"HRC" (space) message & send to 7575

ہم کو ٹھہرنا کب ہے

بارہ برس ہوتے ہیں ، لاہور کے دانا سے عارف نے یہ کہا تھا:آپ کو شاعری کرنی تھی ، افسری نہیں ۔ اس آدمی کا نام شعیب بن عزیز ہے اور اس کا ایک شعر یہ ہے ؎ 
خوب ہو گی یہ سرا دہر کی لیکن اس کا
ہم سے کیا پوچھتے ہو‘ ہم کو ٹھہرنا کب ہے
اب میں کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے چھوڑتا نہیں۔ آزادی کی میں التجا کرتا ہوں مگر آزادی اب کہاں ؟ 
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے 
اس صحرائی شہر رحیم یار خان میں یہ 1969ء کا موسمِ خزاں تھا، جب میاں محمد حفیظ نے مجھے یاد کیا۔ہزاروں دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہیں ۔ اللہ انہیں برکت دے،ان کے سگے بھائی میاں محمد ماجد سمیت ۔اس عمر میں بھی جو پانچ بار پیدل مسجد جاتے ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں ، یہ جملہ انہیں خوش نہ آئے گا۔ممکن ہے ، ایک نوجوان کی طرح ہنستے ہوئے وہ یہ کہیں :او ہرون ، تجھے میں بڈھا لگتا ہوں ؟ 
احترام سے پیدا ہونے والا اندیشہ رگ رگ سے پھوٹتا ہے۔ عالمگیر ہوٹل کے کشادہ عقبی کمرے میں میاں صاحب تشریف فرما تھے۔حلیم الطبع ،طویل قامت،گندم گوں، عہدِ قدیم کی نجابت کا ایک نادر نمونہ۔ لائبریری ، ان کی دوسری لائبریری۔ بڑی والی گھر میں تھی ۔ 
اس میٹھے لہجے میں ، مدّتوں بعد جو فقط عارف میں دیکھا ، انہوں نے کہا : لاہور جانے کی تیاری کرو، ڈاکٹر صاحب سے میں نے بات کر لی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب سے اُن کی مراد میرے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم تھے ۔ اختلاف ہو تو فیصلہ وہ صادر کرتے ۔ ابّا جی مرحوم کم از کم پچیس سال ان سے بڑے تھے ۔ ایسے یکسو کہ طے کر لیں تو پہاڑ بھی راہ روک نہ سکتا۔ حیرت ہوتی کہ ڈاکٹر صاحب کی فرمائش تک مسترد نہ کرتے۔ ایک برس ہوتاہے کہ چلے گئے مگر کہاں چلے گئے ۔
ابھی ابھی انہی کنجوں میں اس کے سائے تھے 
ابھی ابھی تو وہ تھا ان برآمدوں میں یہاں 
دل بھر آیا۔ باپ کی خواہش تھی کہ بیٹا بڑا آدمی بنے۔ اپنے خالہ زاد میاں محمد خالد حسین کی طرح لندن سے سی اے کی ڈگری پائے ۔ کم از کم ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہی ۔ فرزند ایسا کہ چٹّا جواب دے دیا: اردو پڑھوں گا، استاد بنوں گا یا پھر اخبار نویس۔ وہ میرا منہ دیکھتے رہے ۔ رحیم یار خاں کے سائیکل سوار نامہ نگار انہوں نے دیکھے تھے ۔ اخبار پڑھنے میں انہیں دقّت ہوتی ۔ ساری زندگی ایک کتاب کے ساتھ بسر کر دی ۔ اللہ کی آخری کتاب !
دل بھر آیا: میاں صاحب آپ جانتے ہیں ، روپے پیسے کا ہرگز کوئی شوق نہیں ، بس پڑھنے لکھنے کا۔ حیرت سے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے: روپیہ پیسہ کیوں نہیں ؟ جائو ، اللہ تمہیں عزت دے گا اور روپیہ بھی بہت۔ میز پر پڑی چائے کی پیالی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔
بڑے بھائی ناراض تھے بلکہ مشتعل ۔ ڈاکٹر محمد نذیر مسلم کے سامنے مگر دم مارنے کی مجال کسے تھی ۔بلدیہ کا دھانسو چیئرمین بیچ سڑک پٹا اور اپنے حواریوں سے کہا :خبردار اِن کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو ۔ میاں محمد حفیظ سے اختلاف کی جسارت کون کرتا۔وہاں تو پتھر پگھل جایا کرتے۔ ایسا آدمی پھر نہ دیکھا۔ 
ہمیں خبر ہے بڑے علم و آبرو والے 
پہ یہ مقام کسی اور کو نصیب کہاں 
پچاس روپے کا ایک نوٹ پیر جی نے مجھے عطا کیا، بڑے بھائی نے ۔ پندرہ روپے میں تھرڈ کلاس کا ٹکٹ خرید لیا جائے گا کہ انٹر ویو میں ناکام رہا تو واپسی کا کرایہ باقی ہو۔قربان انجم بولے : پاگل ہوئے ہو ،تم تھرڈ کلاس میں سفر کرو گے ؟ بائیس روپے پچاس پیسے ۔ دوپہر کا کھانا ریل گاڑی کی ڈائننگ کوچ میں کھایا اور کشتی جلا دی ۔ 
لاہور کے ریلوے سٹیشن سے اخبار کے دفتر کا کرایہ ایک روپے تھا۔ ایک روپیہ فی سواری مگر اس ناقابلِ علاج تنہائی پسند کو یہ گوارا نہ تھا۔ پانچ روپے اٹھ گئے ۔ کشتی کا ملبہ بھی جلادیا۔ 
سرخ و سفید ، جواں سال مدیر نے میری طرف الجھن سے دیکھا اور پاکستان ٹائمز میری طرف بڑھا دیا، ترجمے کے لیے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ ایف اے کا نتیجہ ابھی نہ آیا تھا اور دو برس میں زیادہ سے زیادہ بیس ہفتے کالج میں گزارے ہوں گے ۔ کانپتے ہاتھوں سے کیا گیا ترجمہ انہوں نے پڑھا اور یہ کہا :تنخواہ 150روپے ، رہائشی کمرے کا کرایہ 25روپے ماہوار ۔کل صبح گیارہ بجے دفتر آجانا۔ 
اللہ کو منظور ہوا اور باقی تین کتابیں لکھی جا سکیں تو اس 45برس کی روداد بھی انشاء اللہ رقم کرنے کی کوشش کریں گے ؎ 
ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے 
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
یہ 1995ء کا موسمِ بہار تھا ، جب عارف سے ملاقات ہوئی۔ دو برس ہوتے ہیں ، ایک ممتاز سیاستدان جو وزیراعظم بنتے بنتے رہ گئے ، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ناچیز کو طلب کر رکھا تھا۔ فرمایا: ان کی بات سن لیجیے۔ عرض کیا: گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا ؟ آپ اس دروازے پر آپہنچے ہیں ، جہاں سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا ؛لہٰذا مروّت برتنے کی کوشش کریں گے ۔ سبب یہ ہے کہ ماں باپ سے بڑھ کر ان کے احسانات ہیں ۔
برسوں سے آرزو تھی کہ وہ اپنے گھر سے نکلیں اور یہ ناچیز اپنے غریب خانے سے ۔ بیچ میںکوئی ٹھکانہ ہو ۔ دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو ۔ تمام نہیں تو کچھ شامیں وہاں بسر ہوں ۔ اب بالآخر امید بندھی ہے ۔ کل شام ان سے بات ہوئی ۔ گل پیڑااس دیار کا نام ہے ،مٹھی بھر پھول۔ عرض کیا : کیا اس میں کوئی معنویت ہے؟ خوش دلی سے ہنسے :جی ہاں ! گجر خان ، گل پیڑا ،گیلان ۔ ایک ''گ‘‘ اس کے سوا بھی ہے ۔ عرض کیا : کیا آپ ان محترمہ کا پورا نام بتانا پسند کریں گے ۔ آواز ٹوٹنے لگی۔ سوچا: روبرو ہی سہی۔ گزارش کی۔ جواب ملا : اسلام آباد جاتا ہوں ۔ آٹھ بجے فون کیا۔ حمید الدین نے، جو صرف اس لیے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں کہ دوسری شادی فرما سکیں ، ہمیشہ کی کراری آواز میں کہا ''سرجی ابھی تک وہیں ہیں‘‘۔ 
اتنے میں فون کی سکرین روشن ہوئی۔ ''آپ کہاں ہیں ہارون صاحب‘‘ فریاد کرتی ہوئی ایک آواز نے کہا ''آپ کو آج میرے ساتھ پروگرام میں شریک ہونا تھا‘‘۔ ''آج؟ آپ نے تو کسی اور دن کو کہا تھا‘‘۔ ''جی نہیں ، آج Wednesdayکو‘‘۔ اب میری بلا جانے ، Wednesdayکس چڑیا کانام ہے ۔ بدھ کہا ہوتا۔ میں چک نمبر42جنوبی سرگودہا کا رہنے ولا ہوں۔ Wednesday, my foot!
ابھی ابھی صمد مرسلین کو فون کیا تو عطا ء اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز سنائی دی ۔ 
ککڑا دھمّی دیا کیں ویلے دتّی ہئی بانگ
ماہیا ٹور بیٹھی میکوں پچھوں لگّا ارمان 
مرغِ سحر ،بے وقت تو نے اذان دی ۔ شب اسے رخصت کیا۔ اب حسرت میں درماندہ ہوں ۔ 
دل ایک بار پھر بھر آیا ہے ۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی سے وعدہ تھا کہ کسی دن ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ ایک شام ان کے ساتھ بتائوں گا۔ 
زندگی بیت گئی اور حسرتیں باقی رہ گئیں ۔ بارہ برس ہوتے ہیں ، لاہور کے دانا سے عارف نے یہ کہا تھا:آپ کو شاعری کرنی تھی ، افسری نہیں ۔ اس آدمی کا نام شعیب بن عزیز ہے اور اس کا ایک شعر یہ ہے ۔ 
خوب ہو گی یہ سرا دہر کی لیکن اس کا
ہم سے کیا پوچھتے ہو‘ ہم کو ٹھہرنا کب ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں