مہنگائی کے شاندار فوائد

مجھے چونکہ ہر چیز کا پازیٹو پہلو دیکھنے کی بیماری ہے لہٰذا کبھی خون دینا پڑ جائے تو 'بی نیگیٹو‘ کہتے ہوئے انتہائی ندامت ہوتی ہے۔ مہنگائی کے بارے میں بھی میرا یہی خیال ہے کہ ہم لوگ اس کے پازیٹو پہلو سے بے خبر ہیں۔ مہنگائی بے شمار صورتوں میں نہایت اچھی اور فائدہ مند ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے انسان میں دن رات محنت کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ فضول خرچی سے نجات ملتی ہے۔ بچت کی عادت پڑتی ہے۔ ایک چیز دو روپے کی مل رہی ہو اور اچانک دس روپے کی ہو جائے تو یقینا آپ کی نظر میں وہ زیادہ قیمتی ہو جائے گی۔ بجلی کا بل پانچ ہزار آئے تو پورے گھر کی اندرونی و بیرونی لائٹیں جلتی ہیں۔ دس ہزار آئے تو صرف اندرونی منظر روشن رہتا ہے۔ پندرہ ہزار آئے تو استری کیے ہوئے کپڑے دو دن نکال جاتے ہیں۔ بیس ہزار آئے تو واشنگ مشین کی باری دو ہفتوں بعد آتی ہے اور... جب بل پچیس ہزار آتا ہے تو چھوٹی موٹی چیز تلاش کرنے کے لیے موبائل کی ٹارچ کارآمد لگنے لگتی ہے۔ اندازہ کریں کہ اگر سب کا بل ستر ہزار ماہانہ کر دیا جائے تو کتنا فائدہ ہو گا۔ آدھی آبادی کے میٹر کٹ جائیں گے اور بجلی کی پیداوار اتنی ہو جائے گی کہ ہم پڑوسی ممالک کو بھی بیچ سکیں گے۔
مہنگائی ایک نعمت ہے لیکن ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ مہنگائی کی وجہ سے شوہر بھی خراب نہیں ہوتے۔ دو دو نوکریاں کرتے ہیں اور 'بونترے‘ رہتے ہیں۔ رات کو چھٹی ملتی ہے تو صرف سونے کے لیے گھر آتے ہیں۔ میاں بیوی کی لڑائی بھی نہیں ہوتی کہ دونوں کا ٹاکرا بہت کم ہوتا ہے۔ عزت مآب مہنگائی کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہے کہ بندہ مونگرے کھا کر بھی تہہ دل سے شکر الحمدللہ کہہ اٹھتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے گملوں میں سبزیاں اگانے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ رشتے داروں کی شادیوں میں نہ جانے کے بہترین بہانے ذہن میں آتے ہیں۔ اچار کے خالی ڈبے میں سکے جمع کرنے کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔ اخبار کی ردی سنبھال کر رکھنے کا شوق بیدار ہوتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے معدہ بھی ٹھیک رہتا ہے کیونکہ دھیرے دھیرے فاسٹ فوڈ چھوٹ جاتا ہے اور پتلے شوربے والے سالن کی لت پڑ جاتی ہے۔ اللہ سے قربت ہو جاتی ہے اور غیب سے رزق آنے کے وظیفے خشوع و خضوع سے پڑھے جانے لگتے ہیں۔
مہنگائی کو برا کہنے والوں کو شائد یہ نہیں معلوم کہ دراصل مہنگائی سادگی کی طرف پہلا قدم ہے۔ وہ لوگ جو پیدل نہیں چلتے اور کھانا کھا کر ایک ہی جگہ پڑے رہتے ہیں انہیں مہنگائی کی وجہ سے بہترین واک نصیب ہو سکتی ہے۔ طریقہ میں بتا دیتا ہوں۔ انٹرنیٹ کا پیکج ختم کروائیں‘ پیسے بچائیں اور واک کرتے ہوئے قریبی انٹرنیٹ فری ایریا میں جا کر دل کی بھڑاس نکال لیں۔ اگر آپ کے علاقے میں ایسا کوئی ایریا نہ ہو تو کسی اچھی بس سروس کے ویٹنگ لائونج میں چلے جائیں۔ مہنگائی کی وجہ سے ڈپریشن اور آنکھوں کے امراض سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ نہ گھر میں انٹرنیٹ ہو گا نہ سوشل میڈیا پر نظر پڑے گی نہ ساری رات ویڈیوز دیکھنے میں غرق ہو گی۔ اگر آپ چکن اور گوشت کے شوقین ہیں تو دعا کریں اِن کے ریٹ بیس گنا زیادہ ہو جائیں۔ خود بخود آپ سبزیوں پر آ جائیں گے اور اگر سبزیاں بھی مہنگی ہو جائیں تو اسے سونے پر سہاگا سمجھئے... کھانا کم ہو جائے گا اور بغیر کسی ورزش کے وزن بھی۔ سات گز کی بجائے پانچ گز میں سوٹ تیار ہو جائے گا۔ مہنگائی کی وجہ سے درزی کے پاس جانے کی عادت بھی ختم ہو گی اور خواتین دوبارہ سلائی مشین پر آ جائیں گی۔
ذرا تصور کیجئے کہ پٹرول ایک ہزار روپے لٹر ہو جائے تو کس کا فائدہ ہو گا؟ سو فیصد آپ کا۔ کاروں کی قیمتیں ٹکے ٹوکری ہو جائیں گی‘ سڑکیں سائیکلوں سے بھر جائیں گی اور صحت ایسی کہ واللہ چائنیز بھی شرمائیں۔ مزید تصور کیجئے کہ جب آپ کی جیب میں دو ہزار ایکسٹرا ہوتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں۔ یقینا کولڈ ڈرنک پیتے ہوں گے‘ دوستوں پر لٹاتے ہوں گے‘ فلمیں دیکھتے ہوں گے۔ تو اگر یہ دو ہزار آپ کی جیب میں نہ ہوں تو ساری عیاشیاں ختم۔ دُعا کریں کہ ماچس کی ڈبی پانچ سو روپے کی ہو جائے‘ پھر دیکھئے لوگ تیلی بھی ایسے انہماک سے جلائیں گے جیسے سوئی میں دھاگا ڈالتے ہیں۔
سکولوں کی فیس ایک لاکھ روپے ماہانہ کر دی جائے تو اس کا ایسا شاندار رزلٹ نکلے گا کہ آپ کی سوچ ہے۔ یہ بچے سکول جا سکیں گے‘ نہ پڑھیں گے‘ نہ فیس بک پر اپنے مزاج کے بر خلاف کوئی تحریر پڑھ سکیں گے‘ اور نہ اُس پر گالیاں دیں گے۔ یوں ایک ان پڑھ لیکن مہذب معاشرہ پھر سے تشکیل پا جائے گا۔ ٹی وی کیبل کی فیس بھی پچیس ہزار ماہانہ ہونی چاہیے تاکہ گھروں کی منڈیروں پر دوبارہ سے اینٹینا لگ جائیں اور پرندوں کو بیٹھنے کے لیے نسبتاً بہتر مقام میسر آ سکے۔ میٹھے میٹھے پیارے بھائیو! مہنگائی ہو گی تو ہماری ترقی کی رفتار یک دم تیز ہو جائے گی کیونکہ ہر بندہ مشین بن جائے گا۔
خدا کے لیے مہنگائی کی قدر کریں۔ ایسا نہ ہو یہ نعمت ہم سے چھن جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ زندہ قوموں نے ہمیشہ مہنگائی کا علم بلند کیا۔ مہنگائی ہو گی تو گھر بھی یک دم بڑے اور کھلے ہو جائیں گے۔ بڑے بڑے صوفوں کی جگہ موڑھے اور جہازی سائز ڈبل بیڈ کی جگہ فولڈنگ چارپائیاں آئیں گی تو خود ہی دیکھ لیجئے گا کہ کمرہ کتنا کشادہ ہو گیا ہے۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن یہ سچ ہے کہ مہنگائی کی بدولت بڑھتی ہوئی آبادی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ انڈے بیس ہزار روپے درجن ہو جائیں اور فی شادی بارہ لاکھ روپے ٹیکس لگ جائے تو دیکھئے کیسے ہم بائیس کروڑ سے بائیس لاکھ پر آتے ہیں۔
مہنگائی وہ واحد چیز ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہم عزت و احترام حاصل کر سکتے ہیں۔ جب خریدنے کی سکت کسی میں نہیں ہو گی تو سارا امپورٹڈ مال مغربی استعماری طاقتوں کے گوداموں میں پڑا رہ جائے گا‘ اور دُنیا قائل ہو جائے گی کہ ایک ملک ایسا بھی ہے جو کسی کا محتاج نہیں۔ یہ جو لوگ آئے روز مہنگائی کا رونا روتے ہیں مجھے زہر لگتے ہیں۔ اِن کو احساس ہی نہیں مہنگائی قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ عظیم ہیں وہ لوگ جنہوں نے مہنگائی کی آرزو کی اور اپنی زندگی میں خوشیاں بھر لیں۔ پیسہ ہوتا ہے تو ڈاکا پڑتا ہے‘ پیسہ ہوتا ہے تو چوری ہوتا ہے۔ پیسہ نہیں ہو گا تو رات کو گھروں کے مین گیٹ پر اندر سے تالے لگنے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا۔ ڈکیت بھی ختم ہو جائیں گے اور محلے کی گلیوں میں لگے غیر قانونی جنگلوں کا بھی جواز ختم ہو جائے گا۔
دوستو بزرگو! مہنگائی ہو گی تو چیزیں بھی خالص ملا کریں گی۔ لوگ پیکٹوں والے مصالحوں کی بجائے گھر میں مرچیں پیسا کریں گے۔ گھر کے گیرج میں گاڑی کی بجائے بھینس بندھی ہو گی اور بھینس کی وجہ سے شیمپو کا خرچہ بھی نہیں ہو گا‘ دودھ کی لسی بنائی اور بال دھو لیے۔ مرغیاں کھانے کی بجائے پالنے کا رجحان پیدا ہو گا۔ بند کمروں میں اے سی چلا کر سونے کی بجائے چھتیں آباد ہوں گی۔ ذرا سوچئے کہ اگر سگریٹ کی ڈبی دس ہزار کی ہو جائے تو... اوہ سوری... اللہ نہ کرے...!!!
جب آپ کی جیب میں دو ہزار ایکسٹرا ہوتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں۔ یقینا کولڈ ڈرنک پیتے ہوں گے‘ دوستوں پر لٹاتے ہوں گے‘ فلمیں دیکھتے ہوں گے۔ تو اگر یہ دو ہزار آپ کی جیب میں نہ ہوں تو ساری عیاشیاں ختم۔ دُعا کریں کہ ماچس کی ڈبی پانچ سو روپے کی ہو جائے‘ پھر دیکھئے لوگ تیلی بھی ایسے انہماک سے جلائیں گے جیسے سوئی میں دھاگا ڈالتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں