پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت اور دشمنی کے بارے میں ابہام تو پہلے بھی نہ تھا‘ لیکن بنگلہ دیش میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جس ڈھٹائی، دیدہ دلیری سے علی الاعلان اور کھلے عام پاکستان دشمنی کا اظہار و اقرار کیا، اس کی یقیناً کوئی مثال نہیں ملتی۔ نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک گھنٹے سے زائد تقریر میں متعدد بار پاکستان کا نام لے کر خوب زہر اگلا اور کہا: ''بھارت بنگلہ دیش کے قیام کا خواہشمند تھا، ہماری فوج مکتی باہنی کے شانہ بشانہ لڑی، بنگلہ دیش بنانے میں ناصرف ہماری جدوجہد بلکہ ہماری فوج کا خون بھی شامل ہے۔ واجپائی نے بھی بنگلہ دیش کے قیام میں فعال کردار ادا کیا‘‘۔ ادھر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسی روز ٹوئٹر پر نریندر مودی کے حوالے سے لکھا: ''ہر بھارتی کی خواہش تھی کہ آزاد بنگلہ دیش کا خواب حقیقت بنے‘‘۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے اسباب پر آج تک بہت کچھ لکھا گیا، لیکن نریندر مودی نے ڈھاکہ میں جو کہا‘ اس سے بہت سے حقائق منظر عام پر آئے ہیں۔ ان حقائق پر بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نریندر مودی عام شخص نہیں بلکہ بھارت کا وزیر اعظم ہے۔ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں وزیر اعظم کی حیثیت سے گفتگو کی اور پاکستان کے خلاف نفرت و عداوت کے جو شعلے اُگلے وہ ان کا سرکاری موقف ہے، اس لیے تاریخی اعتبار سے ان باتوں کو درست سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مودی کی تقریر اور ٹویٹ کے درج ذیل نکات قابل غور ہیں:
1۔ آزاد بنگلہ دیش کا خواب و قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی۔
2۔ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک میں، میں نے بھی رضاکار کی حیثیت سے شرکت کی۔
3۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی بنگلہ دیش کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔
4۔ ہماری فوج مکتی باہنی کے شانہ بشانہ لڑی۔
5۔ بنگلہ دیش بنانے کی جدوجہد میں ہمارے فوجیوں کا خون بھی شامل ہے۔
مودی کی تقریر کا خلاصہ پاکستان دشمنی کا مظہر، دہشت گردی و تخریب کاری کا عکاس اور یہ بتانے کے لیے کا فی ہے کہ بھارت عالمی دہشت گرد ہے اور اس کی جارحانہ کارروائیوں سے کوئی بھی ہمسایہ ملک محفوظ نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بھارتی وزیر اعظم نے جس آزاد بنگلہ دیش کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی بات کی ہے وہ اصل میں پاکستان تھا جو ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ ساز جدوجہد، لاتعداد قربانیوں اور فقیدالمثال شہادتوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا۔ دنیا کے تمام ممالک نے اس کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا، مشرقی اور مغربی حصے پر مشتمل پاکستان اقوام متحدہ کا ممبر بنا۔ اس لیے مودی کا یہ کہنا درست نہیں کہ ہم نے بنگلہ دیش کی جنگ لڑی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے براہ راست پاکستان کے خلاف جنگ لڑی۔ واجپائی اور مودی نے پاکستان کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور بھارتی فوجیوں نے پاکستانی فوج کا خون بہایا۔ مودی کی تقریر کے دیگر نکات اور بھارتی وزارت خارجہ کی ٹویٹ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو توڑنا صرف اندرا گاندھی ہی نہیں بلکہ بھارت کی اس وقت کی حکومت، اپوزیشن، فوج اور 'را‘ سمیت سب کا قومی ایجنڈا تھا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کو آج 44 سال بیت چکے ہیں۔ دریں حالات یہ سوال بہت اہم ہے کہ بھارت 44 سالہ پرانے قضیہ کو چھیڑ کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کا دورہ ڈھاکہ اور وہاں پاکستان کو توڑنے کی باتیں۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ برسبیل تذکرہ نہیں بلکہ بھارت باقی ماندہ پاکستان کے لیے بھی 1971ء جیسے حالات پیدا کرنا اور وہی نقشہ دوبارہ ترتیب دینا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں کی پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی اور ہرزہ سرائی بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارتی وزرا پاکستان کو میانمار سے تشبیہ دے کر تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی و تخریب کاری کے ہر واقعہ کے پیچھے 'را‘ کا ہاتھ ہے۔ 'را‘ کی پاکستان دشمنی اور بغض و انتقام آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ آخرکار اب پاکستان کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت بھی کھلے عام بھارت اور 'را‘ کا نام لینے پر مجبور ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر اسلام آباد میں ہونے والی ملکی سلامتی کے حوالے سے ایک ملاقات میں بھی 'را‘ اور بھارت کے پاکستان دشمن کردار کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ان تین مقتدر اور انتہائی ذمہ دار شخصیات نے باہمی ملاقات میں جیسے ہی ملک کے استحکام اور غیر ملکی دشمن ایجنسیوں کے پاکستان کے خلاف مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا، فوراً ہی بھارتی وزیر خارجہ کی طرف سے یہ بیان آ گیا کہ ''ہمیں پاک چین اقتصادی راہداری قبول نہیں اور ہم اس کے سخت خلاف ہیں‘‘۔ دوسرے لفظوں میں بھارت نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری تعمیر نہیں ہونے دے گا اور پاکستان کو اقتصادی و معاشی طور پر کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی وزیر خارجہ کا یہ بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی نہیں کھلا اعلان جنگ بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر بھارت یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں اور وہ کیوں پاکستان کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ بھارت دو قومی نظریہ کی صداقت و طاقت سے خوفزدہ ہے۔ برہمن جانتا ہے کہ نظریہ پاکستان ''کلمہ توحید‘‘ کا دوسرا نام ہے۔ کلمہ توحید زندہ اور لازوال قوت ہے۔ اس قوت کو شکست دینا ممکن نہیں۔ ہندوستان کا برہمن کلمہ توحید کی قوت کا مشاہدہ اس وقت سے کر رہا ہے جب 17 سال کے ایک نوجوان محمد بن قاسم نے 712 ء میں سرزمین سندھ (ہندوستان) پر قدم رکھا تھا۔ اس کے بعد یہ لشکر ِجرار اخلاق و کردار اور ایمان کی بدولت فتوحات کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے اوّلین نقوشِ پا سے تعبیر کیا تھا۔ کلمہ توحید کی برکت سے ہی ہندوستان کے مسلمانوں نے 1947ء میں انگریز اور ہندوئوں کو شکست فاش دی اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
سچی بات یہ ہے کہ 1971ء کا سانحہ ہمارے اپنوں کی غفلت اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے پیش آیا ورنہ بھارت کے لیے پاکستان کو شکست دینا ممکن نہ تھا۔ مودی کے اعتراف کے بعد اس سازش کی حقیقت کو سمجھنے میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ پاکستان کو توڑنے کا اقرار بھارتی وزیر اعظم نے کیا ہے، لہذا اس کا جواب بھی پاکستان کے وزیر اعظم کو دینا چاہیے۔ اس ضمن میں پاکستان کی وزارت خارجہ کا بیان قطعی ناکافی ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے اور بھارت سے تعلقات فوری طور پر منقطع کیے جائیں۔ بات سیدھی ہے، جب بھارت پاکستان میں مداخلت کرنے سے باز نہیں آ رہا ہے بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان توڑنے کا اعتراف کر رہا ہے اور مزید حملوں کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے تو ایسے حالات میں ہمارے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ بھی بھارتی جارحیت کا جواب اس کی زبان میں دیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں ہمارے لیے یہ سبق بھی ہے کہ جنگیں صرف عسکری میدانوں میں ہی نہیں بلکہ جنگیں نظریاتی اور ثقافتی محاذوں پر بھی لڑی جاتی ہیں ۔ آ ج بھی بھارت نے پاکستان پر دونوں طرح کی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اور بہادر افواج کے سپہ سالار کا فرض ہے کہ وہ بھارتی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی ثقافتی یلغار و جارحیت کی بیخ کنی بھی کریں۔ بھارتی جارحیت کا تذکرہ کشمیر کے بغیر ادھورا ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے 19 جولائی 1947ء سے الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کر رکھی ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رُو سے پاکستان تحریک آزادی کشمیر کا وکیل اور فریق ہے، بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں بھی ظلم کی انتہا کر رکھی ہے جبکہ کشمیری قوم پاکستان کے دفاع و بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، لہذا پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں کی کماحَقّہ مدد کرے۔