جیسے ہی پہلا موقع ملا، فوجی عدالتوں اور سبکدوش افسروں کے نام پر تحقیر اور توہین کا آغاز کر دیا گیا، آبیل مجھے مار، آبیل مجھے مار!
رانا ثناء اللہ کے بیان نے حیرت زدہ کر دیا۔ فرمان یہ ہے کہ اوّل دن سے فوجی عدالتوں کے وہ خلاف تھے۔ کیوں خلاف تھے؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کم از کم رضا ربانی کی طرح رو کر ہی دکھا دیتے کہ میں اپنے ضمیر کے خلاف فیصلہ کرنے والا مجبورآدمی ہوں۔ مزید یہ ارشاد کیا کہ ٹی وی پر کم فہم سبکدوش فوجی افسر جمہوریت مخالف تقریریں کرتے ہیں۔
فوجی عدالتوں کی توسیع کا وعدہ کیا گیا تھا،پختہ وعدہ۔ دونوں طرف سے اعلیٰ ترین سطح پہ‘ تبادلہ خیال ہوا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا‘ معلوم نہیں۔ سول حکومت کی طرف سے غالباً مہلت کی درخواست کی گئی۔ ظاہر ہے کہ تجویز قبول کر لی گئی۔ نئی فوجی قیادت‘ ہر طرح سے سول حکومت کو آسودہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ افغانستان کے ساتھ کشیدگی دور کرنے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف نے خود کو پیش کر دیا کہ برف پگھلانے کی وہ کوشش کرتے ہیں۔
ایوان وزیراعظم میں‘ سپہ سالار کا جس طرح خیرمقدم کیا گیا‘ اس پہ ردعمل سامنے آ چکا۔ فوجی افسروں کو بھی اعتراض تھا۔ جنرل باجوہ نے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ کہا کہ ان چیزوں کو اہمیت نہ دینی چاہیے۔ مقصود اور ہدف پہ نگاہ رکھنی چاہیے۔ ایک نہایت ہی قابلِ اعتماد افسر کے مطابق‘ اپنے رفقا سے انہوں نے کہا ، آدمی کے وقار کا ان چیزوں سے تعلق نہیں ہوتا۔ اپنی تکریم برقرار رکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں کی عزت کی جائے۔
وزیراعظم نے بھارت سے بات شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی تو فوراً ہی ان سے اتفاق کر لیا گیا۔یہ تو آشکار ہے کہ کشمیر سے پاکستان دستبردار نہیں ہو سکتا ۔یہ بھی کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جیسا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے حلف اٹھانے سے پہلے لاہور پہنچ کر وزیراعظم کو بتایا تھا ،مرحلہ وار بہتری ہی موزوں ترین حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عمارت کی پائیداری کا انحصار بنیاد پر ہوتا ہے۔ اساس ہی اگر مضبوط نہ ہو تو کوئی بھی آندھی،بربادی لاسکتی ہے۔ کوئی بھی مخلصانہ عمل بتدریج بروئے کار آتا ہے، خوب سوچا سمجھا۔ فریب کاری اور خود فریبی اگرنہیں تو دفعتاً رونما ہونے والے فیصلے ‘ سطحی اور احمقانہ جذبات کا نتیجہ ضرور ہوتے ہیں۔ قوموں کے پیچیدہ اختلافات سلجھانے میں اعتدال ہی بہترین راستہ ہوا کرتا ہے۔ یک طرفہ اظہار الفت کو کمزوری پر محمول کیا جاتا ہے۔ ایک فریق آگے بڑھے اور دوسرا وہیں کھڑا رہے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ معلوم نہیں‘ یہ بات وزیراعظم اور ان کے مشیرانِ کرام کیوں نہیں سمجھتے۔ نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں‘ لپک کر گئے تو بھارتیوں نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟ اوفاکی کانفرنس میں وزیراعظم اس وقت بے بس اوربے چارے نظر آئے۔ طویل و عریض ہال میں آگے بڑھتے، حیرت زدہ وہ جب میزبان کو دیکھتے رہے۔ پذیرائی کو ایک ذرا سی جنبش بھی عالی مرتبت نریندر مودی نے گوارا نہ کی۔
سبکدوش فوجی افسروں کو کم فہم اور ان کے اظہارِ خیال کو جمہوریت دشمن قرار دینے پہ کوئی کیا کہے۔ وہ درجنوں اور سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ لازم نہیں کہ ہر موضوع پر ان کا موقف یکساں ہو۔ رانا صاحب کے مطابق‘ سب کے سب ادراک سے عاری ہیں۔
دو سوال ہیں۔ کیا ان سب کو بات کرنے سے روک دیا جائے۔ ثانیاً یہ کہ کیا اس کی ذمہ داری جی ایچ کیو پہ عائد ہوتی ہے؟ ان کی آزادی وہ سلب کیسے کر سکتا ہے۔ حکومت سے نہیں، ذاتی طور پر رانا صاحب سے ایک چھوٹا سا سوال اور بھی ہے، کیا ہر فوجی احمق ہوتا ہے؟
رانا صاحب اور شیخ رشید ایسے لوگ آزاد ہیں‘ پھر فوجی افسروں کی زبان کیسے بند کی جا سکتی ہے۔ کم از کم آداب کا خیال تو وہ رکھتے ہیں۔
جمہوریت کے دشمن وہ کیسے ہوگئے جس کی سب سے بڑ ی خصوصیت ہی اختلاف رائے کا حق اور اظہارکی آزادی ہے۔ رانا صاحب کے جواب میں جاری کردہ آئی ایس پی آر کے بیان میں یاد دلایا گیا کہ فوجی عدالتیں تب بنیں،دہشت گردی جب عروج پہ تھی۔جج حضرات بھی ہدف تھے۔اسی سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ۔ بیان میں جو بات نہ کہی گئی وہ یہ ہے کہ سفاک قاتل برسوں سے جیلوں میںآسودہ تھے۔پھانسی دینے کا سلسلہ ترک کردیا گیاتھا۔ تب آرمی پبلک سکول میں سیکڑوں بچوں کے قتل عام نے ملک کوچونکا دیا۔حکومت کو آمادہ کیا کہ مضحکہ خیز مذاکرات کا وہ سلسلہ تمام ہو جس کی قیادت حضرت مولانا سمیع الحق کے ہاتھ میں تھی۔ تب وزیرستان میں ضرب عضب کا آغاز ہو۔وزیراعظم کا خیال تھا کہ مولوی صاحبان،دہشت گردوں کو فاختہ بنا سکتے ہیں۔ وہی علماء کرام ،پختونخوا میں جن کے اقتدار میں طالبان پرورش پاتے رہے ۔
وفاقی حکومت میں فوجی عدالتوں کا سب سے بڑا مخالف کون ہے؟مولانا سمیع الحق کے ہم نفس ،حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ بے گناہوں کو سزا دینے کی مرتکب ہوئیں۔ بے گناہوں کے نام لینا چاہئیں اور تفصیل بیان کرنی چاہیے۔کیا یہ کوئی مذاق ہے کہ کسی معصوم کو پھانسی پرلٹکا دیا جائے۔کس طرح اس کی تاب لائی جا سکتی ہے ؟یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی نام نہیں لیں گے۔ بے گناہوں کا مقدمہ لڑنا تو دور کی بات ہے‘ کھل کرکبھی بات بھی نہ کریں گے۔ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ دہشت گرد انہی کے ہم مسلک ہیں۔انہی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے اور قیامت صغریٰ برپاکرنے والے۔ انہیں سیاست کرنی ہے ۔انہیں جینا ہے۔ایک خاص گروہ کی سرداری کے تقاضے پورے کرنا ہیں۔عجیب لوگ ہیں۔
بے سبب عمر بھر اقبالؔ اس گروہ کے خلاف فریاد نہ کرتے رہے۔ ؎
اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملاّ سے نہ پوچھ
ہوگیا اﷲ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
رانا ثناء اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے اور اب بر حق لگتا ہے کہ اس مخلوق سے وہ راہ و رسم رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں پر ورنہ انہیں اعتراض کیوں ہوا؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت بھی ہے کہ گاہے، دوسرے مذہبی مکاتب ِفکر پر وہ دانت کیوں پیستے ہیں۔
کوئی شخص جس نے اسلام کی روح کو سمجھنے کی ایک ذرا سی کوشش بھی کی ہو، کسی خاص مکتبِ فکر کا قیدی نہیںہو سکتا ۔صاف صاف الفاظ میں اللہ کی کتاب میں لکھا ہے :الگ گروہ جنہوں نے بنالئے اُمت سے کوئی تعلق ان کا نہیں۔ اجتماعی حیات میں شرکت کا آرزو مند، ایک ہوش مند اور پڑھا لکھا سیاست دان،تنگ نظر کیسے ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی اقبالؔ ہی نے دیا تھا۔ ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ محترمہ مریم اورنگزیب کا بیان آ گیا، فوجی عدالتوں سے متعلق رانا ثناء اﷲ کا موقف، لاعلمی کی بناپر ہے۔کون سی لاعلمی؟کیا وہ جانتے نہیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کیا نہیں جانتے؟تعصب ہے یہ‘ کھلا ہوا تعصب۔ وضاحت وزیراطلاعات کو اس اجلاس کے بعد کرنا پڑی، وزیراعظم ،چیف آف آرمی سٹاف، آئی ایس آئی کے سربراہ، چوہدری نثار اور سرتاج عزیز جس میں شریک تھے۔
معلومات اور ابھی ہیں ۔ فی الحال مگر خاموشی ہی رو اہے۔ فوجی قیادت پیچھے ہٹی اور سول حکومت کو آگے بڑھنے کا موقع دیا ۔ بہت اچھا کیا، بہت اچھا کیا۔ ملک کو بالآخر سول ادارے ہی چلاسکتے ہیں۔ بتدریج وہ مضبوط ہونے چاہئیں‘ ظاہر ہے کہ بتدریج ہی۔لازمی طور پہ لیکن قدم بہ قدم۔ یہی جمہوریت ہوتی ہے اور یہی واحد ممکن حکمتِ عملی ۔کیا رانا ثنا ء اللہ اور ان کے آقا جانتے ہیں؟
اس لئے یہ سوال ذہن میں اٹھاہے کہ جیسے ہی پہلا موقع ملا‘ فوجی عدالتوں اور سبکدوش افسروں کے نام پر تحقیر اور توہین کا آغاز کردیا گیا۔ آ بیل مجھے مار، آ بیل مجھے مار!
پس تحریر: کالم لکھا جاچکا تو خبر آئی کہ فوجی عدالتیں بحال کر دی جائیں گی۔ کیا کہنے ،کیا کہنے۔ تین دن پہلے دنیا ٹی وی کے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ میں یہ پیش گوئی ناچیز نے کر دی تھی۔