کراچی، مسلسل ایک نہ بجھنے والی آگ میں جل رہا ہے، تقریباً 30 سال سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے اورشاباش ہے پاکستان کے حکمرانوںاور قانون کے محافظوں کو جو نہ اس بدامنی پر قابو پاسکے اور نہ ہی اس کا کوئی حل تلاش کر سکتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اپریل 1985ء میں سندھ کے چیف سیکرٹری مسعود الزماں کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا،اس کمیشن کی رپورٹ ابتدا میں غائب کر دی گئی تاکہ کراچی کے مسئلے کا کوئی حل ''غلطی‘‘سے بھی کسی کے ہاتھ نہ لگ جائے اوریہ رپورٹ منظر عام پر نہ آ سکی، فائلوں میں دب کر قصہِ پارینہ بن گئی۔ اس رپورٹ کی خوبی یہ تھی کہ اس میں کراچی کے تمام مکاتب فکر‘شہری اداروں اور صحافیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کا ایک شاندار کمال یہ بھی ہے کہ اس میں تمام مسائل کا جائزہ محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے لیا گیا۔کراچی کی بے چینی کا حل بغیر تعصب کے پیش کیا گیا۔ رپورٹ کے ابتدائی جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسعود الزماں کمیشن نے کراچی جیسے میگا سٹی کے تمام مسائل کا حل بیان کیا،لہٰذا یہ رپورٹ ہر زاویے سے مکمل اور منفرد ہے،لیکن یہ گمشدہ ہے، صندوقوں میں'بند‘ ہے ، اہلیان کراچی اور سیاست کاروں کی پہنچ سے دور ہے۔اس رپورٹ کی مثال پارس جیسی ہے کہ چھو لیاتو سونے کے بن جائو گے ! کراچی انتظامیہ کے ایک سابق اعلیٰ افسرشفیق پراچہ نے اس رپورٹ کے بارے میں مختصراً کہا : ''اس رپورٹ میں تکلیف اور درد سے کراہتے‘ سسکتے کراچی کے تمام زخموں کا علاج موجود ہے، صرف اسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکمراں کراچی کے مسائل کو حل کرنا چاہیں تو مسعود الزماں کمیشن کی رپورٹ آج بھی روشنی اور رہنمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، لیکن لگتا ہے کہ کراچی کے دکھوں کی دوا کرنے والا کوئی نہیں،اس مسئلے کو سمجھنے والا کوئی نہیں‘‘۔ کراچی اور اہلیان کراچی اب شکوہ شکایت سے آگے نکل گئے ہیں، اب تو جانکنی کا عالم ہے، کسی بھی لمحے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر بلکہ عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کی تباہی کی ''بریکنگ نیوز ‘‘سامنے آجائے گی۔ کراچی جو کبھی روزگار کی ''جنت‘‘ تھا، اب آہستہ آہستہ بے روزگاری کا ''جہنم‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ ایک کروڑ افراد کراچی کی سڑکوں پر ''گم سم‘‘ اداسی اور مایوسی کے عالم میں گھومتے رہتے ہیں کہ جانے کب ہمارا روزگار ختم ہو جائے، صنعت کا چلتا پہیہ رک جائے اور ہم بے روزگاری کا ''سر ٹیفکیٹ‘‘ لے کراپنے گھر پہنچ جائیں۔ کراچی پورے پاکستان کی معیشت کو کھینچ رہا تھا،اب یہ اتنا ناتواں اور کمزور ہو چکا ہے کہ اپنی معیشت کو نہیں چلا پا رہا۔ کراچی میں روزانہ 60 کروڑگیلن پانی کا قحط پڑتا ہے، منگل کے ر وز پانی سپلائی کرنے والے ادارے واٹر بورڈ کے ایم ڈی کے دفتر کے باہراس کے اپنے ملازمین نے ''پانی دو‘‘ کے نعرے لگائے۔ایسا احتجاج کبھی نظر نہیں آیا کہ کوئی کمہار مٹکے ٹوٹنے کی شکایت اپنے بھٹے سے کرے،کوئی مریض ڈاکٹرکے کلینک کے باہرکھڑا ہوکرکہے 'میرا علاج کرو‘ ، کوئی استاد اپنے اسکول کے سامنے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے فریاد کرے ! کراچی کی تباہ ہوتی معاشی سرگرمیوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں گھرگھر پانی پہنچانے والے ادارے واٹر بورڈ کو صرف ٹیکس کی مد میں ڈھائی ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے اور واٹر بورڈکا پانی چوری کرنے والے ہائیڈرنٹ مافیا 40 ارب روپے کماتے ہیں۔اس مافیا نے کراچی کے ایک مشہور وزیر بلدیات ''ٹپی‘‘ کو'ہاضمے کی گولی‘ کی طرح پانی کے ساتھ نگل لیا۔ مسعود الزماں کمیشن رپورٹ میں کراچی کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے جس کی خاص خاص باتیں قارئین کی معلومات کے لئے پیش کررہا ہوں تاکہ یہ دستاویز کی شکل اختیارکرجائے اور حکومت اس پر عملدرآمد کرکے' بیمار‘کراچی کا علاج کرسکے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے کراچی کے مختلف لسانی گروپوں کے مابین کشیدگی اور دیگر امور سے متعلق اعلیٰ سطح کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ کراچی میں لسانی بنیادوں پر تنازعات دراصل سیاسی مسئلہ ہے اور اسے فقط سیاسی بنیاد پر حل کیا جا سکتا ہے، انتظامی اقدامات سے کراچی کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکے گا، بلکہ کراچی میںمثبت اور تعمیری سیاسی سرگرمیاں امن و آشتی کے لئے ضروری ہیں۔ ہرحکومت کو لسانی طبقے کی موثر قیادت کواعتماد میں لینا چاہئے۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں ہنگامی آرائی کی وجوہ میں انتقال آبادی کا رجحان بھی شامل ہے۔ کراچی ڈویژن کا رقبہ 3366 مربع کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ جب انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کیا تھا تو اس شہر کی آبادی 40 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ 1941ء میں کراچی کی آبادی تین لاکھ چھیاسی ہزار چھ سو پچپن تھی، 1947ء میں ہندو مسلم فسادات کے بعد کراچی میںمہاجروں کی آمد شروع ہوئی تو1951ء میں اس کی آبادی دس لاکھ چھ ہزارآٹھ سو انسٹھ ہوگئی۔اس طرح قلیل مدت میں 172 فیصد آبادی میں اضافہ ہوا۔
30سال قبل کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی سے دارالحکومت کی اسلام آبادمنتقلی، پورے ملک میں صنعتی پھیلائو اور مشرق وسطیٰ میں افرادی طاقت کی منتقلی سے کراچی میں آبادی کا دبائو کم ہوا تھا لیکن جب سے مشرقِ وسطیٰ میں افرادی طاقت کی کھپت کم ہوئی ہے، کراچی کی آبادی میں پھر مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے کم ترقی والے علاقے میں صنعتیں قائم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کراچی کی بندرگاہ نے اقتصادی کشش پیدا کی ہے۔آبادی میں اضافے کے ساتھ کراچی کے شہریوں کے لئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے انتظامات نہیں کئے جا رہے جس کی وجہ سے کراچی کی 37 فیصد آبادی 362 کچی آبادیوںمیں غیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔کراچی کی 46 فیصد آبادی کے پاس پینے کے پانی کے انفرادی اور 45 فیصد کے پاس اجتماعی کنکشن ہیں، 53 فیصد آبادی سیوریج اور ڈرینج کی سہولتوں سے استفادہ کر رہی ہے، 70 فیصد کے پاس الیکٹرک سٹی اور 45 فیصد کے پاس گیس لائن ہے۔ کراچی میں آبادی پورے ملک سے بڑے پیمانے پر منتقل ہو رہی ہے، اس کے علاوہ دیگر ممالک برما، سری لنکا، انڈیا، افغانستان، ایران اور بنگلہ دیش سے بھی آبادی منتقل ہو رہی ہے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بعض گواہوں کے بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کراچی میں فقط پانچ لاکھ بنگلہ دیشی غیر قانونی طور پر حالیہ برسوں میں کراچی آئے ہیں۔کراچی میں لسانی کشیدگی کی وجوہ کے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے انتقال ِآبادی دوسرے صوبوں سے مختلف برادریوں اور طبقوں کی بسائی ہوئی آبادیوں میں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے لسانی طبقوں کے تضادات اور اختلافات نمایاں ہوئے ہیں۔
کراچی میں کچی آبادیاں اور تجاوزات لسانی بنیاد پر بنائی گئی ہیں، مثلاً پختون آبادیاں‘ بہاری اور بنگالیوں کے لئے اورنگی ٹائون۔ لسانی بنیاد پرآبادکاری سے کراچی کے لسانی مسئلہ میں بڑی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہے کیونکہ کراچی کی تجارت پربعض لسانی طبقوں کی اجارہ داری ہے، مثلاً ٹرانسپورٹ کا شعبہ بشمول ٹیکسی اور رکشہ پٹھانوں کے دست اختیار میں ہے۔ اسی طرح صنعتی اداروں کے مزدور زیادہ تر صوبہ سرحد اور پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ کے مزدور مکرانی یا جزوی طور پر پٹھان ہیں۔ چھوٹی تجارت اوردکانیں ان برادریوں کے پاس ہیں جو ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آئی ہیں۔ کراچی کے ہنگاموں میں لسانی تفاوت صاف طور پر نظر آتا ہے۔۔۔ بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعد ہنگامہ آرائی کی وجہ بھی یہ تھی کہ ڈرائیور پٹھان اور بشریٰ زیدی مہاجر تھی۔ کراچی میں ہتھوڑا گروپ کی واردات کی وجہ بھی لسانی بنیاد پر بلوچ‘ پنجابی اور دیگر برادریوں کے درمیان لیاری کے علاقے میں ہوئی تھی کیونکہ ہتھوڑا گروپ کی کارروائی سے مرنے والوں کا تعلق ایک لسانی طبقے سے تھا۔
رپورٹ میں کوٹہ سسٹم کو ایک حساس سیاسی مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وفاقی ملازمتوں میں سندھ کاکوٹہ 18 فیصد ہے جبکہ کراچی کا فقط 2 فیصد۔ یہ دراصل بے روزگاری کامسئلہ ہے، کراچی میں آبادی کے ساتھ بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں مختلف آبادیاں لسانی بنیاد پر آبادکی گئی ہیں، مثلاً کچھی میمن کالونی، سندھی مسلم کالونی، سی پی برارکالونی، حیدرآبادکالونی، مانسہرہ کالونی، بہارکالونی، پٹھان کالونی، آفریدی کالونی۔۔۔ اسی طرح مختلف لسانی برادریوں نے اپنی ہائوسنگ اسکیمیں، آبادیاں اور سیٹیلائٹ ٹائون قائم کئے ہیں۔یہ آبادیاں ان مقامات کے ناموں سے آباد کی گئی ہیں جہاں سے یہ کراچی منتقل ہوئی ہیں، اگر چہ یہ ایک فطری عمل ہے۔اس کے علاوہ کراچی کے مختلف شہری اداروں۔۔۔۔ کراچی میونسپل کارپوریشن، کراچی ڈسٹرکٹ کونسل، یونین کونسل، ڈویژنل رابطہ کمیٹی،کنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر اداروں میں اشتراک عمل نہیں ہے۔ شہری مسائل کے حل کے لئے یہ شہری ادارے اجتماعی مشاورت نہیں کرتے۔کراچی کے انتظامی ڈھانچے سے بھی شہری مطمئن نہیں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی پولیس پر الزامات ہیں کہ وہ شہر میں بدامنی کی ذمہ دار ہے۔ کراچی پولیس اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتی، پولیس والے بے گناہ شہریوں کو تنگ کرتے ہیں،بغیر قانونی جواز شہریوں کو لاک اپ میں بند کرتے ہیں، منشیات اور بلیک میلنگ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں میں یہ بنیادی اہمیت کی سوچ موجود ہے کہ کراچی کے زیادہ تر تھانوں کے انچارج کراچی سے تعلق نہیں رکھتے۔اس بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ مقامی باشندے پولیس کی ملازمتوں کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہیں ، لیکن کراچی پولیس میں مقامی باشندوں کی تقرری کا اہتمام ضروری ہے۔اسلحے کی اسمگلنگ پر رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 1980ء کے بعد اچانک کراچی میں منشیات کی فروخت اور کھپت میں اضافہ ہوا اور یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ منشیات کی وجہ سے سوسائٹی میں جرائم بڑھتے ہیں۔افغان مہاجرین کے پاس جدیدآٹو میٹک اسلحہ آنا بھی کراچی میں تشدد اور ہنگامی آرائی میں اضافے کا اہم سبب ہے۔ کلاشنکوف ‘رائفلیں اور دیگر حساس اسلحہ کراچی میں بآسانی دستیاب ہے۔
کراچی کی آبادی میں اضافے کو روکنے، کوٹہ سسٹم، ٹرانسپورٹ، بنیادی سہولتوں اور پولیس کے کردار کے متعلق تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تجاویز اور سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیہی علاقوں میں روزگار کی سہولتیں ہونی چاہیں، زرعی نوعیت کی انڈسٹری مختلف علاقوں میں قائم ہو، نوری آباد سمیت صنعتی اسٹیٹس میں اسٹاف اورکارکنوں کو رہائشی سہولتیں دی جائیں،غیر ملکیوں کی غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لئے سرحدوں پر خصوصی حفاظتی انتظامات کئے جائیں،انسانی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کا قلع قمع کیا جائے،شناختی کارڈ کی غلط تصدیق کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں، کراچی کا ڈومیسائل جاری کرتے ہوئے مکمل تحقیق کی جائے،کراچی میں ناجائز تجاوزات اور نئی کچی آبادیوں کو روکنے کے لئے پولیس کا خصوصی محکمہ قائم کیا جائے، پولیس میں آبادی کے اعتبار سے اضافہ کیا جائے اوراسے جدید اسلحہ سے لیس کیا جائے، کراچی کے مقامی باشندوں کو کراچی پولیس میں ملازمتیں فراہم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں، پولیس کے اعلیٰ افسران اچانک پولیس تھانوںکا معائنہ کریں، سب ڈویژنل مجسٹریٹ بھی پولیس تھانوں کا دورہ کریں، پولیس میں تقرری کے وقت امیدواروں کی تعلیمی اہلیت، ذاتی کردارکو اہمیت دی جائے،پولیس کانسٹیبل کم ازکم میٹرک پاس ہو، پولیس اسٹیشنوں پر ایسے افسر مقرر کئے جائیں جو اچھا ریکارڈ رکھتے ہوں، ایف آئی آر لکھنے والا عملہ شہریوں کے ساتھ مہذب طرز عمل اختیار کرے ۔کراچی میں مزید پولیس اسٹیشن کھولے جائیں، عارضی پولیس پوسٹوں کو مستقل کیا جائے،کرائم کنٹرول روم کی نگرانی ڈی ایس پی رینک کا افسر کرے، وفاقی حکومت کے تحقیقاتی کمیشن نے بارہ اراکین قومی اسمبلی‘ گیارہ اراکین صوبائی اسمبلی، چھ میونسپل کونسلروں، کراچی ڈسٹرکٹ کونسل کے اراکین ،تیرہ سینئر صحافیوں‘ مدیروں‘ سینتیس مختلف سرکاری محکموں اور اداروں کے سربراہوں، گیارہ معزز شہریوں اور چھ اداروں کے سربراہوں سمیت متعدد ٹرانسپورٹروں سے انٹرویو کئے۔ کمیشن کی رپورٹ میں کراچی کے مالیاتی مسائل ‘آبادی‘شہری آبادیوں کے امورکے متعلق ضمیمے بھی شامل کئے گئے ہیں۔