"ISC" (space) message & send to 7575

عمران خان کا پلان سی اور کراچی

کراچی میں عمران خان جب 12دسمبر کو شہر بند کروائیں گے تو یہ ایک آسان کام بھی ہوگا اور مشکل بھی۔ کراچی کے کلچر میں پہیہ جام اور ہڑتال سمیت یوم سوگ شامل ہیں‘ لیکن ابھی تک عمران خان کواہلیانِ کراچی کو آزمانے کا موقع نہیں ملا۔ کراچی کے عوام ہڑتال کے ''شوقین‘‘ بھی ہیں تو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ تین ہزار پانچ سو تین مربع کلومیٹر پر محیط کراچی شہر کے باشندے ہڑتال کو انجوائے کرتے ہیں۔ اگر ہڑتال کے دوران طویل وقفہ آجائے تو اِن کی بے چینی بڑھ جانا فطری ہوجاتا ہے اورپھر ہڑتال کا اعلان ہوتے ہی شہری الٹی گنتی شروع کردیتے ہیں۔ اور اُس دن کے ''تفریحی پلان‘‘ بھی ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ تاریخ قریب آتے ہی ہڑتال کا جوش و خروش بھی جوبن پر آجاتا ہے۔ کراچی کی ہڑتال طویل فاصلوں کی وجہ سے کافی تکلیف دہ بھی ہوتی ہے‘ اس لئے شہریوں کی بڑی تعداد گھروں سے نہیں نکلتی۔ ٹرانسپورٹ نہ ملنے کا بہانہ ملازم پیشہ لوگوں کیلئے تحفہ عظیم بن جاتا ہے۔ 12دسمبر کو عمران خان نے اہلیانِ کراچی کو انتخابی دھاندلی کے خلاف ہڑتال کیلئے پُکارا ہے۔ 12دسمبر کو کراچی میں کیا ہوگا؟اِس بارے میں کراچی کی موثر جماعتوں کاردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ایک حقیقت واضح ہے۔ کراچی شہر تین قوتوں میں تقسیم ہے۔ سب سے بڑی طاقت کراچی میں ایم کیو ایم ہے۔ سرکاری طور پر پیپلزپارٹی کراچی کے بعض علاقوں میں اپنی طاقت رکھتی ہے‘ لیکن کراچی میں پختون آبادیاں اور پنجابیوں کی بستیاں بھی کم نہیں۔ ہزارے وال‘ بلوچ اور علاقہ غیر کی بڑی بڑی آبادیوں نے کراچی میں اپنی طاقت کے ''راجواڑے‘‘قائم کررکھے ہیں۔ افغان مہاجرین‘ برمی اور بنگالی بھی کراچی میں ''نظر نہ آنے والی‘‘ قوتیں ہیں۔ الطاف حسین نے کراچی میں بڑی کامیاب ہڑتالیں کروائی ہیں۔ ایم کیو ایم تو یوم سوگ کا اعلان بھی کرتی ہے توکاروبار بند ہونا شروع ہوجاتا ہے‘ پھر وضاحتی بیان آتا ہے کہ ''ابھی کاروبار کھلا رہے گا‘‘ تو دکانوں کے شٹر ''اوپن‘‘ ہوجاتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے کبھی کسی مخالف پارٹی کی ''ہڑتال‘‘کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالی‘ لیکن سندھ حکومت کے ترجمان شرجیل میمن نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا ''اشارہ‘‘دے دیا ہے۔ اُن کی اس پلاننگ کا نقص یہی ہے کہ مزاحمت کے نتیجے میں کراچی میں ایک لسانی تقسیم کا ''بگل‘‘ بج جائے گا‘ جو کراچی کی سیاسی تقسیم سے زیادہ خطرناک بات ہوگی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی میں پہلے ہی ''ہاٹ واٹر ‘‘میں ہے۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت سے روٹھ کر الگ کھڑی ہے۔ لیاری کے بلوچ نہ صرف پیپلز پارٹی سے ناراض ہیںبلکہ لیاری کے حالات سے واقف بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لیاری عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ''بند‘‘ہوسکتا ہے‘ کیونکہ عزیر بلوچ کی دلی خواہش ہے کہ تحریک انصاف کی لیاری میں انٹری ہوجائے ۔ بلاول بھٹو کے جلسہ عام میں لیاری کا قافلہ خالی بسوں کے قریب بھی نہیں گیا اور سیاسی گروپوں نے بھی شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کراچی آپریشن کے نتیجے میں وہ پختون جو طالبان سے وابستہ تھے‘ وہ بھی ''ناپسندیدہ ‘‘افراد کی پکڑدھکڑ کی وجہ سے ناراض ہیں ۔ ایم کیو ایم کے اردو بولنے والے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت سے ناخوش ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی نے اپنے جذباتی وزراء کی ٹیم میدان میں اتاری تو یہ تمام ناراض عناصر مل کو ایک مضبوط قوت بن سکتے ہیں‘ اس لئے بہتر یہ ہے عمران خان اور تحریک انصاف کو ''اپنے بازو‘‘ آزمانے کا موقع دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ کراچی میں 12دسمبر کو قائم علی شاہ صاحب کے نرم لہجے اور دھیمے قدموں کی ضرورت ہے‘ سختی معاملات کو خراب کرسکتی ہے اور اب تو تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے شہر کو بند کرانے کی دوبارہ تشریح بھی کی ہے اور کہا ہے کہ اس کا مطلب شٹر ڈائون اور پہیہ جام نہیں‘ صرف بڑی سڑکوں پر احتجاج کرنا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ عمران خان نے چوبیس گھنٹے میں اپنے پلان سی میں اتنا بڑا'' یوٹرن‘‘ کیوں لیا؟ کیا ''کسی ‘‘کا فون آیا؟ کوئی ''یقین دہانی ‘‘کروائی گئی؟یا پھراِسے پلان ''ڈی‘‘کیلئے ''اسپیئر‘‘ کردیا گیا ہے۔
عمران خان کا نواز حکومت پر بڑھتا ہوادبائوواضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ حویلیاں میں ہزارہ موٹروے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد وزیراعظم نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ جلسہ عام کی خاص بات یہ تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان اِسی جلسے کے ''پلیٹ فارم‘‘سے کیا گیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایساہوا کہ کوئی وزیر اعظم اوگرا کی تیار کردہ سمری جلسہ عام میں پڑھ کر سنائے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وزیر اعظم صاحب گاجر‘مولی اور بھنڈی سستی کرنے کے اعلانات بھی کسی جلسہ عام میں کردیں۔ بجلی کی قیمتوں میں معمولی ہی سہی لیکن کمی کی جارہی ہے۔ اب تو عوام بھی عمران خان کو ''پریشرکُکر‘‘ کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر وہ ''پریشر‘‘نہ بناتے تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے ''اثرات‘‘عوام کے بجائے ''حکومتی عیاشی‘‘پر خرچ ہوجاتے۔
سندھ حکومت کی ابھی لاڑکانہ جلسے سے جان چھوٹی نہیں تھی کہ کراچی کے'' احتجاجی پلان‘‘نے پیپلز پارٹی کو خواب ِخرگوش کے مزے'' لوٹنے‘‘ سے روک دیا‘ گو کہ آصف زرداری کو بھی ''گو نواز گو‘‘ کا نعرہ پسند ہے اور وہ بھی نواز حکومت سے زیادہ خوش نہیں‘ لیکن وہ'' میرے عزیز ہم وطنو‘‘کی آواز بھی نہیں سننا چاہتے۔ اُن کی زبان بھی ''کرکٹی‘‘ہورہی ہے‘ اس لئے یوم تاسیس کی تقریب میں عمران خان کو جواب بھی اُسی زبان میں دیا کہ۔۔۔۔۔۔''سیاست ٹی ٹوینٹی یا ون ڈے نہیں ٹیسٹ میچ ہے‘‘۔ عمران خان کی ایک بار پھر سندھ آمد آصف زرداری اور اُن کی سندھ حکومت کیلئے خطرہ ضرور ہے‘ اس لئے ڈر یہی ہے کہ کہیں کراچی میں سیاسی عدم بے چینی کی ''بندمٹھی‘‘کُھل نہ جائے اور ''سب کچھ‘‘سندھ حکومت کے ہاتھ سے نہ گر جائے۔ سندھ حکومت کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے 
لگایا جاسکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنی پسند کے وزیراعلیٰ کی ''تاج پوشی‘‘نہ کرواسکے اور لاہور کے یوم تاسیس کے جلسے سے مغلیہ دور کے ناراض شہزادوں کی طرح ''غائب‘‘ ہو گئے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے یا ''ڈٹ‘‘ کے کھارہے ہیں۔ بلاول کی پرسنل انفارمیشن دینے اور لینے والا کوئی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ''یومِ تاسیس ‘‘پر بلاول کی ''تصویری شرکت‘‘سے ''سیاسی سکون‘‘حاصل کیا۔ پیپلز پارٹی نے یوم تاسیس کے موقع پر ملک کی خراب معاشی صورتحال‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بجلی کے بحران‘ لا ء اینڈ آرڈر اور جے یو آئی کے قدآور سندھی رہنما ڈاکٹر خالد سومرو کے بہیمانہ قتل سمیت کسی موضوع پر بات تک نہیں ہوئی۔
اب کچھ ذکر ڈاکٹر طاہر القادری کا ہوجائے۔ بھکر کے انتخابی نتائج نے طاہر القادری کی شخصیت اور ان کی پارٹی کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان لگادیاکہ جتنا بڑا جلسہ تھا اتنا بڑا رزلٹ کیوں نہیں آیا؟اس کا جواب پاکستان کی پولیٹکل سائنس کے اساتذہ کو ضرور دینا چاہیے۔ یہ چھوٹا موضوع نہیں۔ اِس پر تو مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسلام آباد کے حالیہ دھرنے سے طاہر القادری صاحب دوسری بار واپس چلے گئے۔ وہ واپس گئے کیوں۔۔۔۔۔۔؟اس کا قوم کو پتہ ہے‘ نہ اُن کے مریدوں کو اور نہ ہی دھرنے کیلئے لڑنے والوںکواِس کا علم ہوسکا۔ اب محترم طاہر القادری کے پاس ''لاسٹ چانس‘‘ آخری راستہ ایک اور دھرنے کا ہے لیکن اگر وہ تیسری بار بھی ''ٹھنڈے علاقے ‘‘ میں ایسی ''گرما گرم محفل‘‘ سجا کر ''کسی‘‘ کو بتائے بغیرواپس چلے گئے تو انہیں سیاسی لحاظ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اب قوم ''ہوشیار‘‘اور میڈیا بیدار ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں