"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی پر کیا گزری؟

کراچی ... پاکستان کا سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا شہرہے ... پاکستان کی سیاست میں کراچی قبائلی علاقہ جات کے مقابلے میں بھی نچلی سطح پر ہے ... کراچی نے ایسا کیا جرم کیا؟... کیا ملک کو اقتصادی استحکام فراہم کرنے کی سزا ملی؟... ٹیکس کی شکل میں ''خون‘‘ دیا ... جواباً انہی حکمرانوں نے اہالیانِ کراچی کے ارمانوں کا ''خون‘‘ کردیا ... کراچی پاکستان کا آزاد اور جدید ترقی یافتہ معاشرہ تھا ... آج اس معاشرے کو ''وحشی کچی آبادیوں اور گوٹھوں‘‘ نے اپنے شکنجے میں لے لیا ... جن میں سے آدھی سے زیادہ آبادیاں جدید شہری سہولتوں‘ بلدیاتی سیٹ اپ ‘ نکاسی وفراہمیٔ آب ‘ صحت کی بنیادی سہولیات اور جدید انفرااسٹرکچر سے محروم ہیں ... ان کچی آبادیوں میں پلنے والی ہماری نئی نسل سترہویں یا اٹھارویں صدی کے معیار زندگی سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ... اور کراچی کا'' ثقافتی مقام‘‘ ختم ہوتا جارہا ہے ... اس کی ذمہ دار پچاس سال سے نعرے لگانے والی کراچی کی لیڈر شپ‘ پاکستان اور صوبے کے حکمران بھی ہیں... کراچی پاکستان کی ترقی کا خوبصورت چہرہ تھا‘ اس کی حفاظت‘ پاکستان کی حفاظت تھی۔ کراچی‘ ترقی کے سفر میں پورے ملک کی قیادت کرتا تھا لیکن کراچی سے یہ خدمات لینے کی بجائے مل جل کر اس کا منہ نوچا گیا ۔ 
اور تماشہ دیکھیں کہ ہم اپنی خوبصورت اور جگمگاتی ''دکان‘‘ اجاڑ کر... پوری دنیا میں بھکاری بن کر ''مانگتے‘‘ پھررہے 
ہیں... آپ امریکہ کو دیکھئے اس نے دارالحکومت نیویارک سے واشنگٹن منتقل ضرورکیا... لیکن نیویارک کے چہرے پر پنجے نہیں مارے ... قومی اقتصادی پالیسیوں میں نیویارک کو امریکہ کا ''فنانشل کیپیٹل‘‘ کا درجہ دیاگیا... بھارت سے ہم سیکھ سکتے ہیں... کہ دہلی کی تاریخی اہمیت ہونے کے باوجود‘ حکمرانوں اور بیوروکریسی نے کبھی''ممبئی‘‘ کی صنعت اور فلم انڈسٹری کا گلا گھونٹنے کی کوشش نہیں کی۔ 
کراچی سسکتا ... تڑپتا شہر ہے ... کراچی پر حکمران اتنی بھی توجہ نہیں دے رہے... جتنی پولٹری فارم کا مالک... مرغیوں پر دیتا ہے... نہ یہاں پانی ہے نہ صفائی ... نہ بجلی ہے نہ صحت عامہ کی سہولیات... کے الیکٹرک (سابق‘ کے ای ایس سی) نے بجلی کے نرخ اس لئے 25 سے 40 فیصد تک زائد رکھے کہ یہاں بجلی کی سپلائی مسلسل تھی... بجلی کی مسلسل سپلائی سے یہاں کارخانے اور کمرشل یونٹ مسلسل چلتے تھے... اس طرح ایک طرف مسلسل پروڈکشن ... دوسری طرف حکومت کو مسلسل ٹیکس ملتا تھا... لیکن یہاں سب کا برا حال ہے ... نہ بجلی ہے نہ پانی... یہ زمین جو کبھی زرخیز تھی... آج حکمرانوںکی 
پالیسیوں کی وجہ سے ''بانجھ‘‘ ہوتی جارہی ہے... سرمایہ کارپیسے لے کر ''بھاگ‘‘ رہے ہیں... اطراف کے ممالک آباد بلکہ مزید آباد ہورہے ہیں... دبئی کے حکمران خاندان کی ایک اہم شخصیت کے اعزاز میں گورنر ہائوس کراچی میں عشائیہ دیا گیا... مقصد یہ تھا کہ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری پر ''راضی‘‘ کیا جائے... کھانے کی میز پر ماحول زیادہ خوشگوار تھا... جس کا فائدہ ایک پاکستانی اہلکار نے اٹھایا اور کہا کہ'' آپ کراچی یا لاہور میں سرمایہ کاری کریں‘‘... جواباً اس عربی شیخ نے کہا کہ ''پاکستان سے آپ کے جو سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں‘ آپ ان کو روک لیںتو آپ کا ملک ترقی کرجائے گا... آپ کوکسی غیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘ یہ عقل کی بات تھی... کیا ہمارے حکمرانوں کو عقل کی بات سمجھ آتی ہے؟ اگر آتی ہے تو اچھی بات ہے... لیکن وہ اس کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے ... یہ بات کسی کی عقل میں نہیں آتی۔
پاکستان کے مختلف علاقوں کے باشندے شکوہ کناں ہیںکہ ان کے ساتھ ریاستی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہورہی ہیں ... کوئی ناراض... کوئی روٹھا ہوا... تو کوئی صوبہ اپنے کوٹے سے زیادہ وسائل اور ملازمتیں سمیٹنے کے باوجود'' مصنوعی احساسِ محرومی‘‘ کی آگ میں جلنے کا ''ٹیبلو ‘‘پیش کررہا ہے... لیکن کبھی کسی نے کراچی کے دکھ‘ کرب اور زیادتیوں کا ''اجتماعی واویلا‘‘ نہیں کیا... کاش !! ہمارے حکمران گوالے جتنی ہی عقل رکھتے... کہ جب گوالہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا جانور کم دودھ دے رہا ہے تو وہ فکر مند ہوجاتا ہے ... اور جانوروں کے ڈاکٹر کا نمبر نکال لیتا ہے... مایوس ہوتا ہے تو قصاب کا نمبر بھی نکال لیتا ہے... لیکن ہمارے حکمران کراچی سے گھٹتی ہوئی ٹیکس کی آمدنی اور بے روز گاری سے ذرا برابربھی فکر مند نہیں ہورہے ... ایسا لگتا ہے کہ انہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی تباہی کی پروا بھی نہیں... بجلی کا وزیر کراچی آتا ہے تو ''بجلی ‘‘گراکر چلا جاتا ہے ... وزیر پیداوار آتا ہے تو اسے قومی پیداوار کی یاد نہیں ستاتی ... بلکہ وہ کسی اور ''پیداوار‘‘ میں ہلکان دکھائی دیتا ہے... وزیر ریلوے آتا ہے تو اپنے ہی اسسٹنٹ وزیر کو ڈس لیتا ہے... انفار میشن کا وزیر ذراکم آتا ہے اور اُس کو ابھی اپنی صلاحیتیں دکھانے کا ''وافر‘‘ موقع ہی نہیں مل پارہا۔ 
ایوب خان کی آمریت آئی... کراچی ڈٹ گیا ... بھٹو آیا... تو اس شہر کے لوگوں کو سیاسی جبر اور قہر میں مبتلا کردیا گیا... مطلب کراچی پھر آگ کا گولہ بن گیا... کراچی یونہی ناراض نہیں ہوا... 1972ء کے بعد آنے والی ''جاگیردارانہ جمہوریت‘‘ نے پورے پاکستان سے دوقسم کی ''بھینٹ ‘‘ لی ... اول یہ کہ ہمارا ملک ''پاکستان‘‘ سے سمٹ کر ''نیا پاکستان‘‘ بنادیا گیا‘ ملک آدھا رہ گیا... دوم‘ یہ کہ پاکستان کی آزاد تجارت‘ صنعت ‘ بنک ‘ پٹرولیم‘ کمپنیوں اور انشورنس کمپنیوں سمیت تمام تعلیمی ادارے ''جاگیر دارانہ ملکیت‘‘ میں چلے گئے... دراصل ملکی معیشت پر یہ ''وار‘‘ اس لئے کیا گیا کہ ایوب خان کی زرعی اصلاحات کا بدلہ لیا جائے... نواز شریف نے اسے پاکستانی تاریخ کا ظلمِ عظیم قرار دیا... لیکن اس کا ازالہ نہیں کیا... اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں ''ٹیکس فری زون‘‘ اور ''خشک گودی‘‘ کی رعایت دی... اور کراچی آہستہ آہستہ صنعتی ترقی کا سفر شروع کرنے لگا... لیکن اب ایک بار پھر اسے لاء اینڈ آرڈر‘ اسٹریٹ کرائم‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے ''وحشیانہ حملوں‘‘ کا سامنا ہے... اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی ان حملوں کا مقابلہ کرپاتا ہے یا ہار مان لیتا ہے!!!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں