‘ دلائل ہوتے نہیں لہٰذا جو کچھ گھر سے سنا ہوتا ہے‘ وہی اچھل اچھل کر بیان کرتے ہیں اور ہاتھا پائی شروع ہو جاتی ہے۔ ان بچوں کی اکثریت نیوز چینلز نہیں دیکھتی‘ اخبارات نہیں پڑھتی... اِنہیں جو موٹی موٹی معلومات درکار ہوتی ہیں یہ اپنے والدین سے پوچھ لیتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ سچائی آشکار ہو گئی ہے۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہمارا بچہ اگر ہم سے پوچھے کہ ''ہم شیعہ ہیں‘ سنی ہیں‘ وہابی ہیں‘ بریلوی ہیں یا دیوبندی؟‘‘ تو ہماری اکثریت کا بڑا سلجھا ہوا جواب ہوتا ہے کہ ''بیٹا ہم صرف مسلمان ہیں‘‘۔ لیکن یہی بچہ جب ہم سے سیاسی حوالے سے کوئی وابستگی جاننا چاہتا ہے تو ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ ''بیٹا ہم صرف اُس کے ساتھ ہیں جو پاکستان کا بھلا چاہے‘‘۔ ایسے موقعوں پر ہم فوراً اپنے پسندیدہ لیڈر کے اوصاف گنواتے ہیں اور بچے کے کچے ذہن میں پکی طرح بٹھا دیتے ہیں کہ فلاں پارٹی ہی بہترین ہے۔ اچھے برے کی تمیز سکھاتے وقت ہم بچے سے جنرل بات کرتے ہیں لیکن سیاست کا ذکر آئے تو پوری طر ح پن پوائنٹ کرتے ہیں کہ یہ ہے وہ بندہ جو پاکستان کے لیے ضرور ی ہے۔ اِس پٹی کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ بچے غیر سیاسی نہیں رہے۔ اِ ن کے سامنے اگر خاندان کا کوئی بڑا بزرگ بھی بیٹھا ہو اور وہ ان کے سیاسی نظریات کے برعکس ہو‘ تو یہ اس کو بھی تضحیک آمیز جملے لگانے سے باز نہیں آتے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اِس گیم میں شامل ہونے والے بچے سکول کا سبق یاد کریں‘ نہ کریں سیاسی نفرت کا پورا باب رٹ لیتے ہیںاور پھر جوش و خروش سے اس کا اظہار کرتے ہیں‘ والدین کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا اور فوراً موبائل فون پر ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئرکردی جاتی ہے۔ بدترین سیاسی نفرت کے اِس عہد میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی معراج اُس وقت دیکھنے کو ملے گی جب پتا چلے گا کہ سیاسی مخالفین کے کھانے کے برتن بھی الگ کر دیئے گئے ہیں...!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں