"ISC" (space) message & send to 7575

سندھ پولیس: کس کی وفادار؟

کراچی آپریشن ''آکسیجن ماسک‘‘ پہنے آخری ہچکیاں لے رہا ہے لیکن مجال ہے کوئی ''صوبائی یا وفاقی ڈاکٹر‘‘اس طرف دیکھ لے۔کراچی نام کا یہ مریض ''آپریشن‘‘کی ٹیبل پرکسی ''معالج ‘‘کا انتظار کررہا ہے لیکن سپیکر سندھ اسمبلی اور صوبائی کابینہ کے آدھے درجن وزراء گرمی سے بچنے کیلئے سالانہ چھٹی پر یورپ اور امریکہ کے سیر سپاٹے میں مصروف ہیںاور کراچی کا مسئلہ اپنی جگہ قائم ودائم ہے۔ سندھ پولیس اب بھی اس آپریشن سے لاتعلق سی دکھائی دیتی ہے‘ اس کی کراچی میں نہ کوئی روٹس (جڑیں )ہیںاور نہ وہ کراچی کے کلچر اور ماحول کو رتی برابر سمجھ سکی ہے۔ سندھ پولیس میں بھرتی کا نظام بھی مکتب ِعشق کی طرح''نرالا‘‘ ہے۔ سبق یاد کرنے والا چھٹی کو ترسی نگاہوں سے دیکھ ہی سکتا ہے۔یہاں کوئی تجربہ کار افسر پولیس کی بھرتی نہیں کرتابلکہ بھرتی کا ایک نیا طریقہ نکالا گیا ہے کہ ہر علاقے کا جاگیردار جو کسی نہ کسی طرح پیپلز پارٹی کا رکن اسمبلی ہوتا ہے وہ ''وفادار کارکنوں‘‘ کی ایک لسٹ تیار کر کے وزیر اعلیٰ ہائوس بھیج دیتا ہے‘ جہاں سے انہیں بغیر ٹیسٹ اور انٹرویو کے تقرر نامہ مل جاتا ہے۔یعنی وزیر اعلیٰ ہائوس پولیس اہلکار و افسر تیار کرنے والی ''فیکٹری‘‘کی صورت اختیار کر گیا ہے؛ چونکہ 98فیصد پولیس کی بھرتی دیہی علاقوں سے کی جاتی ہے اس لئے کراچی میں انہیں ''اجنبی پولیس‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں تو کراچی کے راستے پتہ نہیں ہوتے تھانے کی حدود کیا معلوم ہوگی؟ پولیس اور شہریوں میں ''ثقافتی ٹکرائو‘‘ ہے۔ کراچی اردو ‘پنجابی اور پشتو بولنے والوں کا شہر ہے۔ سرائیکی اور بلوچی بولنے والوں کی بھی بڑی آبادیاں ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی جن میں افغانی‘برمی اور بنگلہ دیشی شامل ہیں۔ بارودی سرنگ کی طرح نہ نظر آنے والی دھماکہ خیز قوت بنے ہوئے ہیں۔ کراچی بھتہ خوروں‘ زمین پر قبضہ کرنے والوں‘ علاقوں پر تسلط اور بعض صورتوں میں انتخابی حلقہ بندیوں کو قابو رکھنے کیلئے خون ریز غیر اعلانیہ جنگ میں مبتلا ہے۔بعض علاقوں میں تو گلی اور محلے پر قبضہ بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے رینجرز ایک قوت ضرور ہے لیکن وہ'' صوبائی خودمختاری کے غیبی ہاتھ‘‘ کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہے۔پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرنے‘ تفتیش کرنے اور چالان عدالت میں پیش کرنے کی ''ویٹوپاور‘‘ موجود ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سندھ پولیس قانون کی بجائے ''اُوپر‘‘ کے اشارے پر چلتی ہے۔
سندھ پولیس کا کراچی میں کیا کردار ہے اس کا اندازہ دو دن قبل مجھے آنے والی ایک ٹیلی فون کال سے لگایا جاسکتا ہے۔ کراچی کی ایک خوشحال بستی میں یونیورسٹی چلانے والے چانسلر سے بات ہوئی کہ آپ کے ڈیوٹی افسر نے لینڈ لائن نمبر کیوں لکھوایا ہے وہ جواباً پھٹ پڑے ''میں کتنے لوگوں کو بھتہ دوں روز موبائل پر دو‘چار کالیں آجاتی ہیں انہیں روکنے والا کوئی نہیں مجبوراًمیں نے اپنا موبائل فون بند کردیا ہے اور اپنے احباب کو لینڈ لائن نمبر لکھوا رہا ہوں تاکہ انہیں مجھ سے رابطے کرنے میں کوئی مشکلات نہ ہوں اور مجھے پیغام بھی مل جائے بعد میں خود ہی رابطہ کرلوں گا ‘‘میںنے انہیں مشورہ دیا کہ آپ پولیس ‘رینجرز سے شکایت کیوں نہیں کرتے تو جواباًمایوس کن لہجے میں انہوں نے کہا کہ ''سب کچھ کر کے دیکھ لیا کوئی ریلیف نہیں مل رہا اب موبائل بند کر کے سکون میں ہوں‘‘۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اور محکمہ پولیس کی ''رشتہ داری‘‘صاف نظر آتی ہے۔بعض ناقدین کا تو کہنا ہے کہ پولیس کے محکمے کی وجہ سے وزارت داخلہ کسی کے حوالے نہیں کی جارہی کہ کہیں اس کا ''صحیح‘‘استعمال نہ ہوجائے‘ اسی لئے قائم علی شاہ صاحب اپنے ضعیف ہاتھوں کی مضبوط جکڑسے وزارت داخلہ کو ''پکڑ‘‘کر بیٹھے ہیں ۔شاہ صاحب بہت پرانے جیالے ہیں‘ اگر کسی کو ''جیالے‘‘ کے معنی فیروزالغات میں نہ ملیںتو وہ ایک بار سائیں کو ضرور دیکھ لیں معنی خود بخود سمجھ آجائیںگے۔ باوجودیکہ عمر کے اس حصے میں شاہ صاحب کو کراچی کی آبادی 22کروڑ نظر آتی ہے لیکن مجال ہے کہ وہ محکمہ پولیس کی ''اہم‘‘ پوسٹوں اور اپنے'' کام‘‘ کے افسران کو بھول جائیں۔آئی جی سندھ سے لے کر ایس ایچ او تک کے عہدے کی''حفاظت ‘‘شاہ صاحب ایماندار ''چوکیدار‘‘کی طرح کرتے ہیں یا شاید یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ بعض ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ''قائم علی شاہ صاحب کے پاس وزیر اعلیٰ کا اضافی چارج ہے اصل میں وہ 'سلیمانی‘وزیر داخلہ ہیں‘‘۔
شمالی وزیرستان کے ایک لاکھ متاثرین بغیر رجسٹریشن کراچی آجائیں۔ کراچی آپریشن کا ''حشر نشر‘‘ ہو جائے۔ تاجروں کو بھتہ کی 
پرچیاں ملیں یا اغوا ہوتے رہیں۔ پولیس افسران واہلکاروں کو روز قتل کیا جائے‘ ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہو‘ ڈاکو شہر کی سڑکوں اوربازاروںمیں لوٹ مار کرتے رہیں‘ سندھ حکومت کی پوری توجہ اس وقت سندھ پولیس کی اہم پوسٹوں پر مرکوز ہے اورکیوں نہ ہو کوئی نہ کوئی ایس ایس پی‘ کسی نہ کسی وزیر‘ رکن قومی و صوبائی اسمبلی کا بھائی ‘بہن یا قریبی رشتہ دار جو ہے۔ آن پے اسکیل (او پی ایس)کا سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کو ہوا‘ جسے وہ فائدے میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بعض لوگ اسے ''منی این آر او‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جہاں اہم اور'' قیمتی ‘‘رہنمائوں کے قریبی رشتہ دار اور دوست بھی ایسا نشانہ بنے کہ اپنے پرانے عہدوں پر بھی واپسی ایک سہانا خواب بن کر رہ گئی بقول شاعر ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ہم 
پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات نے رشتہ داریاں نبھانے میں تو کہیں کہیں شریف برادران کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی اسیری کے ساتھی عطاء محمد پنہور جو ایوان صدر میں اسٹاف افسر تھے‘ متبادل انرجی بورڈ میں جو ایک خودمختار ادارہ ہے‘ کنٹریکٹ پر لگایا گیا بعد میں گریڈ 20 کے اسپیشل سیکرٹری کی پوسٹ پر تعینات کردیا گیا اور بعد میں بغیر اشتہار دیئے ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی متعین کردیا۔ حکومت نے سندھ پبلک سروس 
کمیشن کو بھی ''بائے بائے‘‘کہہ دیا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد انہیں بھی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تو ڈی جی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عہدے پر واپسی کیلئے سمری چیف سیکرٹری کو بھیجی گئی جو منظور نہ ہوسکی اورچیف سیکرٹری نے موقف اختیار کیا کہ ''یہ تقرری خلاف ضابطہ تھی‘‘۔آصف علی زرداری کے ایک اور قریبی دوست ایم بی عباسی کے داماد اوربھتیجے جعفرعباسی کو سندھ پبلک سروس کمیشن میں صوبائی سیکرٹری گروپ میں19 سے 20گریڈمیں ترقی دی گئی لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ان کی 18گریڈ میںواپسی ہوئی لیکن انہیںدوبارہ 20گریڈ کی نوکری پرتعینات کرنے کیلئے وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری کو سمری بھیج دی۔ 
فریال تالپور کے پرائیویٹ سیکرٹری مقبول میمن‘ محکمہ سوئی گیس میں اسسٹنٹ منیجر تھے انہیں سہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ بنانے کے بعد 18گریڈ میں ترقی دے کر ڈپٹی کمشنر بنادیا گیا۔ دیگر افسران ابھی ان کی قسمت پر رشک ہی کررہے تھے کہ سپریم کورٹ کے احکامات نے انہیں پھر سوئی گیس کی راہ دکھائی تومحکمہ سوئی گیس نے چیف سیکرٹری کو لکھا کہ ''ہمارے پاس اسسٹنٹ منیجر کا کوئی عہدہ نہیں‘‘جس کے بعد مقبول میمن کو سرپلس پول میں ڈال دیا گیا تاکہ موقع ملتے ہی کسی بھی عہدے پر ''فٹ‘‘کردیا جائے۔ اسی طرح سابق وزیرداخلہ ذوالفقارمرزا کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری جاوید شاہ کو ڈپٹی کمشنر بنایا گیا لیکن عدالتی احکامات کے بعد ان کی کرسی چلی گئی اور انہیں سپنسرآئی ہسپتال میں آنکھوں کا ڈاکٹر بناکر ہسپتال کا سربراہ مقرر کرکے سیکرٹری لوکل باڈی کا اضافی چارج دے دیا اوراس عمل سے آنکھوں میں ایسی دھول جھونکی گئی کہ سب حیران رہ گئے۔ 
(باقی صفحہ 13پر) 
فزیو تھراپسٹ ڈاکٹرزبیر کو ایڈیشنل سیکرٹری ڈویلپمنٹ مقرر کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سیف اللہ دھاریجوکے بھائی طارق دھاریجو‘احمد علی پتافی کے بیٹے قیوم پتافی‘ایک اور رکن قومی اسمبلی کے بیٹے فاروق جمالی‘ ایس ایس پی کے عہدے پر براجمان ہیں۔ پیپلزپارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی شمیم آرا کی بہن نسیم آرا ایس پی جبکہ صوبائی وزیر روبینہ قائم خانی کے شوہر سعادت قائم خانی بھی ایس ایس پی کے عہدے پرکام کررہے ہیں۔
10 ماہ سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں مصروف کراچی میں پانچ ایس پیز کی پوسٹیں خالی ہیں۔ آئی جی سندھ کے عہدے پر قائم مقام آئی جی غلام حیدر جمالی کا اصل عہدہ چیئرمین اینٹی کرپشن ہے۔ وہ ڈھائی ماہ قبل ایڈیشنل آئی جی سندھ کے عہدے پرمتعین تھے؛ تاہم چیئرمین اینٹی کرپشن کے عہدے پر تبادلے کے بعد ڈھائی ماہ سے ایڈیشنل آئی جی سندھ کی اہم پوسٹ خالی ہے۔ اسی طرح ایڈیشنل آئی جی (سی آئی ڈی) اور ڈی آئی جی( سی آئی ڈی)کا عہدہ بھی کئی ماہ سے خالی ہے‘ ان عہدوں کے چارج اس وقت ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ ظفر بخاری کے پاس ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اہم کردار ادا کرنے والے پولیس کے اہم تفتیشی سیل سی آئی ڈی میں ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی( سی آئی ڈی) کی طرح ایک بھی ایس ایس پی متعین نہیں۔ سی آئی ڈی کے مختلف یونٹس جہاں پہلے ایس ایس پی سطح کا افسر انچارج ہوتا تھا اب یونٹ انچارج کی حیثیت سے انسپکٹرز اور ڈی ایس پی لیول کے افسروہی کام انجام دے رہے ہیں۔ سی آئی ڈی انسداد انتہا پسندی سیل کے ایس ایس پی چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد اس یونٹ کے انچارج ڈی ایس پی علی رضا‘ سی آئی ڈی کائونٹرٹیررازم کے یونٹ انچارج انسپکٹر راجہ عمر خطاب‘ سی آئی ڈی آپریشن کے یونٹ انچارج سب انسپکٹرخرم وارث اور سی آئی ڈی انویسٹی گیشن کے یونٹ انچارج مظہر مشوانی ہیں۔ اسی طرح ڈی آئی جی لاڑکانہ‘ ڈی آئی جی بھنبھور‘ ڈی آئی جی اسپیشل برانچ سکھر‘ ڈی آئی جی کرائم برانچ سمیت 41 اہم پوسٹوں پر افسران کی تقرری نہیں کی جارہی۔ سندھ پولیس میں اس وقت 21 گریڈ کے صرف2 افسر متعین ہیں جن میں آئی جی غلام حیدر جمالی اور غلام قادر تھیبو ہیں۔ محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور آئوٹ آف ٹرن پروموشن کے باعث سندھ پولیس کے ایماندار اور اصول پرست سینئر افسران بشیر میمن‘ اے ڈی خواجہ‘ نجف مرزا ‘ آفتاب پٹھان اپنی خدمات وفاق کے حوالے کرچکے ہیں دوسری طرف سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد آئوٹ آف ٹرن پروموشن پانے والے افسران کو ان کے محکموں میں ان کے اصل گریڈ پر واپس بھیج دیا گیا۔ سابق صوبائی وزیراورپیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی ایاز سومرو کے بھائی ریاض سومرو ‘رضوان سومرو کو سرکاری تعطیل کے باوجود محکمہ سروسز اینڈ ایڈمنسٹریشن کا دفتر کھلوا کرنوٹیفیکیشن جاری کرایا گیا اور ان کی خدمات سندھ پولیس کے حوالے کی گئیں‘ اس سلسلے میں چیف سیکرٹری سندھ نے سمری میں وزیراعلیٰ کو لکھا تھا کہ ان افسران کو سپریم کورٹ کے احکامات پر ان کے اصل محکموں میں بھیجا گیا تھا لیکن وزیراعلیٰ سندھ نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کے جوڑے کی خدمات سندھ پولیس کے حوالے کردیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں