"ISC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی ’’کارنرمیٹنگ‘‘ اور پیپلز پارٹی!!

عمران خان کے لاڑکانہ کے جلسۂ عام نے کوئی '' ایٹمی دھماکہ ‘‘ نہیں کیا ، نہ ہی سونامی لاڑکانہ میں ''سیاسی تباہی‘‘ مچا سکا لیکن سندھ حکومت کی گردن کا تنائو معلوم نہیں کیوں کم ہوگیا ہے؟ سندھ حکومت کو '' اندر‘‘ سے کنٹرول کرنے والے مانتے ہیں کہ سندھ حکومت کے ترجمان (صوبائی وزیراطلاعات ) سے لے کر نثارکھوڑو تک، عمران خان کے اثرات کو کم کرنے کی مہم میں اِس قدر جوش وخروش کے ساتھ پرچم اٹھا کر نکلے کہ بات بننے کے بجائے بگڑ گئی۔ عمران خان کے جلسے کا مذاق اُڑانے کے لئے اسے کارنر میٹنگ قرار دے دیاگیا ۔ کئی اخبارات نے شرجیل میمن کی خبر اور عمران خان کے جلسۂ عام کی تصاویر کو'' آس پاس‘‘ شائع کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرجیل میمن کا بیان ''شرمندہ‘‘سا نظر آنے لگا کیونکہ عوام کو فوری فیصلے اور تقابل کا موقع مل گیا۔ سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کی متوقع لسٹ میںشمولیت کے امیدوار نثار کھوڑو نے بھی اسی بیان کی ''جُگالی‘‘ کی ؛ حالانکہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعتزاز احسن نے عمران خان کے جلسے کو کامیاب ترین قراردے کر پیپلز پارٹی سندھ کے رہنمائوں کوبھی حیران کردیا ۔ اندرونی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شرجیل میمن نے یہ بیان جلسے سے قبل ہی تیار کررکھا تھا۔ انہوں نے شرکاء کی تعداد دیکھنے اور گننے کی زحمت گوارا کئے بغیر ہی ''بیانیہ میزائل‘‘ داغ دیا اورپھر عوام نے پیپلز پارٹی کے دو چہرے دیکھے۔۔۔۔۔ وفاق میں اعتزاز احسن اور سندھ میں شرجیل میمن۔۔۔۔۔ ایک طرف ''کامیاب جلسۂ عام‘‘ تو دوسری جانب ''کارنر میٹنگ‘‘۔ اس سے پہلے کہ پیپلز پارٹی کو وفاق اور سندھ میں الگ الگ پارٹی قرار دیا جاتا اور ٹی وی چینلز پر نیا ''شوشا‘‘شروع ہوتا ''اپنوں‘‘ کے سمجھانے پرمیمن اور کھوڑو سب کچھ سمجھ گئے اور'' تیل دیکھو ! اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ کی پالیسی اپنالی۔ 
عمران خان کے جلسۂ عام کے ''آفٹر شاکس‘‘ابھی نہیں آئے اورشاید یہ اثرات فوراً ظاہر بھی نہ ہوں لیکن لاڑکانہ جیسے مضبوط قلعہ میں اُٹھنے والی آواز نے فاطمہ بھٹو کے لئے ایک راستہ بنا دیا ہے ۔ عمران خان نے بلاول کو ذوالفقار علی بھٹو کا خون ماننے سے انکار کرکے بذریعہ جلسۂ عام ایک بار پھر اہلیانِ وطن کو یاد دلا دیا کہ وہ اصلی بھٹو نہیں ہے۔ عمران خان نے فاطمہ بھٹو کا نام لے کر اصلیت بتانے کی بھی کوشش کی۔ اب یہ فاطمہ بھٹو اوران کے سرپرستوں کا کام ہے کہ وہ اس صورت حال سے کتنا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں ، جس کے بظاہر آثار کم ہی نظر آتے ہیں لیکن اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ عمران خان کے جلسۂ عام نے اپنے مستقل اثرات کے طورپر فاطمہ بھٹو کے لئے راہ ہموار کردی ہے، عمران خان کے جلسۂ عام کا مقصد ''زرداری پالیٹکس‘‘ کے مخالفین کو ایک جگہ جمع کرنا تھا اورعمران خان اِس میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔ سندھ کی مختلف سیاسی جماعتوں نے سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی پراُسے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صوبے میں ایک نیا اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پیر کے روزکراچی میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کی رہائش گاہ پر مختلف سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں الٰہی بخش سومرو ‘ غوث علی شاہ ‘ لیاقت جتوئی اور مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر صدرالدین راشدی بھی شریک تھے۔ ارباب غلام رحیم نے کہا کہ سندھ میں عملاً '' ڈاکو راج ‘‘ قائم ہے۔ لیاقت جتوئی کے لیے سندھ کی ترقی کے حوالے سے قائم علی شاہ کے دعوے سمجھ سے بالاتر نظر آئے۔ یہ نیا سیاسی اتحاد پیپلز پارٹی کے لئے کتنی مضبوط اپوزیشن ثابت ہوگا، آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
یہ بات اب سب ماننے لگیں گے کہ عمران خان، لاڑکانہ کے جلسۂ عام سے بہت کچھ تو حاصل نہیں کرسکے لیکن ان کا چیلنج اورگھن گرج لاڑکانہ میں '' میدان سجانے ‘‘ والوں کے لئے ایک مستقل کانٹا بنے رہیں گے ۔ عمران خان کے سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان لاڑکانہ '' فتح‘‘ کرنے گئے تھے توانہیں کامیاب نہیں کہاجا سکتا، اگر یہ عوام کو جگانے کی ملک گیر مہم کا حصہ تھا تووہ یقیناً کامیاب ہوگئے ہیں۔عمران خان کو لاڑکانہ میںروکنے کے لئے جو تراکیب آزمائی گئیں، اُن کے سامنے تو ماضی کے ڈکٹیٹروں کے دماغ بھی '' فیل ‘‘ نظر آئے ، لاڑکانہ شہر میں جلسۂ عام کی ''قیمت‘‘ 21 نکات پر مبنی شرائط نامہ تھا جس کا مقصد عمران خان کو حکومت پر ''اٹیک‘‘ کرنے سے روکنا تھا اور اس میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ وہ حکومت کے خلاف نعرے بھی نہیں لگائیں گے، بنا نعرے کا جلسہ ، نمک مرچ کے بغیر پھیکے کھانے جیساکہلا تا اور ایسا کھانا صرف '' مریض‘‘ ہی کھاتے ہیں، ''صحت مند ‘‘ لوگ نہیں ۔ اگر عمران خان یہ شرائط مان لیتے تو اُن کا جلسہ اپوزیشن کا نہیںرہتا ، سرکاری جلسہ ہوجاتا ، عمران خان کے حامیوں نے اس کا حل شاید یہی نکالا کہ لاڑکانہ شہرکی حدود سے بارہ کلو میٹر دور علی آباد میں محفل سجائی جائے ۔ جنگل میںمنگل بھی ہو جائے اور نعروں کا '' تڑکا ‘‘ بھی ختم نہ ہو۔ دوسری طرف سندھ حکومت کا یہ خوف بھی حیرت انگیز تھا کہ عمران خان نے اگر ''اسٹیٹس کو‘‘ کے خلاف بات کی تو یہ زرداری صاحب کی '' گدی ‘‘ پر بھی حملہ ہوگا۔ سندھ حکومت کی گھبراہٹ کا عالم یہ تھا کہ سندھ اسمبلی نے جلسے سے قبل عمران خان کے خلاف قرارداد منظور کی ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ جلسۂ عام کے بعد سندھ کابینہ نے بھی اِس جلسۂ عام کے بارے میں اپنے '' گراں قدر‘‘ خیالات کا اظہار کیا ، لوگ پوچھتے رہے کہ اگر ایک وفاقی جماعت سیاسی عمل میں حصہ لیتے ہوئے جلسۂ عام کر رہی ہے تو اِس پر سندھ حکومت کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ کیوں ہوسکتا ہے ؟سندھ حکومت کی یہ گھبراہٹ اورپھرتیاں سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ سندھ حکومت نے عمران خان کے معاملے میں کھلے دل کا مظاہرہ کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں دکھائی جبکہ سندھ حکومت عموماً جمہوری عمل میں کبھی طاقت اوردھونس کا اظہار نہیں کرتی بلکہ مخالفین کو گلے لگانے کا فن اب انہیں آگیا ہے۔ 
اب کچھ ذکر ایم کیو ایم کا ہو جائے جس کے اہم رُکن نے سندھ اسمبلی کے اجلاس میںعمران خان کی سندھ آمد پر پیپلز پارٹی کا ذرا کُھل کر ساتھ دیا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اِس کی ضرورت نہیں تھی ، اگرعمران خان سندھ میں جلسہ کررہا ہے تو اس پر کسی واویلے کا کیا فائدہ ؟ جب عمران خان نے کراچی میں جلسہ عام کیا تھا تو الطاف حسین نے اُسے ''ویلکم ‘‘ کیا تھا، لیکن فیصل سبزواری نے لاڑکانہ میںعمران خان کے جلسے کے بارے میںمثبت رائے نہیں دی ، اس پر ہلکا پھلکا رد عمل خود ایم کیو ایم میں بھی ہوااور اسلام آباد کے اندر بھی بہت سے لوگوں نے اسے جمہوری طرز عمل قرار نہیں دیا۔ اگر عمران خان سے نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے تو اِس لڑائی کے لئے الگ میدان ہونا چاہیے۔ بہتر تھا کہ ایم کیو ایم اپنی بگھی میںسوار ہوتی۔ کسی کو سیاسی عمل سے روکنے کی خواہش کا اظہارکرنا، مثبت نتائج کو جنم نہیں دیتا۔ کوئی فیصل سبزواری صاحب سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ نواز حکومت میں بھی نہیں ، پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی نہیں، اب صرف عمران خان رہ گیا تھا آپ اُن کے ساتھ بھی نہیں، کیا پینسل کے پیچھے لگے ہوئے ربڑ سے اس غلط کو درست نہیں کیا جاسکتا؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں