"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی میں بھتہ خوروں کی عید!!

عید الفطر قریب آتے ہی کراچی کی راتیں جاگنے لگی ہیں۔ بازاروں میں اتنا رش ہے کہ لگتا ہے کپڑے اور جوتے مفت تقسیم ہورہے ہیں۔ سحری تک نان اسٹاپ خریداری جاری ہے۔ ایک خبر کے مطابق عید الفطر کے موقع پر کراچی میں 100 ارب روپے سے زائد کی خریداری ہوگی۔ کراچی میں کاروبار کا پہیہ چلنے کی دیر تھی کہ بھتہ خور بھی جدید ہتھیاروں کیساتھ اپنی ''عیدی‘‘ لینے میدان میں اُترگئے۔ ایف بی آر یا حکومت کے پاس تاجروں کا ''حساب کتاب‘‘ ہو یا نہ ہو بھتہ گروپ اس معاملے میں مکمل طور پر باخبر ہے۔ جس کا جیسا کاروبار... اس سے ویسی ''عیدی‘‘۔ آپ انکار ضرور کرسکتے ہیں لیکن اس کے جواب میں مارکیٹ یا دکان پر بال بم یا دستی بم کا ''ریمائنڈرحملہ‘‘ ہوتا ہے... یعنی آپ کو یاد دلایا جاتا ہے کہ اب بھی وقت ہے۔''عیدی دے دو‘‘ اور پھر بے چارے تاجر کو جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اب تک 17 دکانداراپنے سینوں پر گولیاںکھاچکے ہیں۔ 14 سے زائد بال بم حملوں میں ''ریمائنڈر‘‘دئیے جاچکے ہیں۔ سی سی ایل پی کے چیف‘ احمد چنائے کہتے ہیں کہ کراچی میں بھتہ خوری کی وارداتیں 50 فیصد کم ہوگئی ہیں۔ گزشتہ سال بھتہ خوری کی 122 شکایات موصول ہوئی تھیںلیکن اس بار ابتدائی 6 ماہ میں 61 شکایات ملی ہیں۔ اب چنائے صاحب کو یہ کون بتائے کہ جن تاجروں کی جان خطرے میں ہو وہ گھر میں تذکرہ نہیں کرتے پولیس کو خاک شکایت کریں گے۔
گزشتہ ماہ سابق آئی جی سندھ اقبال محمود کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے پرگئے تو تاجربرادری ان کے سامنے رو پڑی اور ان سے اپیل کی کہ '' خدا کے واسطے ان بھتہ خوروں سے ہماری جان چھڑا دو... پہلے لوڈشیڈنگ نے کاروبار متاثرکررکھا ہے جو بچ جاتاہے وہ بھتہ خورلے جاتے ہیں‘ ہمارے گھروں پر گولیوں اور کفن کے ساتھ دھمکی آمیز خط مل رہے ہیں‘ آپ لوگ کیا کررہے ہیں؟‘‘ تاجروں کا شکوہ بجا ہے کیونکہ اولڈ سٹی ایریا‘ مرکزی کلاتھ مارکیٹ‘موتن داس مارکیٹ‘بولٹن مارکیٹ‘کاغذی بازار‘ کھارادر اورجوڑیا بازار میں متعددمارکیٹیں ایسی ہیں جہاں کی تاجر تنظیموں نے پولیس سے رابطے کے بجائے بھتہ گروپ سے مذاکرات کرکے مارکیٹ کا ''ماہانہ بھتہ‘‘ طے کرلیاہے اب تاجر بجلی ‘ٹیلی فون بل‘ دکان کے کرائے کی طرح ماہانہ بھتہ کی طے شدہ رقم بھی دیتے ہیں۔ 
رواں سال کراچی کے مختلف علاقوں میں 14 ڈاکٹروں کی سیریل کلنگ کی گئی‘ ڈاکٹروں کو بھتے کی پرچیوں اور اہل خانہ کو قتل کی دھمکیوں کے بعد شہر کے مضافاتی علاقوں میں ماہر ڈاکٹروں نے اپنے کلینک بند کردیئے ہیں جبکہ کئی ڈاکٹر تو اپنے خاندان کے ہمراہ بیرون ملک منتقل ہوگئے ہیں۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹروں کو بھتہ کی دھمکی آمیز کال جنوبی افریقہ سے ایک گروپ کرتا تھا۔ اس گروپ کی گرفتاری کے لئے انٹرپول سے بھی رابطہ کیا گیا ہے جبکہ کراچی میں اس گروپ کے ایک کارندے کو پولیس نے گرفتار بھی کیا ہے تاہم اس کے باوجود بھی ڈاکٹروں کو بھتے کی پرچیاں تسلسل سے مل رہی ہیں۔ رمضان المبارک سے ایک روز قبل گلبہار کے علاقے میں لیاقت چوک پر سینئر جنرل فزیشن ڈاکٹر شرافت‘ جو اس علاقے میں 30سال سے کلینک چلارہے تھے انہیںصبح 2لاکھ روپے کی پرچی ملی... شام کو انہیں قتل کردیا گیا۔
عید الفطر کے موقع پر تو بھتہ گروپ ایسا جاگا کہ کھارادراور میٹھادر میں گھروں پر بھی بھتے کی پرچیاں آناشروع ہوگئی ہیں۔ مکینوں کے مطابق ان میں گینگ وار اور مذہبی تنظیموں کے علاوہ مختلف چھوٹے گروپوں نے امدادی کاموں کی غرض سے زکوٰۃ اور فطرے کی رقم مانگی ہے اورنہ دینے پردھمکیاں بھی دی ہیں ۔یہ پہلی بار نہیں‘ ماضی میں عید الاضحی کے موقع پر کھارادر میں قربانی کے جانورخریدنے والوں سے بھتہ طلب کیا گیا اورانکار پر قربانی کے بے زبان جانوربھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ کراچی کے عوام نے ایک باراس تکلیف دہ صورتحال کا بھی مقابلہ کیا ہے کہ کھارادر سے قربانی کی گائے بھتہ خور لے گئے اور کہا کہ ہمارے پلاٹ پر آکر قربانی کرلینا ہمیں صرف کھال سے دلچسپی ہے ان خبروں کاتوسابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔
تاجروںنے تو دکانوں کے باہر لگے سائن بورڈز پر دکانوں کے نمبر تک ہٹادیئے گئے ہیں جبکہ اپنے وزٹنگ کارڈز پر بھی نمبر پرنٹ نہیں کروائے۔اب تو کئی کئی گاڑیوں کے مالک تاجر رکشہ اورٹیکسی میں سفر کررہے ہیں ۔ ایک سینئرپولیس افسر کے مطابق سوات میں پاک فوج کے آپریشن کے بعد وہاں تو امن ہوگیا لیکن وہاں سے نقل مکانی کرکے کراچی آنے والے متاثرین کی آڑ میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد کراچی آگئی۔ کالعدم تحریک طالبان سواتی گروپ کے کارندے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلے کے دوران گرفتاری کے بجائے تامل ٹائیگرز کی طرز پر لڑتے ہوئے جان دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس حوالے سے انچارج سی آئی ڈی انویسٹی گیشن مظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ شہر میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سواتی گروپ ملوث ہے ۔اس گروپ نے بنارس‘ پٹھان کالونی‘ سائٹ‘ بلدیہ ٹائون اور اس سے ملحق کچی آبادیوںمیںاپنے ٹھکانے بنارکھے ہیں جہاں سے منظم جرائم کئے جارہے ہیں۔
کراچی پولیس چیف غلام قادر تھیبو کے مطابق شمالی وزیرستان کے متاثرین کی آڑ میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد کراچی میں داخل ہوجائے گی جس کے بعد شہر میں بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوجائے گا کراچی میں کچی آبادیاں ان دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ ہیں‘ اس لئے کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد کا بھی ڈیٹا مرتب کیاجارہا ہے۔ انسداد بھتہ سیل کے انچارج محمد غوث کے مطابق اس وقت کراچی میں سب سے بڑا بھتہ گروپ زاویل گروپ ہے ‘منگھوپیر‘ کنواری کالونی‘ سلطان آباد اس گروپ کی محفوظ پناہ گاہ ہے اور یہ گروپ منگھوپیر ماربل ایریا‘ اورنگی ٹائون‘ بلدیہ ٹائون اور سائٹ کے علاقوں سے بھتہ وصول کرتا ہے۔ سہراب گوٹھ سے بچوں کو دینی تعلیم دینے والے استاد قاری حنیف کوگرفتار کیا گیا۔ وہ جن گھروں میں بچوں کو دینی تعلیم دیتا تھا ان گھروں کی پوری معلومات جمع کرکے بھتے کی دھمکیاں دے کربھتہ وصول کرتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قاری حنیف نے بھتہ وصولی کی تربیت سینٹرل جیل کراچی سے حاصل کی اور پھر اسے یہ کام اتنا منافع بخش لگا کہ اس نے چندہ وصولی کا کام چھوڑ کر بھتہ وصولی شروع کردی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے حال ہی میں زبیری گروپ کے ایک بھتہ خور سہیل زبیری کو گرفتار کیا جو ماضی میں ایک بینک میں افسر تھا‘ بینک سے گولڈن شیک ہینڈ لینے کے بعد انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ جب اس کو پیسوں کی ضرورت پڑتی تو وہ اپنے پاس موجود کریڈٹ کارڈ کے لئے جمع شدہ ڈیٹا( جس میں درخواست دہندہ کے خاندان اور کاروبار کی پوری تفصیلات موجود ہوتی ہیں) انہیں دھمکیاں دے کر بھتے وصول کرتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ سائٹ ‘اورنگی اور بلدیہ ٹائون کے اسکولوں سے بھی تحریک طالبان کا زاویل گروپ ملوث ہے ۔اورنگی ٹائون‘ منگھوپیر‘ سائٹ‘ بلدیہ ٹائون کے علاقوں میں پرائیویٹ اسکول بھی بھتہ خوروں کے نشانے پر ہیں۔سی آئی ڈی ذرائع کے مطابق شہر میں بھتہ وصولی کے لئے بعض تاجر رہنما بھی بھتہ خوروں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ تاجر رہنما بھتہ خوروں کو مارکیٹ کے بڑے تاجروں کی پوری معلومات فراہم کرتے ہیں۔ جب بھتہ خور تاجروں سے بھتہ وصولی کی دھمکی دیتے ہیںتو پھر یہی تاجر رہنما بھتہ خوروں سے ڈیل کرواتے ہیں اور بھتہ خوروں سے اپنا حصہ بھی لیتے ہیں۔ کراچی آپریشن کو شروع ہوئے 10 ماہ کا عرصہ ہوگیا۔ اس دوران پولیس اور رینجرز نے 10 ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا لیکن نتیجہ وہی ''زیرو‘‘لیکن اس عرصے کے دوران بھتہ خور گروپ زورو شور سے سرگرم رہا‘ 10 ماہ کے دوران 950 سے زائد بھتے کے مقدمات انتظامیہ کو منہ چڑانے کے لئے کافی ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں