"ISC" (space) message & send to 7575

جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔۔۔۔۔!

پاکستان کا نمبر ون اپوزیشن کا شہر خواب خرگوش سے جاگنا شروع ہوگیا ہے، اس کی انگڑائیوں کی کوریج تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے دھرنوں کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ اہلیانِ کراچی کا ایک بڑا طبقہ اس بات سے خوش ہے کہ کراچی میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہورہی ہیں ۔ تحریک انصاف کے دھرنوں کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے دھرنے بھی شروع ہوگئے تو کراچی مکمل طور پر جاگا ہوا شہر بن سکتا ہے۔اہلیانِ کراچی چاہتے تھے کہ ملک گیرلانگ مارچ ‘ریلیوںاور دھرنوںمیں کراچی کا بھی ''رول‘‘ ہونا چاہیے اور اب ایسا ہونے جارہا ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد میں دھرنوں کی ''عمر‘‘ بارہ روزہوچکی ہے، حکومت کی پوری کوشش ہے کہ یہ دھرنے اپنی ''طبعی موت‘‘ مرجائیں ، لیکن دھرنے بازوں نے ''شہادت‘‘ کی خواہش اپنے دلوں میں بسا رکھی ہے ۔۔۔۔۔ معاملہ اتنا آگے چلا گیا ہے کہ اب ''ریورس گیئر‘‘شاید نہ لگ سکے ۔ حکومت پہلے تو لانگ مارچ اور ریلیاں روکنے میں مصروف رہی لیکن اس میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ، لیکن یکایک کسی نے حکومت کو ایسا '' مشورہ ‘‘دیا کہ حکومت خود بھی سڑکوں پر آگئی۔ یہ کیسی حکومت ہے جو دھرنے کا مقابلہ دھرنے سے کررہی ہے! 12اکتوبر 1999ء کو جب منتخب وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا گیا اور اسے ریلیوں ‘مظاہروں اور دھرنوں کی ضرورت تھی تو اس وقت کوئی سڑک پر نہ آیا ۔۔۔۔۔۔صرف ایک متوالا کراچی کے ریگل چوک پر اپنی پھٹی قمیض کے ساتھ '' نواز شریف زندہ باد ‘‘ کے نعرے لگاتا رہااور پورے ملک میں جمہوریت کے چیمپیٔن ایک جانب مٹھائیاں بانٹتے رہے تو دوسری طرف بیشترلوگ گھروں میں ''دُبک‘‘ گئے اور آج جب دھرنے روکنے کی ضرورت ہے تو ہر گلی ‘ محلے ‘کوچے اورقریے سے مسلم لیگ ن کے کارکن اور رہنما ریلی بمقابلہ دھرنا ''کھیل‘‘ رہے ہیں۔
عمران خان 4حلقوں اور35پنکچروں کی بات طویل عرصے سے کرتے آرہے ہیں ۔ ملک کے تیز ترین ''سیاسی فاسٹ بالر‘‘روزانہ اِن سوئنگ ، آئوٹ سوئنگ اور بائونسرز مارتے رہے ہیں لیکن سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان نے ''ملنگا‘‘ اسٹائل میں ایسا ''یارکر‘‘پھینکاکہ حکومت '' کلین بولڈ ‘‘ ہوتے نظر آرہی ہے۔ افضل خان کے ''دھماکہ خیز‘‘انکشافات اور اُن کی '' ٹائمنگ ‘‘ پرعمران خان کے خیموں میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں تو حکومتی حلقوں میں ''صف ِماتم ‘‘ بچھی ہوئی ہے اور پوری کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح افضل خان کی کردارکُشی کر کے معاملے کو دبا دیا جائے۔ بارہ روز گزرنے کے بعد بھی دھرنوں کا '' جوبن ‘‘ دیکھ کرتجزیہ نگار سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کیا تجزیہ کریں اور کیسا تبصرہ جھاڑیں؟ شہباز شریف کی قربانی '' قبول ‘‘ ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ وزیر اعظم استعفیٰ تو دورایک مہینے کی چھٹی پر جانے کو تیار نہیں۔ چوہدری نثار نگران وزیر اعظم بنتے دکھائی نہیں دے رہے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہورہی ہے نہ خیبر پختونخوا اسمبلی ''ٹوٹ‘‘سکی۔'' کنگ آف مفاہمت ‘‘ آصف زرداری صاحب بھی رائے ونڈ آئے، کھایا پیا اور چل دیے۔ آخری اطلاعات تک انہوں نے ایک کمیٹی قائم کردی ہے اور خود چین کے سفر پر روانہ ہورہے ہیں۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ وہ پورے ''ڈرامے‘‘ کا ''ڈراپ سین ‘‘ چین میں وائی فائی کی مدد سے دیکھیں گے۔ تمام فارمولے ''فیل ‘‘ہوتے نظر آئے۔۔۔۔۔ پہلے تو ''بوٹوں‘‘کی آواز سنائی دیتی تھی لیکن اب تو جدید دور ہے ، بوٹ کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی، سب کہتے ہیں معاملات '' بند گلی ‘‘ میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس کے آگے کی '' دیوار ‘‘ کون توڑے گا ؟ یہ نہ کوئی بتاتا ہے نہ جانتا ہے۔ معاملہ جب ''انا ‘‘کا ہوجائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔
بھارت میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔۔۔۔۔ ایک بنیے کی راشن کی دکان تھی، وہاں کی روایت تھی کہ جس کی مونچھیں بڑی ہوتیں اس کی دکان پر زیادہ گاہک آتے۔ اس کی دکان کے 
سامنے ایک اور دکان کھل گئی ، اس دکاندارکی مونچھیں اس بنیے سے بھی بڑی تھیں۔ وہ اس پر تائو دیتے دیتے بنیے کے تمام گاہک اپنی جانب کھینچتا چلاگیا ۔۔۔۔۔۔ بنیے سے رہا نہ گیا اور اس نے جاکردکاندارکو کہہ دیا کہ'' اپنی مونچھیںنیچی کرلو‘‘ انکار پر بنیے نے مقابلے کی دھمکی دیدی ۔۔۔۔۔ سامنے والے دکاندار نے ایک ہفتے کا وقت مانگا اور لڑائی پر آمادہ بھی ہوگیا۔ بنیے نے اپنے مسٹنڈے اور بدمعاش بلالئے ، پانچ روز تک ان کو خوب کھلایا پلایا ۔ چھٹے روزدکاندار آگیا اور ایک ہفتے کا مزید وقت ہاتھ جوڑ کر طلب کیا۔ بنیے نے فراخ دلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے '' الٹی میٹم ‘‘ بڑھادیا۔۔۔۔۔۔مزید ایک ہفتے میں مسٹنڈے اور پہلوان بنیے کا سارا راشن کھا گئے۔ پندرہ دن بعد جب بنیا اپنے بدمعاشوں کو لڑائی کے لئے لے گیا تو دکاندار نے کہا ''ہماری لڑائی کس بات پر ہے؟‘‘ بنیا بولا: ''مونچھیں نیچی کرنے پر‘‘۔ دکاندار پھر بولا: ''تو ٹھیک ہے میں مونچھیں نیچی کرلیتا ہوں لڑائی ختم‘‘۔ بنیالاجواب ہونے کے ساتھ '' کنگال ‘‘ بھی ہوچکا تھا۔ بنیا اپنی مونچھیں مزید بڑھا کر اس کے گاہک بھی واپس لا سکتا تھا۔ یہ ''انا‘‘ ہی تھی جس نے اسے کنگال کردیا ۔۔۔۔۔۔وہ لڑائی کرکے مقابلہ جیتنا چاہتا تھا لیکن جیت کر بھی ہار گیا۔
اسلام آباد کے دھرنے عمران خان‘ ڈاکٹر طاہرالقادری اور میاں نواز شریف کے درمیان لڑائی دیکھ کر اس بنیے کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اس سوال کا جواب مجھے نواز شریف کی ہر حکومت میں مل جاتا ہے۔
اس تما م صورت حال میںٹی وی چینلز کی تو جیسے لاٹری نکل آئی ہے۔ پروگرامنگ کا ڈیپارٹمنٹ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے،کئی پروگراموں کی اقساط کے '' ڈھیر ‘‘ لگ چکے ہیں، نیوز ڈیپارٹمنٹ جو عموماً رات بھر آرام کرتا تھا،اب اس کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ کم خرچ بالانشین کے مصداق '' لائیو ٹرانسمیشن ‘‘ نے ناظرین کو ''باندھ ‘‘کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔رن ڈائون ایسا ہوگیا ہے کہ آدھا گھنٹہ عمران خان ، آدھا گھنٹہ طاہرالقادری اور پھر ایک گھنٹہ ٹاک شو۔۔۔۔۔۔ یہی ترتیب پھر شروع ہوجاتی ہے اور ٹرانسمیشن کسی ''بُلٹ ٹرین‘‘کی رفتار سے نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں ہے، یہاں تک کہ کئی ٹی وی چینلزتو '' لائیو ‘‘ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اشتہارات پر بھی '' لائیو ‘‘کا لوگو نشر کردیا جاتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے اسلام آباد کے دھرنے باز کامیاب ہو تے ہیں یا تخت لاہور کے بادشاہ؟ وقت سے بڑا کوئی رپورٹر ، تجزیہ نگار ، تبصرہ نگاراوراینکر پرسن نہیں اور یہ وقت ہی ثابت کرے گا کون فاتح رہا اورکون شکست خوردہ۔ اور عوام کی پریشانی کی قیمت نیا انقلاب ہوگا یا اسی نظام کو ''پالش‘‘کرکے نیا بورڈ'' انقلابی پاکستان‘‘ لگادیا جائے گا۔ کراچی میں ایک ایس ایم ایس لطیفہ بے حد مقبول ہے کہ ''میں سونے جارہا ہوں ، اگر صبح نیا پاکستان بن جائے تو مجھے اٹھا دینا،کہیں میں پرانے پاکستان میں سوتا نہ رہ جائوں‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں