27 اکتوبر 1947ء تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب بھارت نے کشمیری عوام کی مرضی اور خواہش کے بر عکس اپنی فوجیں ریاست جموں کشمیر میں داخل کر کے اس پر قبضے کی کوشش کی۔ ریاست جموں کشمیر 80 فیصد مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھی، چنانچہ برصغیر کی تقسیم اور ریاستوں کے الحاق کا جو فارمولہ وضع کیا گیا اس کی رُو سے ریاست کا الحاق صرف اور صرف پاکستان سے ہی ہو سکتا تھا۔کشمیری مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے 19جولائی1947ء کو قرادادکے ذریعے اپنا فیصلہ الحاقِ پاکستان کے حق میں دیتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ اگر کشمیر کے مسلمانوں کے الحاق کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے۔ اس کے بعد برطانوی حکومت اور کانگریس پر لازم تھا کہ وہ اہل کشمیر کے الحاقِ پاکستان کے جائز مطالبے کوتسلیم کرتے، لیکن برطانوی حکومت اور آل انڈیا نیشنل کانگریس نے ہندوستان کی جغرافیائی تقسیم کے وقت مسلمانوں کی وسیع آبادیوں کے حقوق کا احترام اور تحفظ نہ کیا۔ برطانوی حکومت اورکانگریس دونوں اسلام اور مسلمانوں کی دشمن تھیں، ان سے مسئلہ کشمیر کو عدل وانصاف سے حل کرنے اورکشمیری مسلمانوں کے الحاق ِپاکستان کے جائز مطالبے کی پاسداری کی بھلاکیونکر امید کی جاسکتی تھی، لہٰذا دونوں نے حق وانصاف کا قتل عام کرتے ہوئے اہل کشمیر کی خواہشات و جذبات کو پائوں تلے روندتے ہوئے27 اکتوبرکی سیاہ شب میں ہوائی جہازوں اور زمینی راستے سے ریاست میں فوجیں داخل کردیں۔ بھارتی فوج نے ریاست میں قتل عام ، خون ریزی، خواتین کی عصمت دری اور آبادیوں کو مسمار و نذر آتش کرنے کی وسیع پیمانے پر شرمناک مہم شروع کر دی جس پر انسانیت آج بھی شرمسار اور انصاف کا دامن داغدار ہے۔ اس انسانیت کُش اقدام کے نتیجہ میں ڈھائی لاکھ کشمیری مسلمان شہید اور پانچ لاکھ افراد بے گھرکردیے گئے۔ آج جبکہ ان انسانیت سوز واقعات کو 69 سال ہوچکے ہیں، مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے اور ظلمتوں کے اندھیرے دن کے اجالوں میں بھی قائم ہیں۔
1989ء سے تحریک آزادی کشمیر نے نیاجنم لیا اوراب تک ایک لاکھ پچیس ہزار مسلمان شہید،23 ہزار سے زائد خواتین بیوہ، ایک لاکھ سات ہزار چارسو بچے یتیم، ایک لاکھ سے زائد گھر خاکستر اور700 ایسے قبرستان آباد ہو چکے ہیں جن میں صرف شہداء مدفون ہیں۔ بھارتی ظلم کا تازہ شکار 22 سالہ کشمیری نوجوان برہان مظفر وانی ہے جس کی شہادت کشمیری قوم کے جذبہ حریت کے لئے مہمیز اور چراغ راہ ثابت ہو رہی ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا اور ہر سو اجالا پھیلتا جا رہا ہے۔ برہان وانی کی شہادت کو آج 111دن ہو چکے ہیں، مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجی حقِ آزادی مانگنے کی پاداش میں لوگوں کو بلٹ، پیلٹ اور آنسو گیس کے شیلوں کا نشانہ بنا رہے ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کے چہروں کو بگاڑ رہے ہیں، آنکھوں کی بینائی چھین رہے ہیں اور اپاہج ومعذور کر کے ان کی زندگیاں بربادکر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو شہید کیا جارہا ہے، پبلک سیفٹی ایکٹ اور دیگر کالے قوانین کانشانہ بنا کرلوگوں کو زندان میں ڈال رہے ہیں اور مساجد کو تالے لگا کر لوگوںکوعبادات کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔ 3 ماہ اور21 دن سے مسلسل ہڑتال اور کرفیو ہے۔ بازار، مارکیٹیں، منڈیاں،ٹرانسپورٹ اور تعلیمی ادارے بند ہیں جس کی وجہ سے روزانہ ایک ارب چالیس کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ حریت کانفرنس کے تمام رہنما سید شبیر شاہ، میرواعظ عمرفاروق، مسرت عالم بٹ، محترمہ آسیہ اندرابی اوردیگر پابند سلاسل ہیں۔ بیمار قائدکشمیر سید علی گیلانی کئی ماہ سے گھر میں نظر بند اور محاصرے میں ہیں۔ بے رحمی کی انتہا ہے کہ سید علی گیلانی کی عیادت کے لئے آنے والے ان کے بیٹے ڈاکٹر نعیم گیلانی بھی گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ یٰسین ملک کی حالت مسلسل بیماری اور دوران حراست غلط انجیکشن لگنے کی وجہ سے انتہائی تشویشناک ہے۔
مگر آفرین ہے اہل کشمیر پر کہ وہ سخت ترین حالات میں بھی تحریک جاری رکھے اور آزادی کا پرچم تھامے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں بھارت کے جبری قبضے کو تسلیم کیا نہ اور نہ مستقبل میں کرینگے۔ وہ طویل جد و جہد سے تھکے، نہ ہارے، نہ ڈرے، نہ بھارت کی نفرت ان کے دلوں سے کم ہوئی اور نہ ہی ان کے دلوں میں پاکستان سے محبت کم ہوئی۔ انہیں مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے 8 لاکھ سے زیادہ قاتلوں، لٹیروں اور سفاک درندوںکا سامنا ہے جن کا ایجنڈا مقبوضہ وادی سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ اور بھارتی تسلط کو مستحکم کرنا ہے۔ لیکن کشمیری مسلمانوں کی حالت ع
بڑھتا ہے ذوقِ جنوں ہر سزا کے بعد
والی ہے ۔ جولائی1947ء میں انہوں نے الحاق پاکستان کا جوعہد باندھا تھا وہ آج بھی اس پرقائم ہیں، اس عہد کی پاسداری کے لئے وہ لازوال جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا پرچم تھام کر سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے جام شہادت نوش کر رہے اور پاکستان کے پرچموں میں سپرد خاک کئے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر سے اٹھنے والا ہر جنازہ پاکستان کے حق میں ریفرنڈم اور بھارت کے اٹوٹ انگ کے دعوے پر زناٹے دار تھپڑ ہے۔ حال ہی میں ایک بھارتی صحافی نریندر مودی کے نام اپنے کھلے خط میں اس حقیقت کااعتراف کر چکا ہے کہ ''مقبوضہ جموں کشمیر کی زمین ہمارے پاس لیکن عوام پاکستان کے ساتھ ہیں۔ چھ سال کے بچے سے لے کر80 سال کے بزرگ تک سب ہمارے خلاف ہیں۔ وادی کے ہر پول اور ہر درخت پر سبزہلالی پرچم لہرا رہا ہے ۔کشمیری عوام ہم سے کھلم کھلا نفرت و بغاوت اور پاکستان سے محبت کا اظہارکر رہے ہیں‘‘۔
یہ گھر کے بھیدی کی گواہی ہے اور برہمن سے زیادہ اس حقیقت کوکون سمجھتا ہے کہ گھرکا بھیدی ہمیشہ لنکا ڈھایا کرتا ہے۔
بھارت توسیع پسندانہ اور جاحانہ عزائم کا حامل ملک ہے ۔ اسی جارحانہ مہم جوئی کے زیر اثر حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور مناوادر کو ہڑپ کیا، گوا اور سکم پر قبضہ کیا اور مقبوضہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط جمایا، لیکن مقبوضہ جموں کشمیر بھارتی حکمرانوں کے گلے کی وہ ہڈی بن چکا ہے جسے اگلنا اور نگلنا ممکن نہیں رہا۔ بھارتی حکمرانوں،دانشوروں اور جرنیلوں کو سوچنا ہوگا کہ 69 سال کا عرصہ گزرنے اور آٹھ لاکھ سے زائد فوج تعینات کرنے کے باوجود بھی وہ کشمیر کی آزادی کی تحریک پر قابو نہیں پاسکے ،کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت کو کچل نہیں سکے اور ان کے دلوں سے پاکستان کی محبت نہیں نکال سکے بلکہ یہ تحریک وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط اور تیز تر ہو رہی ہے۔ اب تو بھارت کے اندر سے بھی اس تحریک کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ دہلی میں مودی کے خلاف نعرے لگ رہے اور پتلے نذر آتش ہو رہے ہیں۔ مغرب کے نشریاتی ادارے بھی کہہ رہے ہیں کہ اب بھارت کے لئے فوجی طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانا ممکن نہیں رہا۔ عالمی انسانی حقوق کمیشن، اقوام متحدہ سے بھارت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں بھارتی حکمرانوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کا حل جارحیت نہیں بلکہ صرف اور صرف حق خودارادیت ہے، جس کا وعدہ جواہرلال نہرو نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرکیا تھا اور سلامتی کونسل نے اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو باقاعدہ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا۔
جواہر لال نہرو ایک طرف خودکو روشن خیال اور سیکولراز م کا علمبردار کہتے تھے مگر دوسری جانب اصول جہانبانی اور طرز حکمرانی سیکھنے اورسمجھنے کے لئے چندرگپت موریہ کے مشیر چانکیہ کی کتاب'' ارتھ شاستر‘‘ سے رہنمائی لیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب مجاہدین کشمیر نے ریاست کا بڑا علاقہ آزاد کروا لیا تو نہرو چانکیائی حربے سے کام لیتے ہوئے بھا گم بھاگ سلامتی کونسل پہنچے اور جنگ بندی کی دہائی دینے لگے۔ پاکستان کا اس وقت جنگ بندی کا فیصلہ قبول کرلینا سنگین غلطی تھی؛ تاہم نہرو کا سلامتی کونسل جانا، جنگ بندی کی دہائی دینا اور استصواب رائے کا وعدہ کرنا ہمیشہ کے لئے دلیل بن گیا کہ مقبوضہ جموں کشمیر متنازع خطہ ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ وہ مسئلہ کشمیر کوحل کروانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا اور تمام وسائل بروئے کار لاتا اس لئے کہ کشمیر محض جغرافیہ اور زمین کا جھگڑا نہیں بلکہ یہ پاکستان کی شہ رگ اور زندگی وموت کا مسئلہ ہے۔ یہ ان لاکھوں کشمیری مسلمانوں کامسئلہ ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے لئے اس امید پر اپنا سب کچھ قربان کردیا کہ پاکستان کے مسلمان بھی ان کی غلامی کی زنجیریں توڑنے اور انہیں برہمن کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیں گے۔ لیکن سچی بات ہے کہ مسئلہ کشمیر کوحل کروانے میں ہمارے تمام حکمرانوں نے تساہل اور چشم پوشی سے کام لیا۔
آج 27 اکتوبر ہے، مقبوضہ جموں کشمیر، آزادکشمیر اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں بھارتی جارحیت کے خلاف مظاہرے کئے جا رہے ہیں، کشمیر بنے گا پاکستان کے ولولہ انگیز نعرے لگ رہے ہیں، ان حالات میں ہمیں سمجھنا ہوگا کہ 27اکتوبر 1947ء کی بھارتی جارحیت در حقیقت ریاست جموں کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست پا کستان پر تھی۔ یہ پاکستان کو تنہا اور ختم کرنے کی اوّلین کوشش تھی۔ اگر چہ جواہرلال نہرو رواداری کے علمبردار بھی تھے اس کے باوجود ان کی پاکستان اورمسلمان دشمنی کی یہ حالت تھی تونریندر مودی جو آرایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں ان کی پاکستان دشمنی کااندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ نریندر مودی پاکستان کو تنہا کر دینے کی دھمکیاں دے چکے ہیں، لیکن ان کا دعویٰ خواب وخیال ہوچکا ہے۔ سرجیکل سٹرائیک کے جعلی ڈرامے کی وجہ سے مودی کو رسوائی کاسامنا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت کو بریکس سربراہی اجلاس میں بھی ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا جبکہ او آئی سی کے 56 اسلامی ملک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات مضبوط تر ہو رہے ہیں اور روس کے ساتھ فوجی مشقیں غیر معمولی پیشرفت ہے۔ حیرت ہے کہ کبوتروں سے ڈرنے والی مودی سرکار پاکستان کوجنگ کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ جارحیت کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن بھارت 27 اکتوبر1947ء سے متعدد بار پاکستان پرحملے کر چکا ہے۔ لازم ہے کہ ہم اپنے اند راتحاد و اتفاق پیدا کریں جس سے ہم ملک کو مستحکم اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ یاد رکھیں! مضبوط و مستحکم پاکستان ہی ہمارے مسائل کا حل اور مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کا ضامن ہے۔