بے گناہ گجراتی مسلمانوں کا قاتل بھارتی ہٹلر انجام کو پہنچے گا۔ کب اور کس طرح، یہ انسانوں کا خالق جانتا ہے۔ فرمایا: تمہیں صبر کیسے آئے، تم جانتے جو نہیں۔
آپ ؐ کے ایک فرمان کا خلاصہ یہ ہے: آرزو جنگ کی نہیں ، امن کی ہونی چاہئے۔آ پڑے تو استقامت سے اس کا سامنا کرنا چاہئے۔ فرمایا ''جنت تلواروں کے سائے میں ہے‘‘۔
درجۂ حرارت کبھی گھٹتا اور کبھی بڑھتا ہے۔ حکومتوں کی سطح پر احتیاط کے کچھ آثار ہیں۔ دونوں ملکوں کے میڈیا میں البتہ ذمہ دار لوگ ہیں اور غیر ذمہ دار بھی۔تین چار دن سے بھارتی چینل ہسٹیریا کا شکار تھے۔ اب ان میں سے بعض سنبھل رہے ہیں۔ عمران خاں کے خطاب نے بھارتیوں کو سوچنے پر آمادہ کیا ۔ سب سے اہم این ڈی ٹی وی کے رویّے میں واضح تبدیلی ہے۔ کچھ بھارتی سیاست دان بھی کہہ اٹھے کہ نریندر مودی اپنی سیاست کے لیے دفاعی ترجیحات طے کر رہے ہیں۔
سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا فساد کا باعث ہے۔ آج کی دنیا میں انسانی آزادیوں کی حدود بے کنار ہیں۔ فرد کی ذاتی مسرت کے نظریے نے غلبہ پا لیا ہے۔ ہیجان نت نئے موضوعات تلاش کرتا اور زہر اگلتا رہتاہے۔ یہ ایک نیا طرزِ زندگی ہے۔
کارگل کی جنگ کے ہنگام جنرل مشرف کا تاثر یہ تھا کہ بھارتی میڈیا نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے پے در پے اجازت نامے جاری کیے۔ چینلوں کی ایک فصل اگ آئی۔ ان میں ایسے گنوار بھی ہیں جو قصباتی بسوں میں منجن بیچتے ہوئے زیادہ اچھے لگتے۔اب بھی وہ منجن ہی بیچ رہے ہیں۔حب وطن اعلیٰ جذبہ ہے مگر مذہب کی طرح اس کے تاجر بھی بہت ہوتے ہیں۔
بھارتی طیاروں کی تباہی نے رائے عامہ کی تسکین کا ساماں کیا، ورنہ سوشل میڈیا کے چیخنے والے فوجی قیادت اور سول حکومت کو ہونق ثابت کرنے پر تلے تھے۔کچھ این جی اوز کے ٹٹوبھی جو کبھی سوشلسٹ تھے، پھر سیکولر ہوئے اور اب لبرل کہلاتے ہیں۔
این جی اوز مغرب کا نیا ہتھیار ہیں ۔ ریاست بے نیاز ہے۔ مغربی مداخلت کی سنگینی کا ادراک اسے ہرگز نہیں۔ یہ دو صدیوں کی غلامی کا ثمرہے۔ مغربی ثقافتی یلغار کے ساتھ جو پھل پھول رہا ہے۔ انگلش میڈیم سکول اور کالج مدد گار ہیں۔
تعلیمی ادارے ریاست کے ہاتھ سے نکل گئے۔ قوم اپنی سمت کا تعین اب کیسے کرے۔ حکومتوں کی نا اہلی اور زرداروں کی بے حسی کے طفیل معاشی مشکلات سے دوچار ملک اس قابل نہیں کہ تعلیمی نظام مستحکم کر سکے۔حالاں کہ وسائل سے زیادہ ضرورت عزم و ارادے اور شعور و ادراک کی ہے۔
نو سو برس ہوتے ہیں، الپ ارسلان کے جانشین ملک شاہ نے اپنے وزیر نظام الملک طوسی سے دریافت کیا: سرکاری خزانہ آپ کیسے صرف کرتے ہیں۔ طوسی کا جواب یہ تھا: سلطنت کے دفاع پر۔ اسماعیلی فتنے کی افتاد میں الجھے سلطان کو احساس ہوا کہ فوجی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہیں۔ اشرفیاں مکاتب و مدارس پہ لٹ رہی ہیں۔ تنبیہ کے لیے طوسی طلب کیے گئے ۔ تب دانا آدمی نے وہ بات کہی، جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ''سلطانِ معظم‘‘ اس نے کہا : با شعور قوم سے بہتر کوئی فوج کبھی تیار نہیں کی گئی۔ زمانے اور زندگی سے آشنا طالبِ علم ہم نے پیدا کیے ہیں ۔ وقت پڑنے پر شمشیر بکف میدان میں جواتر سکتے ہیں۔
منگل کے روز ایک کے بعد دوسری افواہ پھیلتی رہی۔ بدترین یہ تھی کہ وزیر اعظم عمران خاں اور عسکری قیادت میں کشیدگی ہے۔ فوجی لیڈر شپ سے انہوں نے پوچھا ہے کہ بھارتی طیارے گرائے کیوں نہ گئے۔ در حقیقت ایسا نہ تھا۔ فرض کیجیے، تجزیے میں اختلاف تھا بھی تو شائستہ حدود میں۔ ورنہ سول ملٹری لیڈرشپ کا طرزِ احساس ایک ہی تھا۔ جنگ کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے‘ لیکن اگر آ پڑے تو دل جمعی کے ساتھ سامنا کیا جائے۔
پاکستانی دنیا کی چار ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہیں ۔ دو میدانوں میں ان کی برتری مسلمہ ہے ۔ زبان دانی اور جنگ جوئی۔افسوس کہ منصوبہ بندی میں کمزور ہیں۔ ایک عشرہ پہلے پیرس میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق یورپی طلبہ دو سال میں فرانسیسی زبان میں مہارت پاتے ہیں۔ پاکستانی زیادہ سے زیادہ ایک سال میں ۔ ایف 16 کے لیے اسرائیلی پائلٹ دو سال میدان میں رہتے ہیں۔ پاکستانی پائلٹ نو ماہ میں ہم پلّہ ہو جاتے ہیں ۔ 1973ء میں پاکستانی فضائیہ کے دلاوروں نے دمشق کو اسرائیلی یلغار سے بچا لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محافظ اور 1970ء میں اپنے انتخابی حریف جنرل سرفراز کو شام میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
وہ سنہری موقع بھارت نے خود فراہم کیا، جس نے ہندوستان کی کمزوری آشکار کر دی۔ محاذ آرائی کے لیے وہ میدان چنا، جس میں پاکستانیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ آزاد کشمیر کا رخ کرنے والے طیارے گرا لیے گئے اور پائلٹ گرفتار ہوا۔
بھارتی حکومت کے لیے اب یہ خفت اور خلجان کا وقت ہے۔ اوّل دعویٰ یہ تھا کہ طیارے اتفاقاً گرے۔ دنیا نے مذاق اڑایا تو ایک طیارے کی تباہی مان لی گئی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں برپا جشن پورا ایک دن بھی جاری نہ رہ سکا۔
حتمی طور پر ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جنگ شروع کرنا سہل ہوتا ہے ، بند کرنا نہیں۔ با ایں ہمہ بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ دہلی کشیدگی کم کرنے پر آمادہ ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خاں نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی ۔بھارتیوں کو انہوں نے یاد دلایا کہ دوسری عالمگیر جنگ چند ہفتوں کی بجائے چھ سال کو محیط ہو گئی تھی۔یعنی تاریخی قوتیں بے لگام ہو جائیں‘ تو کسی کے بس میں نہیں رہتیں۔خیال یہ ہے کہ اسی جملے نے بعض بھارتی سیاست دانوں اور دانش وروں کو نظر ثانی پر آمادہ کیا ۔ بدھ کے روز‘ صرف چند گھنٹوں میں پاکستانی قوم زیادہ متحد ہو گئی اور بھارت میں اختلاف پھوٹا۔
نریندر مودی کا مخمصہ یہ ہے کہ جنگ کرتے ہیں تو سامنے دنیا کی بہترین فوج کھڑی ہے۔ کشمیری بغاوت کے طفیل بھارتی فوج کے حوصلے پست ہیں۔ پھر اس کی ایک بڑی تعداد کو وادی اور مشرقی پنجاب میں متعین رکھنا ضروری ہے۔ سکھوں کے تیور بدل رہے ہیں۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ بھارتی پنجاب عملاً فوج کے سپرد کیا جا چکا۔ پندرہ سال قبائلی میدانِ جنگ میں بتانے والی پاکستانی فوج کے ہاتھ کھلے ہیں ۔ دہلی کی اسلحی اور عددی برتری عملاً بے معنی ہو چکی۔ توپ بر حق مگر نشانہ توپچی لگاتا ہے۔ رائفل پہ رکھا ہاتھ کانپ جائے، سپاہی کی آنکھ جھپک جائے تو نشانہ خطا ہو جاتا ہے۔ ساز و سامان اور اسلحے کی اپنی اہمیت مگر جنگ سپاہی لڑتے ہیں۔
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
مودی پسپا ہوتے ہیں تو ذلّت کا سامان کر کے۔ الیکشن میں ناکامی ان کا مقدر ہو گی ۔ محض ان کی نہیں، راشٹریہ سیوک سنگھ اور ویشوا ہندو پریشد کی شکست بھی ۔ ان انتہا پسندوں کی عشروں کی کمائی برباد ہو جائے گی ۔شاید اسی لیے بھارتی سیاست میں فیصلہ کن کردار رکھنے والی چھ ہندی ریاستوں کا میڈیا پاگل ہوا جاتا ہے۔ وہ '' آدم بُو، آدم بُو ‘‘ پکار رہے ہیں۔ نفرت میں پالے گئے، دو ٹانگوں والے درندوں کی پیاس صرف خون سے بجھ سکتی ہے۔ مگر اس کی قیمت بہت زیادہ ہے ۔ عبقری اسد اللہ خاں غالب ؔنے کہا تھا:
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
بڑی جنگ کے آثار اب بھی نہیں۔ مودی اور اس کے انتہا پسند حلیف مگر خاموش نہیں رہ سکتے۔ مئی میں الیکشن کے انعقاد تک‘ کوئی نہ کوئی شرارت کرتے رہیں گے۔ افواج سرحدوں پر پہنچانے کے لیے کم از کم تین چار ماہ درکار ہیں۔ الیکشن تب تمام ہو چکے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ منظر یکسر بدل جائے۔
خدا کی بستی مکافاتِ عمل کی بستی ہے۔ بے گناہ گجراتی مسلمانوں کا قاتل بھارتی ہٹلر ایک دن انجام کو پہنچے گا۔ کب اور کس طرح ، یہ انسانوں کا خالق جانتا ہے۔ فرمایا: تمہیں صبر کیسے آئے، تم جانتے جو نہیں۔