سامنے کا سوال یہ ہے کہ ایک مردہ قوم کو زندہ قیادت کیسے نصیب ہو سکتی ہے۔ وہ جو خود کو لیڈروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے...اور لیڈر بھی کیسے۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
لیڈر شپ کیا ہے؟ قائداعظم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ بہت سوچ سمجھ کر وہ فیصلہ کرتے ہیں اور وہ فیصلہ کر چکیں تو کبھی اس میں تبدیلی نہیں کرتے۔ دوسری انتہائی مثال متلون مزاج اور جذباتی الطاف حسین کی ہے۔ ہر سال دو تین بار وہ مستعفی ہوتے اور اگلے ہی دن واپس لے لیتے ہیں۔ مخالفین پر تو گرجتے برستے ہی رہتے ہیں اپنے ساتھیوں کو رگیدنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک دن وہ جنرلوں کے ساتھ مل کر انقلاب برپا کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو چند روز بعد ان سے نجات پانے کے لیے اپنے حامیوں کو ساحل سمندر پر فائرنگ کی مشق کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ برسوں تک میڈیا ان کا یرغمال رہتا ہے۔ پھر ایک دن ان کی تقاریر پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ ایسے ایسے عجیب و غریب بیانات وہ جاری کرتے ہیں کہ ان کے حامی ڈکشنریاں کھول کر وضاحت کرتے ہلکان ہوتے رہتے ہیں...اور گاہے وہ خود بھی مُکر جاتے ہیں یا معافی مانگ لیتے ہیں۔
لیڈر کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ خلق خدا کے درمیان وہ آسودہ رہے۔ چوبیس برس سے الطاف حسین لندن میں قیام پذیر ہیں۔ خود ان کے طے کردہ نائبین کو بار بار اعلان کرنا پڑتا ہے کہ ان کی درخواست پر وہ سمندر پار پڑے ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر بھی سوالات ہیں۔ بہت سے لوگ انہیں بھارت کا حلیف سمجھتے ہیں۔ برسوں تک خود انہیں بھی اس کی پروا نہ تھی‘ حتیٰ کہ بھارتی دارالحکومت میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
ظاہر ہے کہ الطاف حسین میں کوئی ہنر تھا کہ لیڈر ہو گئے۔ قائداعظم تو خیر استثنیٰ تھا‘ ایک حد تک قوم پرستی کے حوالے سے نمودار ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو ...ایسی محبت ان سے کی گئی کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال اس کے سوا نہیں ملتی۔ چاہنے والوں کو چاند میں ان کی تصویر نظر آتی تھی۔ وہ نعرہ لگاتے ہیں کہ'' منزل نہیں‘ ہمیں قائد چاہیے‘‘ اور ''قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے‘‘
ان دنوں لبرل فاشزم کے موضوع پر بحث جاری ہے۔ تفصیل سے اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ فاشزم کا کوئی مذہب اور نظریہ نہیں ہوتا۔ نفرت اورہیجان میں فاشسٹ لیڈر پیدا ہوتے اور شخصیت پرستی کی وبا میں پروان چڑھتے ہیں۔ کوئی کرشماتی آدمی جو آبادی کے کسی خاص طبقے کی کمزوریوں کا ادراک کرتا اور اسے برتنے پر تل جاتا ہے۔ لیڈر شپ اگر بیمار ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ بیمار ہے۔ ابرہام لنکن‘ قائداعظم‘ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو‘ اگر رائے عامہ کی تائید و محبت سے ابھرے تو ہٹلر اور مسولینی بھی۔ اپنی قوموں کو حریف کے خلاف انہوں نے منظم کیا۔ اسے قوت و شوکت بخشی لیکن بالآخر برباد کر کے رکھ دیا۔
پھر ایک اور طرح کے لیڈر ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک فوجی آمر کے سائے میں ابھرے تھے۔ آخرکار لیکن انہوں نے ہئیت حاکمہ کے مخالف ایک عوامی تحریک برپا کی۔ اب ان کے وارث کون ہیں؟ جیل میں ڈالے گئے تو پارٹی اپنی بیگم کے حوالے کر دی۔ اس لیے کہ اعتماد اور محبوبیت کا استعارہ ان کی ذات تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک پارٹی نہیں بلکہ ان کے مداحوں کا ایک ٹولہ تھی۔ بھٹو خاندان کے سوا کسی اور کی قیادت ان کے کارکن قبول نہ کرتے۔ چونکہ ایک جماعت وہ نہیں تھی‘ لہٰذا سیکرٹری جنرل جے اے رحیم سمیت جو اس کے ''نظریہ ساز‘‘ تھے‘ معراج محمد خان‘ حنیف رامے حتیٰ کہ ڈاکٹر مبشر حسن بھی مایوس اور لاتعلق ہو گئے۔
بیگم صاحبہ نے پارٹی اپنی لاڈلی بیٹی کو سونپ دی‘ جو سیاست کا فہم رکھتی تھی اور مردوں کی طرح حالات کا سامنا کرنے کی سکت بھی۔ تاہم اپنے ''تاریخ ساز‘‘ باپ کے نظریات کو انہوں نے تج دیا۔ترقی پسند نہیں‘ وہ مغرب نواز تھیں۔ اپنے قوم پرست والد کے مقابلے میں بھارت کے باب میں یکسر ایک مختلف نقطہ نظر رکھنے والی۔ 1999ء میں ٹھیک اس وقت جب دونوں ملکوں کی پندرہ لاکھ افواج سرحدوں پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھیں، دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کا ایک مشترکہ صدر اور مشترکہ کرنسی ہونی چاہئے۔ دنیا سے وہ رخصت ہوئیںتو پارٹی کی زمام ان کے شوہر نامدار نے سنبھال لی۔ ایک ایسی وصیت اس کی بنیاد تھی، دنیا بھرکے چھ ارب انسانوں میں جس کی تصدیق کرنے والا ایک بھی اللہ کا بندہ موجود نہ تھا۔
یہ پارٹی کی رہنما سیدہ عابدہ حسین سے، جب یہ بات میںنے کہی تو ان کا جواب یہ تھا: اس کے سوا چارہ بھی کیا تھا؟ بس یہی مجبوری اور بے بسی، جو ہمیں ایک مقبول،موزوں اورقابل اعتماد لیڈر شپ اختیار کرنے نہیںدیتی ۔ مسلم لیگ میںقائداعظم کا وارث آج ایک ایسا شخص ہے، جو یہ کہتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کا کلچر ایک ہے۔ لاہور میں اپنے بھارتی مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا: ''تم بھی آلوگوشت کھاتے ہو، ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں‘‘۔ جوشِ جذبات میں انہیں یاد نہ رہا کہ ہندو سرے سے گوشت ہی نہیں کھاتے۔ بہت آسانی سے انہوںنے یہ بھی فراموش کردیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان کی جنگ اسی ایک دلیل پر لڑی تھی کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ اس لئے کہ ان کی تاریخ، تہذیب، تمدن، ثقافت اور روایات مختلف اور متصادم ہیں، حتیٰ کہ موسیقی بھی۔ ایک کے ہیرو دوسرے کے ولن ہیں۔ تعجب خیز یہ ہے کہ نون لیگ کے کسی ایک لیڈر ، کسی کارکن، کسی ایک اخبار نویس نے ان سے اختلاف کی جسارت نہ کی۔برائے وزن بیت بھی نہیں۔
ہمہ وقت وہ سب جمہوریت کا رونا روتے ہیں۔ اس لیڈر کے حامی جسے جنرلوں نے ڈھونڈا اورپروان چڑھایا، حتیٰ کہ اقتدار سونپ دیا۔ ہر سال جوجنرل محمد ضیاء الحق کی قبر پر کھڑا ہو کر اعلان کرتا رہا کہ وہ اس کا مشن مکمل کرکے رہے گا۔ جنرل کا مشن کیا تھا؟
کراچی اور حیدرآباد میں طوفان بادوباراں ہے۔ ملک کی 12فیصد آبادی کا قابل ذکر حصہ گھروں میں محصور ہو کر رہ گیا ہے۔ ہزاروں بھوکے پڑے ہیں۔ گندا پانی لاکھوں گھروں میں داخل ہو چکا۔ بارہ ٹن کوڑا ہر روز کراچی شہر میں پیدا ہوتا ہے۔صرف دو ٹن اٹھایا جاتا ہے۔ بارش کے بعد وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ ہے۔ کیا ایک شہر کی صفائی اتنا ہی مشکل کام ہے؟ مصطفیٰ کمال کو سونپ دیجئے تو وہ نمٹادیں، حتیٰ کہ بوڑھے نعمت اللہ خان بھی۔
آزاد کشمیر کی کابینہ نے ہفتے کی شام حلف اٹھایا۔ہجیرہ کے سو سالہ بوڑھے کے بی خان لعن طعن کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ برادری کی بنیاد پر تقسیم سماج کا سب سے بڑا گوجر قبیلہ ناراض ہے کہ فقط ایک وزارت اسے دی گئی۔ وزارت عظمیٰ سمیت راجپوتوں کو پانچ عدد، یعنی 50فیصد۔ کے بی خان کاسدّھن قبیلہ ناخوش ہے۔ 8اکتوبر کو اس کے نیک نام مگر ناراض لیڈر خالد ابراہیم ایک جلسے سے خطاب کرنے والے ہیں۔ دو سیٹوں کے عوض جماعت اسلامی نے نون لیگ سے مفاہمت کرلی جبکہ باقی ملک میں وہ اسے مجرم بنا کر پیش کرتی ہے۔ ابھی ابھی مظفرآباد سے ایک معتبر اخبار نویس کا فون آیا کہ وزیراعظم اگرچہ قابل اعتبار ہیں، وزراء کی اکثریت کرپٹ ہے۔
اللہ کے آخری رسولﷺ کا وہی فرمان: برائی سے جب روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے۔وہ تمہیں سخت ایذا دیں گے اوراس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھیقبول نہ کی جائیں گی۔
سامنے کا سوال یہ ہے کہ ایک مردہ قوم کو زندہ قیادت کیسے نصیب ہو سکتی ہے۔ وہ جو خود کو لیڈروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے...اور لیڈر بھی کیسے۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے