"ISC" (space) message & send to 7575

مستقبل کو ماضی بنانے کی سازش۔۔۔!

سانحہ پشاور پر بہت کچھ لکھا گیا اورجتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔۔۔۔۔۔ مذمت کافی نہیں ، دہشت گردی کا '' کینسر ‘‘ آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے ، اب '' علاج ‘‘ نہ کیا توجسم کے حصے ٹوٹ کر گرنے لگیں گے۔ سوشل میڈیا پر سانحہ پشاور کے گہرے اثرات نظر آئے ۔ ایک آزادنظم اس وقت سب کی توجہ کا مرکز ہے :
بابامجھ کو ڈر لگتا ہے ۔۔۔
بابا میری مس کہتی ہیں
کل سے سب بچوں کو
اپنے گھر رہنا ہے، گھر پڑھنا ہے !
میں نے سنا ہے
ایک بڑے سے ، کالی مونچھوں والے ''انکل‘‘
بم لگا کر آئیں گے، سب بچے مر جائیں گے!
بابا کیوں ماریں گے ہم کو؟
ہم سے کوئی بھول ہوئی کیا؟
ہم سے کیوں ناراض ہیں انکل؟
بابا ان کو گڑیا دے دوں؟
یا پھر میری رنگوں والی۔۔۔ یاد ہے ناں وہ نیلی ڈبیا؟
میری پچھلی سالگرہ پر آپ نے لا کر دی تھی
اور میری وہ پیاری پونی۔۔۔ ریڈ کلر کی تتلی والی!
وہ بھی دے دوں؟پھر تو نہیں ماریں گے مجھ کو؟
یاد ہے بابا، ایک دفعہ جب، ہاتھ پہ مجھ کوچوٹ لگی تھی
بہت زیادہ درد ہوا تھا ، تھوڑا سا خون بھی نکلا تھا!
بہت زیادہ روئی تھی میں ،کیا یہ بم بڑا ہوتا ہے؟
بہت زیادہ چوٹ لگے گی؟ درد بھی شاید زیادہ ہو گا۔۔۔!
بابا، مجھ کو ڈر لگتا ہے۔۔۔!
با با، مجھ کو ڈر لگتا ہے۔۔۔!
دہشت گردی اب صرف پاکستان کا ہی مسئلہ لگتی ہے، امریکہ نے خود کو محفوظ بنالیا، برطانیہ بھی ''سیکیور‘‘ہوگیا ، بھارت نے ممبئی حملوں پر اتنا واویلا مچایا کہ دنیا ہیروشیما اور ناگاساکی کو بھول گئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ افغانستان کے طالبان پشاور حملے کی مذمت کررہے ہیں ۔ سری لنکا میںامن قائم ہوئے بھی عرصہ بیت گیا۔ دنیا کا ایسا کونسا ملک ہے جہاں بچوں کوایسے وحشیانہ طریقے سے قتل کیا جاتا ہو۔ جنگل کے بھی کچھ قانون ہوتے ہیں ، لیکن افسوس صد افسوس ! پاکستان میں دہشت گردی کی ایسی واردات دیکھنے اورسننے والے ہٹلر ‘ہلاکواور چنگیز خان کو بھی'' رحم دل‘‘ قرار دے سکتے ہیں ۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ طویل ہے لیکن حکومتی اقدامات کی فہرست انتہائی مختصر ۔ جس ملک میںسب سے زیادہ دہشت گردی ہو لیکن موت کی سزا پر پابندی لگادی جائے وہاں کیا حال ہوگا؟ سعودی عرب اور ایران میں کوئی چوری کر کے دکھادے ، ہاتھ کاٹ کر ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔۔۔اور ہمارے حکمران اتنی طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود بچوں تک کا مستقبل محفوظ نہیں بناسکے۔
وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت پاک فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو میں سوا چار گھنٹے طویل اعلیٰ سطح کے اجلاس میںوفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار‘ وزیرخزانہ اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر سمیت اعلیٰ عسکری حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس کی ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی فلم اور اخبارات میں شائع ہونے والی تصویر ملک بھر میں موضوع بحث بن گئی ہے۔ تصویر میں وزیر اعظم نواز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ بیٹھے ہوئے کچھ اُداس اورکچھ متفکر نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف کی باڈی لینگویج بتارہی ہے کہ وہ '' خوش نہیں ہیں‘‘ ۔ حکمران ایک ایسی محفل میں کیسے متفکر اورگم سم ہوسکتے ہیں جس میں یہ فیصلہ ہوا ہو کہ دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔۔۔عوام کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی اور مجرموں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا۔ اس تصویر نے 1965ء کی یاد تازہ کردی جب پاک بھارت جنگ بندی کے بعد پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم لال 
بہادر شاستری امن معاہدے پر دستخط کررہے تھے۔ اُس تصویر میں ذوالفقار علی بھٹو (اُس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ )گم سم ، اُداس اور متفکرنظر آرہے تھے۔ اُس تصویر نے بھٹو کو پاکستان کا مقبول ترین لیڈر بنادیا اورایوب خان پر یہ الزام لگا کہ اُ س نے میدانِ جنگ میں جیتی ہوئی بازی تاشقند کی میز پر ہار دی ۔ سیاست میں ایک '' زلزلہ ‘‘آگیا۔۔۔تصویر میں بھٹو کے اُداس چہرے نے انہیں ملک کا حکمران بنادیا۔ اب پاکستان کے موجودہ حکمران کی اُداسی اورگہری سوچ میں ڈوبی یہ تصویر بھی کچھ کہہ رہی ہے ۔ تصویر کیا کہہ رہی ہے؟ کِس سے کہہ رہی ہے ؟کیوں کہہ رہی ہے ؟اور اس تصویر میں جو کچھ نظر آرہا ہے اُس پر فوری تبصرہ ممکن نہیں ، پھر بھی یہ تصویر زبانِ خاموش میں نئے سیاسی منظر نامے کی ''پیش گوئی‘‘کررہی ہے۔کہیں یہ تصویر پاکستان میں پھر کسی تبدیلی کی محرک نہ بن جائے ، اس لیے کہ دو سو سالہ صحافتی دنیاکا مشہور مقولہ ہے '' سیاستدان اپنے بیان کی تردید توکرسکتا ہے لیکن تصویرکی آج تک کوئی تردید نہیں ہوسکی ‘‘ ؛ بلکہ اس سے بڑھ کر یہاں تک کہا جاتا ہے کہ '' تصویر کبھی جھوٹ نہیں بولتی ‘‘۔
لگتا ہے ، پاکستان کی سول حکومت کا سسٹم ''فیل‘‘ ہوگیا ہے۔ عوام کو تو چھوڑیے، بچوں نے بھی فوج کو مدد کے لیے پکارا ، اور سیاستدانوں کا یکجہتی کے لیے بلایا جانے والا اجلاس ڈی چوک کو کنٹینر سے تو '' صاف ‘‘کرگیا لیکن عوام کے دلوں میں بیٹھے خوف کو صاف نہیں کرسکا۔
سانحہ پشاور پر کراچی میں ایم کیو ایم کی شہداء اور فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلی کا انعقاد قومی یکجہتی کے لیے '' وٹامن بی کمپلیکس ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پشاوراورکراچی کا دکھ ایک ہونا قومی یکجہتی کا کھلا ثبوت ہے۔کراچی میں بچے ، اساتذہ ، سول سوسائٹی اور ایم کیو ایم سانحہ پشاور پر اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور فوج کو مدد کے لیے بلارہے ہیں ۔۔۔ ہر جگہ فوج کوآوازدی جارہی ہے۔۔۔کیا ہمارے سیاستدان بھی عمران خان کی طرح موقع سے فائدہ اُٹھاکر اِس قوم کی جان نہیں چھوڑ سکتے ؟ 
دہشت گردی کے خلاف ہمارے سجیلے جوانوں کی بندوقوں نے بھی بولنا شروع کردیا ۔۔۔عدالتیں حرکت میں آگئیں۔۔۔سیاسی جماعتیں ایک ہوگئیں۔۔۔سول سوسائٹی نے لال مسجد کا گھرائو کرلیا۔۔۔پھانسی گھاٹ کُھل گئے۔۔۔دو دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔۔۔کبھی گورکنوں کی کمی تھی ، لیکن اب جلادوں کی قلت درپیش ہے۔۔۔کیونکہ جلادوں کے ساتھ جلادوں کی طرح ہی نمٹنا پڑتا ہے۔۔۔! سب کچھ بدل گیا۔
کل تک مذاکرات کی رٹ لگانے والے بھی آج پھانسیوں کی بات کررہے ہیں ، لیکن وہ معصوم بچے والدین کو کون واپس کرے گا ؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ بقول شوکت رضا شوکت :
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ شوکت
کل مری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں