"HRC" (space) message & send to 7575

دوا دارو

ہمارے وزیر اعظم کی طرح جو فرماتے ہیں کہ دل دکھتا ہے تو اللہ سے دعا کرتا ہوں۔ صرف دعا نہیں‘ دوا بھی جناب والا! 
انگلی پر زخم کا نشان باقی ہے مگر ایک دن وہ بھی تمام ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں کا اندازہ غلط نکلا۔ ان کا کہنا تھا کہ زخم بھرنے میں بہت دن لگیں گے اور ناخن باقی نہ رہے گا۔ 
تین ماہ ہوتے ہیں‘ جب ایک تقریب کے لیے رحیم یار خان جانا ہوا۔ شلوار قمیض خریدنے کے لیے ایک دکان کا رُخ کیا۔ رحیم یار خان ایک دلچسپ شہر ہے‘ جسے اچھی قیادت میسر نہ آ سکی۔ اس شہر کے کیا کہنے‘ جس میں سے تین نہریں گزرتی ہوں۔ لاہور کی نہر نے آلودگی سے بھرے اس دیار میں اپنے درختوں اور پھولوں سے چراغاں سا کر رکھا ہے۔ رحیم یار خان میں یہ کیوں ممکن نہیں؟ اگر کنارے پختہ کر دیے جائیں۔ اطراف میں ڈھنگ کی عمارتیں اور چمن استوار ہوں؟ شہر کا درمیانہ طبقہ طاقتور ہے اور بازار خوب آباد۔ جنوب مغرب میں پھیلا ہوا صحرا‘ سرما کے دنوں میں تمازت جنم دیتا ہے اور گرما کی شبوں میں ٹھنڈی ہوا۔ 
دائیں ہاتھ سے دکان کا دروازہ کھولا تو دھڑ سے وہ میرے بائیں ہاتھ پہ آ گرا۔ اللہ کا شکر ہے کہ صرف ایک انگلی ہی زد میں آئی‘ درمیانی انگلی۔ درد کی ایک بے پناہ لہر اٹھی اور خون کا فوارہ سا پھوٹ پڑا۔ خریداری بھول کر‘ شیخ زید ہسپتال میں ایمرجنسی کا رُخ کیا۔ مہربان خاتون ڈاکٹر نے‘ سینیٹر طارق چودھری نے‘ جس سے رشتہ داری دریافت کر لی‘ تیزی سے مرہم پٹی کی۔ تاکید کی کہ پٹی ہر روز بدلنی چاہیے۔ بتایا کہ ناخن باقی نہ رہ سکے گا۔ 
تقریب تمام ہوئی اور شام ڈھلی تو ڈاکٹر رفیق صاحب کے گھر کا رخ کیا‘ جہاں ان کا مطب بھی قائم ہے اور بھیڑ سی لگی رہتی ہے۔ انہوں نے دوا تجویز کی اور دو درجن پڑیاں بنا دیں۔ کہا کہ اگر تین دن تک باقاعدگی سے دوا کھائی گئی تو زخم مندمل ہو جائے گا۔ ایک دن تو دوا کھائی‘ مسافرت میں پھر بھول ہی گیا۔ درد کا احساس باقی نہ رہا تھا۔ کوئی دن میں بالکل بھلا چنگا ہو گیا۔ ناخن سلامت ہے اور ظاہر ہے کہ آگے کھسک رہا ہے‘ اس کے ساتھ ہی زخم کا نشان بھی۔ 
یہ ہومیو پیتھی کا پہلا معجزہ نہیں‘ جس سے واسطہ پڑا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہ ان کی نکتہ رسی میں کسی کو کلام نہ تھا‘ یہ کہا تھا: ہومیوپیتھی طب کا تصوف ہے۔ بالکل بجا کہا‘ کبھی ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ 
نو برس ہوتے ہیں‘ حج سے واپسی پر کمر میں تکلیف کا احساس ہوا۔ رفتہ رفتہ بڑھتی گئی۔ ایک حادثے کی وجہ سے لاہور کا سفر درپیش ہوا۔ بیس پچیس کلومیٹر طے کیے ہوں گے کہ عمران خان کا فون آیا۔ کل اس سے کہا تھا کہ آپریشن کے لیے ڈاکٹر عامر عزیز سے رابطہ کرے۔ اس کی شدید مصروفیت آڑے آئی اور دوبارہ بات نہ ہو سکی۔ ایک ذرا سی یاداللہ میری بھی تھی؛ چنانچہ چل پڑا۔ شکایتاً کہا: سفارش کے لیے تاکید کی تھی مگر تم بھول گئے۔ اب اس حال میں لاہور جاتا ہوں کہ کمر کی تکلیف کے سبب سیدھا کھڑا ہونا بھی مشکل ہے۔ ''فوراً واپس آئو‘‘ اس نے کہا: میں ایک کھلاڑی ہوں اور جانتا ہوں کہ کمر میں درد کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ واپس آ کر ڈاکٹروں سے رابطہ 
کیا تو انہوں نے بھی خوف زدہ کر دیا۔ ممکن ہے آپریشن کرنا پڑے اور کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ 
ایسے میں ہمیشہ ڈاکٹر رفیق یاد آتے ہیں۔ انہوں نے بات سنی تو ہمیشہ کے ٹھنڈے لہجے میں فقط یہ کہا: صرف یہ بتائو کہ کون سے مہرے میں درد ہے۔ پھر دوا تجویز کی اور وثوق سے کہا کہ چند دن میں خرابی دور ہو جائے گی۔ تیسرا یا چوتھا دن ہو گا کہ درد جاتا رہا۔ صرف اتنا ہوا کہ اعصاب میں کچھ سختی باقی رہی۔ نماز کرسی پر بیٹھ کر زیادہ آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے۔ 
انہی دنوں جدہ میں میاں شہباز شریف سے ملاقات ہوئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب کا ٹیلی فون نمبر بتایا۔ جیسا کہ بعد میں پوچھنے پر پتہ چلا‘ انہوں نے کوئی پروا نہ کی اور معاملہ رفتہ رفتہ بگڑتا گیا۔ 
جدہ ہی میں عاشق صاحب کو اس حال میں دیکھا تھا کہ زمین پر لیٹے تھے۔ جہاز میں سوار ہو کر وہ پاکستان پہنچے اور ڈاکٹر رفیق سے ملے۔ چند ہفتوں میں پوری طرح صحت مند ہو گئے۔ 
رحیم یار خان میں ہومیو پیتھی کا پودا‘ میرے مرحوم ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم نے لگایا۔ ڈاکٹر رفیق انہی کے شاگرد ہیں اور درجنوں دوسرے‘ جن میں سے بعض اپنے ساتھ استاد کا نام بھی لکھتے ہیں ''مسلم‘‘... ایک نے برسوں پہلے ان کے شوخ چشم صاحبزادے ڈاکٹر طاہر مسلم سے کہا تھا: کوئی دن جاتا ہے کہ رحیم یار خان میں کوئی غیر مسلم ڈاکٹر باقی نہ رہے گا۔ لگ بھگ 70 سال کی عمر میں میری ممانی کا انتقال ہوا اور میں تعزیت کے لیے گیا تو انہوں نے ایک حیران کن انکشاف کیا۔ مرحومہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ تعجب ہوا کہ پہلے کبھی انہوں نے ذکر ہی نہ کیا تھا۔ بولے: مریضہ تک کو بتایا نہ تھا کہ صدمے اور خوف کا شکار نہ ہو۔ پیہم پان کھانے کی وجہ سے مرض نے جنم لیا۔ پرہیز کچھ زیادہ نہ کرتی تھیں۔ اس کے باوجود دس برس زندہ رہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ درد سے محفوظ رہیں۔ 
سائنس دان ہومیوپیتھی طریق علاج کے قائل نہیں؛ چنانچہ دنیا بھر کی حکومتیں بھی اسے تسلیم نہیں کرتیں۔ اپنے مشاہدے کا مگر کیا کیجیے۔ تیس برس ہوتے ہیں‘جب معدے کے ایک اذیت ناک مرض نے آ لیا۔ شدید درد اٹھتا اور کچھ بھی کھانا ممکن نہ رہتا۔ ایک انگریزی دوا سے عارضی طور پر افاقہ ہوتا مگر یہ خطرناک بہت تھی۔ اس سے کینسر کا خطرہ تھا۔ ڈاکٹر رفیق صاحب نے دیکھا تو منع کیا۔ گزارش کی کیا کروں۔ کوئی دوسرا فوری علاج نہیں اور درد ناقابلِ برداشت۔ اب تک اس دوا کا نام یاد ہے‘ جو انہوں نے تجویز کی۔ تین عشرے بیت چکے‘ پھر کبھی یہ عارضہ لاحق نہ ہوا۔ 
دو صدیاں ہوتی ہیں‘ جرمنی کے ڈاکٹر ہانمن نے ہومیوپیتھی کی بنا رکھی تھی۔ دوا سے نہیں بلکہ جسم کے مدافعتی نظام کو متحرک کر کے۔ اس میں شفا کی راہ کشادہ ہوتی ہے۔ دوا سے زیادہ اس طریق میں معالج کی اہمیت ہے۔ درجنوں واقعات‘ خود میرے ساتھ بیتے‘ سینکڑوں کا میں عینی شاہد ہوں۔ عزیزم بلال الرشیدکو بچپن میں ہڈیوں کی ٹی بی نے آ لیا۔ خاندان رحیم یار خان میں پڑا ہوا اور میں اسلام آباد میں۔ سخت پریشانی لاحق تھی۔ ڈاکٹر نذیر مسلم صاحب کی چند پُڑیوں نے تین چار ہفتوں میں اذیت سے نجات دی۔ اسلام آباد کی نواحی آبادی ماڈل ٹائون میں‘ ڈاکٹر نسیم ہوا کرتی تھیں۔ مزاج قدرے تلخ مگر معالج ایسی کہ سبحان اللہ۔ میرے دانت میں درد ہوا تو ہفتوں باقی رہا۔ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوتی تھی۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ڈانٹ کر کہا: آپ دانتوں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے‘ پھر دوا بتائی۔ اس کے بعد آج تک مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ 
ہومیوپیتھی ایک معجزانہ طریق علاج ہے۔ ایک میٹھی دوا ایسی ہے کہ مہینہ بھرکھا لی جائے تو مچھر کبھی کاٹتا ہی نہیں۔ اس کے استعمال سے ملک میں ہمیشہ کے لیے ڈینگی اور ملیریا کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف اگر پسند کریں تو لاہور کے ایک محلے میں اس کا تجربہ کر لیں۔ جنرل راحیل شریف اگر چاہیں تو ایک رجمنٹ میں۔ 
قدرت کے ان گنت خزانے ہیں‘ جنہیں ابھی دریافت ہونا ہے۔ علوم ہیں جو آئندہ چند عشروں میں دنیا کو بدل ڈالیں گے۔ خوش بخت ہیں وہ لوگ جو غوروفکر سے کام لیتے اور زمانے کے ساتھ‘ قدم سے قدم ملا کے چلتے ہیں۔ پھر وہ ہیں جو ماضی میں زندہ رہتے اور رنج پاتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی طرح جو فرماتے ہیں کہ دل دکھتا ہے تو اللہ سے دعا کرتا ہوں۔ صرف دعا نہیں‘ دوا بھی جناب والا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں