ہر عافیت کوش خود فریب ہوتاہے اور اس سے بڑا دھوکہ کوئی نہیں اپنے آپ کو آدمی جو خود دیتاہے ۔
بلاول بھٹو کی چیختی چنگھاڑتی تقریر کا ہدف کیا ہے ؟ بیک وقت الطاف حسین ، میاں محمد نواز شریف اور عمران خان پر انہوں نے کیوں یلغار کی؟ زرداری خاندان کو بقا کا سوال درپیش ہے۔ نیب میں ان کے خلاف مقدمات کے انبار پڑے ہیں۔ وزیرِاعظم بحران سے نجات پاسکے اور پیپلز پارٹی سے رنج کا شکار ہوئے تو ممکن ہے کہ کل کلاں سندھ کی حکومت بھی خطرے میں پڑ جائے، جس پر دسترخوان کی رونق کا انحصار ہے ۔ پنجاب میں عمران خان ایک طوفان کی طرح اٹھے ہیں۔ پیپلز پارٹی کووہ سموچا نگل جانا چاہتے ہیں ۔ پختون خوا میں حال پہلے ہی پتلا تھا۔ دیہی سندھ بچ رہا ہے ۔ شہری سندھ ، پنجاب اور سرحد میں عالم یہی رہا تو کون جانے کل دیہی سندھ میں بھی زرداری خاندان کاچراغ گل ہو جائے۔
فوری مسئلہ 18اکتوبر کا جلسہ ہے ۔پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔ پنجاب ہی نہیں ، ہزارہ ڈویژن میں بھی پیپلز پارٹی کے ناراض کارکنوں سے رابطہ کیا گیا۔ زرداری صاحب بے تاب ہو کر کراچی سے لاہور پہنچے ۔ اس محل میں مقیم ہو کر، جس کی تعمیر بجائے خود ایک سنسنی خیز داستان ہے ، پارٹی کارکنوں کو مدعو کیا ۔ اکثر نے ٹکا سا جواب دے دیا۔
زرداری صاحب مفاہمت کاگیت اونچے سروں میں گاتے رہیں گے۔ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور پارٹی کے کچھ دوسرے لیڈر شریف خاندان پر نکتہ چینی کریں گے۔ بچی کھچی پارٹی کو بچا لینے کا یہی ایک راستہ ہے ۔ کتنے ہی تحریکِ انصاف سے وابستہ ہونے کے لیے پھڑ پھڑا رہے ہیں ۔ داستان بس اتنی سی ہے ، باقی زیبِ داستاں۔
آزادکشمیر میں وزیرِ اعظم کا الیکشن ہونے والا تھا۔ معلوم ہوا کہ دوسروں کے علاوہ چوہدری عبد المجید نامی ایک صاحب بھی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں ۔ تینوں امیدواروں کے ساتھ ملاقات کا ارادہ کیا ۔ چوہدری برادران زرداری حکومت کا حصہ بن چکے تھے ۔ وزیرِ اعظم کے انتخاب میں ان کا بھی ایک کردار تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کشمیری جاٹ کے لیے ہموار تھے۔ چوہدریوں کا وصف یہ ہے کہ غیر ضروری طور پر بات نہیں چھپاتے اور گفتگوعالمِ بالا سے نہیںکرتے ۔جب اندازہ ہو گیا کہ پانی کہاں مرتاہے تو فون کیا اور پہاڑ چہاڑ سے آدمی سے پوچھا: آپ کہاں ہیں ؟بتایا کہ یٰسین ملک سری نگر سے اسلام آباد پہنچے ہیں اور ان کا قصد ہے۔ بولے : وہیں چلا آتا ہوں ۔ ہوٹل کی لابی میں ان کی زیارت ہوئی ۔ چھوٹتے ہی بولے : میں تو بھٹو خاندان کا مجاور ہوں ۔ وزیرِ اعظم بن گیا تو اوّل گڑھی خدا بخش جائوں گا پھر مدینہ منورہ۔ اس ترتیب نے حیرت زدہ ہی نہیں ، خوف زدہ بھی کر دیا۔ یارب اس آدمی کا کیا بنے گا، شہرِ نبی ؐ سے پہلے جس نے گڑھی خدا بخش کا نام لیا۔ جلدی سے پنڈ چھڑا کر چوہدری یٰسین کی طرف روانہ ہوا۔ آنجناب کو وزارتِ عظمیٰ تو مل گئی مگر حجاز کا سفر نصیب نہ ہو سکا۔ اللہ ان پر رحم کرے ، اب تک تیور وہی ہیں ۔
بلاول بھٹو کا حال بھی یہی ہے ۔ اللہ کا ذکر ، نہ اس کے کسی پاکباز بندے کا۔کہا: کسی کو سیاست سیکھنی ہو تو بھٹو سے سیکھے۔ پھر نعرے لگوائے ''زندہ ہے بی بی زندہ ہے‘‘۔ پھر وزیرِاعظم مودی کے مقابل تن کر کھڑے ہو گئے ۔ مرحومہ کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ یاد آیا کہ 1999ء میں جب دس لاکھ بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں پر امڈ آئی تھی تو لندن سے دہلی تشریف لے گئی تھیں ۔ بنیاد پرستوں یعنی کشمیری حریت پسندوں کی مذمت فرمائی تھی ۔ پاکستان اور بھارت کے لیے مشترکہ کرنسی اور مشترکہ صدر کی تجویز پیش کی تھی۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان بار بار دل کے دروازے پر دستک دیتاہے : برائی سے اگر روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی اگر ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے ۔ وہ تمہیں سخت ترین ایذا دیں گے اور اس قت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی ۔ نواز شریف اگر چلے جائیں تو ہمارے نصیب میں کون لکھاہے ؟ عمران خان یا بلاول بھٹو؟
تحریکِ انصاف کی ایک بزرگ خاتون ڈاکٹر کا ذکر کیاتھا جنہوں نے مجھے میر جعفر اور میر صادق قرار دیا تھا۔ ان کی وضاحت موصول ہوئی ہے : میں وہ نہیں ، جس کی ملاقات تم نے کپتان سے کرائی تھی ۔ میں تو ہوٹل میں آپ سے ملنے آئی تھی ۔ سخت الفاظ کے لیے معذرت خواہ ہوں مگر پارٹی کے اندرونی معاملات پر تمہیں اخبار میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ یادوں کے دھندلے طاق سے وہ منظر ابھر کر روشن ہو گیا۔ اپنے شوہر اور کاغذات کے ایک انبار کے ساتھ وہ تشریف لائی تھیں ۔ فریاد کناں کہ دھاندلی کر کے انہیں ہرا دیا گیا۔ پارٹی چیئرمین سے ان کی داد رسی کے لیے بات کی جائے۔
ایک انہی کا کیا ذکر ، کتنے ہی ہارنے والوں نے رابطہ کیا۔ دھاندلی بے حساب ہوئی تھی ۔ اعجاز چوہدری نے پنجاب کی صدارت نوسر بازوں سے مل کر ہتھیائی تھی ۔ پوٹھوہار کے عباسی نے بھی اسی طرح ۔ بعد میں اسی ٹولے پر ٹکٹیں فروخت کرنے کا الزام لگا۔ جس کی تحقیقات کرائی اور دفن کر دی گئی۔ مواخذہ کرتے تو کیونکر؟ جاوید ہاشمی کی جواب طلبی ہوئی تو وہ ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ۔ کپتان کو الٹا اس سے معافی مانگنی پڑی۔ سرائیکی پٹی میں ان دونوں حریفوں ، خوشامد کا دو سو سالہ تجربہ رکھنے والے شاہ محمود اور جوڑ توڑ کے خوگر جاوید ہاشمی نے اس طرح ٹکٹ بانٹے ، اندھا جس طرح ریوڑیاں بانٹتا ہے ۔ این اے 171ایک مثال ہے۔ رانا محبوب اختر قومی اسمبلی کے امیدوار تھے ۔ تحریکِ انصاف سے وابستہ ہوئے تو عمران خان شاد تھے ۔ زمیندار ہیں اور اس کے باوجود خوش کردار۔ سی ایس ایس کیا اور چند برس کی افسری کے بعد الگ ہو ئے تو ایک بین الاقوامی کمپنی میں اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے ۔ انگریزی اور اردو میں رواں ۔ 99فیصد سیاستدانوں سے زیادہ پڑھے لکھے ۔ گاہے اخبار کے لیے لکھتے ہیں تو چونکا دیتے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف، خوش اخلاق، مہمان نواز۔ 2008ء کے الیکشن میں صرف تین سو ووٹوں سے ہارے تھے اور وہ بھی اپنی حلیف حنا ربانی کھر کی مبینہ فریب دہی کے باعث۔ شاہ محمود کی عنایت اورجاویدہاشمی کی تائید سے ان کی بجائے بوسکی کے ایک کرتے کو ٹکٹ دے دیاگیا ۔ جیتنے والے کے مقابل جو صرف 20فیصد ووٹ حاصل کر سکا۔ شاہ محمود اس آدمی کے سرپرست کیوں بنے تھے ؟ اس لیے کہ پارٹی میں وہ اپنادھڑا بنا رہے تھے ۔
خان کو یہ بات بتا دی گئی تھی ۔ وہ بھڑکے اور بولے : کس طرح وہ گروپ بنا سکتا ہے ۔ اسے اپنی حدود میں رکھا جائے گا۔ اب وہ پوری پارٹی کو اغوا کرنے کی فکر میں ہے ۔ جس طرح اس کے اجداد نے شاہ رکنِ عالم کا مزار ہتھیا لیا تھا۔ جس طرح اس کے جدّ امجد نے کہ نام اس کابھی شاہ محمود قریشی ہی تھا، احمد خان کھرل کے قتل میں اعانت کر کے انگریزوں سے علاقے کی چوہدراہٹ جیت لی تھی ۔
برّصغیر کی اشرافیہ !تاریخ کے طالبِ علم دنگ رہ جاتے ہیں ۔ پھر خود سے وہ سوال کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی رہنمائی میں اس قوم کاادبار کیسے تمام ہو گا؟ پرانے ہی نہیں ، نئے رئیسوں اور سیاستدانوں کی اکثریت بھی اسی طرح ابھری ہے ۔ فوجی حکمرانوں کے دربار سے ۔ ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل ایوب خاں کو ڈیڈی کہا کرتے تھے ۔ نواز شریف کس گملے میں پروان چڑھے؟ خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کے بعد کپتان نے دل سے توبہ کر لی ہے ۔ بالکل نہیں ، بالکل نہیں ۔چھ ہفتے قبل اس نے کیا کیا؟ اپنی پارٹی کو جرائم پیشہ لوگوں سے نجات دلانے کی وہ کوشش کیوں نہیں کرتے ؟
کیا ملک کا مستقبل کسی ایک شخص یا خاندان پہ چھوڑا جا سکتاہے ؟ جی نہیں بلکہ شائستہ جمہوری پارٹیاں ، جن میں نچلی سطح تک شفاف انتخابات ہوں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ قدرت کے قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے، ہم سب شتر مرغ ہو گئے... عافیت کوش۔ ہر عافیت کوش خود فریب ہوتاہے اور اس سے بڑا دھوکہ کوئی نہیں اپنے آپ کو آدمی جو خود دیتاہے۔