پاکستان میں دہشت گردی… بیرونی ہاتھ ملوث ہے

پاکستان میں جاری دہشت گردی، تخریب کاری اور خون ریزی کی لہر نے ہر سنجیدہ و فہمیدہ شہری کو رنجیدہ و آزردہ کر رکھا ہے۔ تخریب کاری آکاس بیل کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے کسی کونے میں تخریب کاری کی واردات نہ ہوتی ہو۔ دہشت گردی کی جس آگ نے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ مختلف حلقوں کی طرف سے اس کی مختلف توجیحات اور توضیحات کی جا رہی ہیں۔ کچھ حلقے دہشت گردی کے ڈانڈے افغان جہاد سے جوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو اس وقت پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے پرائی آگ کو جلانے، سلگانے اور بھڑکانے کا مرتکب ہوا تھا اور اب اس آگ کے شعلوں نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کچھ لوگ دہشت گردی کی آگ کے قلابے جہاد کشمیر سے جوڑ رہے ہیں۔ ان حلقوں کے تئیں اگر پاکستان افغان جنگ میں حصہ نہ لیتا اور خود کو مقبوضہ جموں کشمیر کے معاملات سے الگ تھلگ رکھتا تو آج ہمارا ملک دہشت گردی و تخریب کاری کی آماجگاہ نہ بنتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ تاریخی طور پر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں روسی فوج 27دسمبر 1979ء کی شب داخل ہوئی تھی اور کشمیر کی موجودہ تحریک کا آغاز 1989ء کو ہوا تھا جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز 1979ء یا 1989ء میں نہیں بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں دہشت گردی کی نوعیت کچھ اور تھی اور آج نوعیت کچھ اور ہے۔ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی بنیاد ہندو نے رکھی۔ ذیل میں ہم مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جرمن افواج کی پے در پے فتوحات سے برطانوی سرکار کے دروبام لرزنے لگے، ہندوستان جیسے وسیع و عریض خطے پر اس کی گرفت کمزور پڑنے لگی، ہندوستان میں نمائندہ اداروں کے قیام کے امکانات پیدا ہونا شروع ہو گئے تو ہندو نیتائوں کے دلوں میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے مسلمانوں کو اپنا تابع بنا لیں۔ ہندوئوں کی اس خواہش، فکری، نظریاتی اور مذہبی یلغار کے نتیجہ میں مسلمانوں میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ اور جداگانہ نیابت کا شعور بیدار ہوا جو بالآخر تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے مطالبہ پر منتج ہوا۔ پاکستان کا قیام ہندوستانی مسلمانوں کے دل کی آواز تھی۔ کانگریس نے 3جون 1947ء کے تقسیم ہند کا فارمولا بادلِ نخواستہ قبول تو کر لیا لیکن اس کے ساتھ 14جون 1947ء کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے یہ قرارداد بھی پاس کی کہ ’’ہمارے دلوں میں ہمیشہ متحدہ ہندوستان کا تصور قائم رہے گا اور ہم سنجیدگی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب دو قوموں کا نظریہ غیر معتبر قرار پائے گا‘‘ کانگریس کے دیگر رہنمائوں کا بھی موقف یہی تھا مثلاً گاندھی‘ جو خود کو رواداری اور وسیع الظرفی کا علمبردار سمجھتے تھے‘ کے نزدیک پاکستان کا تصور ناقابل قبول اور ناقابل برداشت تھا۔ انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کو مقدس گائے کو دونیم کرنے کا عمل قرار دیا اور صاف لفظوں میں کہا‘ ’’ایک وقت آئے گا جب ہندوستان پھر متحد ہو جائے گا‘‘ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی رائے تھی: ’’پاکستان ناقابل عمل مذہبی تصورات کی حامل ریاست ہو گی۔ ایک نہ ایک دن لازمی طور پر بھارت اور پاکستان کی یکجائی عمل میں آئے گی‘‘ سردار ولبھ بھائی پٹیل‘ جو تقسیم ہند کے بعد پہلی مرتبہ بھارت کے نائب وزیر اعظم بنے‘ کا کہنا تھا: ’’ہم اس امید پر جئیں گے کہ جلد یا بدیر دوبارہ متحد ہو کر ہم عظیم ہندوستان کی اطاعت گزاری میں شریک ہو جائیں‘‘ کانگریس کے صدر اچاریہ کرپلانی کا کہنا تھا: ’’نہ کانگریس اور نہ ہی بھارتی قوم اکھنڈ ہندوستان کے دعوے سے دستبردار ہوئی ہے‘‘ دو قومی نظریہ کو باطل و غیر معتبر قرار دینا اور قیامِ پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانا‘ یہ بھارت سرکار کی پاکستان کے متعلق پہلی دہشت گردی تھی۔ دہشت گردی کی یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب محض تقسیم ہند کی قرارداد منظور ہوئی تھی اور پاکستان ابھی عملی صورت میں معرض میں وجود میں نہیں آیا تھا۔ دہشت گردی کی دوسری بڑی کارروائی پاکستان کے قیام کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں لاکھوں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کر کے کی گئی۔ دہشت گردی کا تیسرا حملہ اثاثوں کی غلط تقسیم اور سرحدوں کے ظالمانہ تعین کی صورت میں کیا گیا۔ دہشت گردی کی چوتھی سفاکانہ اور انتہائی بے رحمانہ واردات آبی جارحیت کی صورت میں کی گئی۔ کانگریس نے پاکستان کے حصے کے ڈیم اور نہریں انگریزوں کی آشیرباد سے پہلے ہی ہتھیا لیے تھے۔ اس کے بعد پہلا باقاعدہ آبی حملہ یکم اپریل 1948ء کو مادھوپور ہیڈ ورکس کی نہروں کا پانی‘ جو ضلع لاہور کی زمینوں کو سیراب کر رہا تھا‘ روک کر کیا گیا۔ 34دن کی پانی کی بندش سے ضلع لاہور کے 1.66 ملین ایکڑ رقبے پر آبپاشی شدید طور پر متاثر ہوئی۔ نہروں کے ارد گرد بوئی گئی گندم کی فصل سوکھ گئی۔ جانور اور انسان پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔ ہزاروں جانور پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر گئے اور ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ پانی کی بندش کا ظالمانہ فعل صرف ہندو بنیا ہی کر سکتا تھا کیونکہ وہ انسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری ہے۔ آبی دہشت گردی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور پہلے سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کی پانچویں بڑ ی کارروائی جموں اور کشمیر، حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور مناوادر پر کی گئی۔ اس کارروائی کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ پاکستان کو پیدائش کے ساتھ ہی مفلوج و اپاہج کر دیا جائے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی چھٹی سنگین کارروائی 1971ء کے موقع پر کی جب اس نے اپنی فوجیں مشرقی خطے میں داخل کر کے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ یہ چند واقعات صرف بطور مثال ذکر کیے گئے ہیں ورنہ 64 سال کا عرصہ بھارت کی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت ایسا دشمن ہے جو پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے خواب دیکھ رہا ہے اور اپنے اس خواب کو عملی شکل دینے کے لیے 1947ء سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان واقعات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا اصل دشمن بھارت ہی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اس وقت پاکستان میں جاری دہشت گردی کے ڈانڈے بھارت سے ہی ملتے ہیں۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے دہشت گردی جس کے خمیر اور ضمیر میں شامل ہے۔ گاندھی کو قتل کرنے والے بھارت کے شہری اور ہندو معاشرے کا حصہ تھے۔ جن 8 آدمیوں نے گاندھی کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا ان میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی سب تعلیم یافتہ تھے۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گاندھی کو قتل کرنے کا پروگرام بنانے والے بظاہر تو 8 افراد ہی تھے مگر حقیقت میں یہ 8 افراد ایک فکر اور تحریک کا نام تھے۔ ایسی فکر اور تحریک جس کی بنیاد پاکستان اور مسلم دشمنی پر استوار تھی۔ بعد ازاں کانگریسی رہنمائوں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اس فکر اور تحریک کو قومی دھارے میں شامل کر کے اس کا رخ باقاعدہ طور پر مسلمانوں اور پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ ہماری اس بات کی تائید بھارتی وزیر داخلہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’مکہ مسجد، مالیگائوں اور سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ میں ہندو دہشت گرد تنظیمیں ملوث ہیں‘‘ بھارتی وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں ادھوری سچائی بیان کی تھی۔ پوری سچائی یہ ہے کہ بھارت کی نہ صرف دہشت گرد تنظیمیں بلکہ بھارتی فوج اور بھارت میں برسراقتدار ہر حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھی۔ جب سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگی اس وقت وہ پانی پت کے میدان سے گزر رہی تھی۔ پانی پت میں سمجھوتہ ایکسپریس کو جس بہیمانہ طریقے سے جلایا گیا اس سے تاریخ نے ایک دفعہ پھر اپنے آپ کو دھرایا کہ پانی پت کا میدان اور بھارت کا ہندو ہمیشہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے رہے ہیں۔ کانگریس ہو یا بی جے پی دونوں اسلام اور پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر متفق ہیں۔ دونوں پاکستان کو گھیرنے اور رگیدنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بھارت کا افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ چانکیہ کے اس بھاشن کا حصہ ہے جس میں اس نے اصول جہانبانی و حکمرانی بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اپنے ہمسائے کو ہمیشہ دشمن سمجھو اور ہمسائے کے پڑوسی کو دوست بنا کر رکھو‘‘ بھارتی حکمران چانکیہ کے اس سبق پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دشمنی نبھا رہے اور افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کا قدم جمانے کے خواب دیکھنا درحقیقت تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانے اور سورج کو مٹھی میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ جس افغانستان میں روس اور امریکہ نہیں ٹھہر سکے وہاں بھارت کیوں کر اور کیسے قدم جما پائے گا؟ البتہ یہ ضرور ہو گا کہ بھارت کی چانکیائی سیاست کا اژدھا افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور کوہساروں سے سر پٹخ پٹخ کر مرے گا اور اسی سے مقبوضہ کشمیر و جموںکے مسلمانوں کی آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ افغانستان پر امریکی قبضہ ڈھلتی چھائوں اور گرتی دیوار ہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ پاکستان سے چکانا چاہتا ہے۔ گو کہ امریکہ کبھی پاکستان کا دوست نہیں رہا اس کی اصل دوستی روز اوّل سے بھارت سے رہی ہے مگر اب افغانستان میں عبرتناک شکست نے امریکہ اور بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں مزید ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی آڑ میں پاکستان کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ڈرون حملے واضح طور پر پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پر حملہ ہیں۔ ان حملوں میں بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اگر امریکہ واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے تو اسے بھارتی وزیر داخلہ کے اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے جس میں اس نے نہ صرف بھارت میں دہشت گردی تنظیموں کی موجودگی کا اعتراف کیا بلکہ یہ اعتراف بھی کیا کہ یہ تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بھارت میں انتہاپسند ہندو تنظیموں کے ٹریننگ سنٹروں پر ڈرون حملے کرے۔ مزید براں بھارتی وزیر داخلہ کے اعتراف کے بعد پاکستان کو چاہیے کہ وہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا مسئلہ سلامتی کونسل میں لے کر جائے اور مجرموں کی حوالگی کا مطالبہ کرے۔ قیام پاکستان سے لے کر سانحہ مشرقی پاکستان اور سانحہ مشرقی پاکستان سے لے کر بھارتی وزیر داخلہ کے اعتراف تک سارے معاملے کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی میں بھارت کا ہاتھ ہے تاہم اس ہاتھ پر پہنے ہوئے دستانے کبھی کبھی بدلتے رہتے ہیں۔ بھارت امن و آشتی کے نام پر پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے۔ وہ پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ اور ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں خود پوری طرح بلکہ بُری طرح ملوث ہے مگر الزام پاکستان پر دھرتا رہتا ہے۔ اب جبکہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے اور بھارتی وزیر داخلہ خود لنکا ڈھا چکے ہیں تو ہمارے حکمرانوں کی خاموشی کسی صورت درست نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے کردار کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے نام نہاد پردوں میں چھپا بھارت اصلی و حقیقی دہشت گرد ہے۔ آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پڑوسی بدل نہیں سکتے، خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، پرانی باتوں کو بھول جانا چاہیے، نئے سرے سے دوستی، محبت اور اعتماد سازی کا سفر شروع کرنا چاہیے، ماضی میں جو ہو گیا سو گیا پرانی باتوں کو اب دہرانے کا کیا فائدہ؟ ہم بھی کہتے ہیں پڑوسی بدل نہیں سکتے، خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کیا چاہتا ہے؟ کیا بھارت بھی واقعی خطے میں امن چاہتا ہے؟ کیا وہ واقعی امن کا خواہاں ہے؟ جب ہم بھارتی حکمرانوں کے عملی کردار کو دیکھتے ہیں تو متذکرہ بالا تمام سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو جو مسائل و مصائب ورثے میں ملے وہ ہنوز نہ صرف موجود ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ گھمبیر اور سنگین ہو چکے ہیں۔ بنیا پاکستان کی شہ رگ مقبوضہ جموں کشمیر کو بدستور دبائے اور اس پر خونی پنجہ جمائے بیٹھا ہے۔ پاکستان کا پانی لمحہ بہ لمحہ اور قدم بہ قدم روک کر ہمیں بھیانک تباہی اور ہولناک بربادی سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ دیگر مسائل کی بھی یہی حالت ہے۔ اس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ بھارت کی پاکستان دشمنی کا پرنالہ اسی جگہ پر ہے۔ بات وہی ہے جس کا ذکر ہم نے شروع میں کیا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے۔ اس نے دشمنی ترک نہیں کی صرف طریقہ واردات بدلہ ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں