یاد رہے کہ متذبذب لوگوں کے لیے کبھی کوئی منزل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک دائمی ،بے ثمر اور بے نتیجہ سفر! بات صرف اتنی ہے کہ دہشت گردی سے متعلق بنیادی حقائق سے سیاسی قیادت کو آگاہ کر دیا جائے ۔ آخر اس میں دشواری کیا ہے اور رکاوٹ کہاں ؟ ایک لایعنی بحث ہے ، قومی افق پر جس سے گرد و غبار پھیل رہا ہے ۔ اصل مسئلے کی بجائے ساری بحث اب طریقِ کار پہ آن ٹھہری ہے۔ ایسے رہنمائوں پر افسوس! مسلسل اور متواتر عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ کل جماعتی کانفرنس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس کی بجائے وزیر اعظم نواز شریف ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اورخود انہیں مل بیٹھنا چاہیے۔ ان کی بات اپنی جگہ اہم ہے اور خوب اچھی طرح سے سمجھ لی گئی ہے ۔ اب وہ غیرضروری طور پر اس کااعادہ کیوں کر تے چلے جا رہے ہیں، تقریباً ہر روز۔ کل جماعتی کانفرنس اب بلانا ہی پڑے گی ۔ اس لیے کہ حکومت اس کا اعلان کر چکی اور سیاسی رہنما ذہنی طورپر اس کے لیے تیار ہیں ۔ اس سے قبل جنرل کیانی یا ان کے قابلِ اعتماد نائبین میں سے کوئی ایک ، مثال کے طور پر جنرل ظہیر الاسلام سیاسی لیڈروں کو موضوع پر بریف کر سکتے ہیں۔ یہ اٹھارہ کروڑ انسانوں کے مستقبل کا سوال ہے ۔ کیا محض اندازِ کار پر غیر ضروری مباحثہ ایک بچگانہ بات نہیں ؟ بلوچستان اور قبائلی علاقوں کی بدامنی میں بھارت، افغانستان اور امریکہ کے ملوّث ہونے میں ہرگز کوئی شبہ نہ تھا۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی ڈی این ایس کے کچھ اہلکار بلوچستان میں بم نصب کرتے ہوئے گرفتار کر لیے گئے اور اس وقت وہ فوج کی تحویل میں ہیں ۔ اقتدار باقی رکھنے اور اسے طول دینے کے لیے حامد کرزئی کی بے چینی آخری حدود کو جا پہنچی ہے ۔ ان کی آرزو یہ ہے کہ اپریل 2014ء میں ہونے والا صدارتی الیکشن ملتوی کر دیا جائے اور اگر ممکن ہو تو صدارتی نظام کی بجائے، حکومتی ڈھانچے کو پارلیمانی سانچے میں ڈھال دیا جائے ۔ افغان آئین کے مطابق تیسری بار وہ صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے ۔ وہ یہ امید رکھتے ہیں کہ اگر پارلیمانی نظام برپا ہو سکے تو جوڑ توڑ سے وہ اپنا اقتدار بچا سکیں گے وگرنہ ایک آزاد الیکشن میں طالبان اور ان کے حامی کابل پر تسلّط قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حامد کر زئی کے لیے افغان سرزمین پر موجودگی برقرار رکھنا بھی مشکل ہوگا۔ امریکی انتظامیہ افغانستان سے واپسی کے لیے بے تاب ہے کہ رائے عامہ کا دبائو غیرمعمولی ہے ۔ کرزئی اس نکتے کو خوب سمجھتے ہیں ؛لہٰذا وہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اندرونِ ملک وہ ایسی مقبولیت کے حامل نہیں کہ اپنے منصوبے کو کامیابی سے بروئے کا رلا سکیں؛ لہٰذا نہوںنے بھارتیوں سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے خلاف ان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا ایک پسِ منظر یہ بھی ہے ۔ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان اور امریکہ کو بلیک میل کر سکیں گے ؟ غالباً ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی راہ باقی نہیں ۔ اقتدار کے آرزومندوں میں دیوانگی پر کبھی تعجب نہ ہونا چاہیے۔ امریکیوں کو ادراک ہے کہ پاکستان کے بغیر طالبان کو مذاکرات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ۔ مستقبل کے افغانستان میں ، جو وسطی ایشیا میں داخلے کا واحد آسان راستہ ہے ،اگر انہیں اپنے مفادات محفو ظ رکھنا ہیں تو ایک خاص حد تک پاکستان کو مطمئن رکھنے کے سو اکوئی چارہ نہیں ۔ انہوں نے جان لیا ہے کہ کابل میں بھارت امریکیوں کا جانشین نہیں ہو سکتا، جس کا کبھی وہ خواب دیکھتے رہے ۔ اس خطہ ء ارض کے بارے میں امریکہ کی مجموعی حکمتِ عملی میں بھارت کو بہرحال پاکستان پر فوقیت حاصل ہے؛ لہٰذا وہ بھار ت کو بلوچستان اور تحریکِ طالبان کی مدد کرنے سے روکتے نہیں۔ پاکستانی قوم میں چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی فراواں آرزو بھی انہیں پریشان کرتی ہے۔ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور موٹر وے بچھا کر تجارتی راہداری قائم کرنے کا منصوبہ چین نے کئی سال پہلے پیش کیا تھا، جس سے چین ، بھارت ، پاکستان اور وسطی ایشیا کی تین ارب آبادی کو فائدہ پہنچ سکتاہے ۔ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو بالآخر چین کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات بہت گہرے ہو جائیں گے ۔ اس کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے گی اور پاکستان ان کا اس قدر محتاج بہرحال نہ رہے گا۔ ان کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اندازہ ہے کہ صرف پاکستان میں اس سے لاکھوں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ میاں محمد نواز شریف کی نون لیگ کے بڑھتے ہوئے مراسم کوملحوظ رکھتے ہوئے ، صدر زرداری نے آخری دنوں میں پاک ایران گیس پائپ لائن اورگوادر کی بندرگارہ چین کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ گویا پاکستان کی تقدیر میں لکھا تھا ۔ تاریخ کاپہیہ اب الٹا نہیں گھمایا جا سکتا۔ افغانستان کے راستے وسطِ ایشیا کے ساتھ سڑک سے رابطہ قائم ہونے کا مطلب ہے ، معاشی امکانات کا ایک نیا جہان ۔ بھارت اس پر آزردہ ہے ۔ گوادر کے مقابل ایرانی بندرگاہ چاہِ بہار سے ہرات تک انہوںنے ایک شاہراہ تعمیر کر ڈالی تھی۔ اربوں ڈالر اس پر خرچ کر دیے لیکن گوادر کاشغر راہداری کی تعمیرسے اس سڑک کی کوئی اہمیت نہ رہے گی ۔ کابل اور پشاور کے رستے وسطی ایشیا سے گوادر پہنچنے والوں کو سولہ گھنٹے کم سفر کرنا پڑے گا۔ بھارتیوں نے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں شورش پسندوں کی امداد بڑھا دی ہے اور ٹھیک اس وقت ، جب وزیر اعظم نواز شریف دہلی سے مراسم بہتر بنانے کے لیے بے تاب ہوئے جاتے ہیں ۔ دوسری طرف ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جنرل کیانی سے وزیر اعظم کی تین ملاقاتوں میں سول اور فوجی قیادت کے درمیان فاصلہ کم ہوا ہے ۔ نہایت خوشگوار ماحول میں یہ ملاقاتیں برپا ہوئیں اور جنرل نے اپنا موقف ٹھوس حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا۔ وزیراعظم پہ یہ بات اب آشکار ہے کہ دوسرے شورش پسندوں کے علاوہ فرقہ پرست فسادیوںکو بھی بھارت سے مدد ملتی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں ، عسکری قیادت کو بھارت سے مذاکرات پر اعتراض ہے اور نہ طالبان سے ۔ طالبان سے مستقبل قریب میں بات چیت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر ایسا ممکن ہواور مثبت نتیجہ حاصل کیا جا سکے تو او رکیا چاہیے۔ اگرچہ اس کے باوجود فسادیوں کے مختلف گروہوں سے طاقت کے ساتھ ہی نمٹنا پڑے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کی قوت بہت کم رہ گئی ہے ۔ پولیس کی بہتر تربیت ، ہر صوبے میں سپیشل برانچ کو پیشہ ورانہ خطوط پر استوار کرنے کے علاوہ آئی بی کا ڈھانچہ بہتر بنا کر یہ جنگ زیادہ سے زیادہ دو سال میں جیتی جا سکتی ہے ۔ خوش قسمتی سے کراچی کا مسئلہ ایک اور طرح سے حل ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت سوچ سمجھ کر حکمتِ عملی تشکیل دے۔ فوج اور اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بروقت آغازِ کار ہو سکا تو ملک اس عفریت سے نجات پا لے گا، جس کے ہاتھوں اس کے پچاس ہزار معصوم شہریوں کا خون بہا اور معیشت نڈھال ہوئی جاتی ہے۔ یہ مگر یاد رہے کہ متذبذب لوگوں کے لیے کبھی کوئی منزل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک دائمی ،بے ثمر اور بے نتیجہ سفر!