کراچی کے اخبار نے گزشتہ روز دل دہلادینے والی خبر شائع کی۔ یہ کوئی عام خبر نہیں‘ یہ ایسی خبر ہے کہ پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔ رونگٹوں کے ساتھ انسان خود بھی کھڑا ہوجاتا ہے۔ خبر کی سرخیاں ہیں ''شکار پور کے جرگے نے 2 بچیاں ونی کر دیں۔ 3 سالہ بچی کا 36 سالہ شخص اور 6 سالہ بچی کا 40 سالہ شخص سے نکاح کردیا گیا‘‘۔ کچے کے علاقے میں ہفتے کے روز ''کارو کاری جرگے‘‘ میں یہ شرمناک فیصلہ سنایا گیا ۔ اِس دل خراش فیصلے نے اُن تمام پاکستانیوں کا جلوس نکال دیا ہے جو فیشن ایبل کپڑے پہن کر انسانی حقوق کے لئے جلوس نکالتے ہیں اور دہشت گردوں سے دوستی نبھانے کیلئے فوجی عدالتوں کے خلاف تقریریں بھی کرتے ہیں ۔
ذرا سوچئے! ملک میں چلنے والے غیر آئینی‘ غیر قانونی اور غیراسلامی ''جرگہ سسٹم‘‘ نے 3 اور 6 سال کی کم سن بچیوں کی شادی کرادی، 3 سال کی بچی تو تین بار ''ہاں اور نہ ‘‘ بھی نہیں کہہ سکتی لیکن جبراً نکاح کردیا گیااورایسا لگتا ہے کہ پولیس اِن شادیوں کی ''خاموش باراتی‘‘ تھی۔ علاقے کے عوام نے جبر کے ماحول میں اِسے قبول کرلیا۔ ملک کا عدالتی نظام اور ازخود نوٹس لینے کی شاندار روایت بھی ایک نظر اِدھر نہ ڈال سکی۔ مذہبی رہنما اور سیاسی ٹھیکے دار بھی منہ چھپا گئے‘ لیکن فوجی عدالتوں کیخلاف سینہ اور منہ پھلا کر سامنے آگئے تاکہ عوام کو تحفظ دینے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکے۔
کیا ہمارے ملک کی نئی نسل یہ نہیں سوچتی ہوگی کہ وہ کس ملک میں جوان ہورہی ہے‘ جہاں مذہبی سیاستدان سے لے کرروایتی سیاستدان تک کوئی بھی جرگہ سسٹم کے خلاف ایک لفظ نہیں بول رہا۔ اگر ہمارے ''سیاسی وکلاء‘‘ فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کیلئے جاتے ہوئے چند سطریںجرگہ سسٹم اور لیویز سسٹم کے خلاف بھی لکھ دیتے تو ان کی اپیل طاقتور ہوجاتی اور عدالت ایک اچھا فیصلہ دے سکتی تھی۔ یا کم از کم ''جرگہ سسٹم اور لیویز سسٹم‘‘کو غیر قانونی اور غیر آئینی ہی قرار دے دیتی لیکن چونکہ ہمیں ہمیشہ آدھا سوچ بولنے کی عادت ہوگئی ہے‘ اس لئے ہم قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صدر مملکت سے منظور شدہ آئینی ترمیم کے خلاف تو عدالت میں چلے گئے لیکن ظلم کے سب کے بڑے نظام یعنی جرگہ سسٹم اور لیویز کے خلاف نہ کچھ بولتے ہیں اور نہ ہی عدالت کے کھلے دروازوں سے کوئی فائدہ سمیٹتے ہیں۔ ہم سب اُس سچ کیلئے لڑرہے ہیں جس میںہمارے گروہی مفاد ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے کہ ''فوجی عدالتیں‘‘ جائز ہیں یا ناجائز۔ تین چار سیاسی جماعتیں اور گروپ وقفے وقفے سے پارلیمنٹ سے منظور شدہ فوجی عدالتوں کو متنازع بنانے کا کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ جب تک پارلیمنٹ آئین میں ترمیم منظور نہیں کرے گی انہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اب جبکہ پارلیمنٹ کی اکثریت نے فوجی عدالت کیلئے آئینی ترمیم کو حالتِ جنگ میں وقت کی ضرورت قرار دے کر منظور کرلیا لیکن ہر معاملہ میں مخالفت کرنے والوں نے فوجی عدالت کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر اپنی سیاست چمکانے کیلئے گرما گرم بیانات دینا شروع کردئیے ہیں۔ کچھ عناصر نے آئین میں فوجی عدالت کیلئے 21 ویں ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ 21ویں ترمیم کو آئین کا حصہ نہ بننے دے۔ اب اگر مختلف حربوں اور طریقوں سے فوجی عدالتوں کو چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو ایک ایسی قوم جوسانحہ پشاور کے بعد متحد ہوگئی تھی وہ دل شکستہ ہوکر بکھرجائے گی‘ اور دہشت گرد ایک بار پھر جری اور قوی ہوجائیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ انصاف کے ادارے کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ لیکن قوم کو یہ سوال پوچھنے کا حق دیا جانا چاہیے کہ 20 کروڑ عوام کی جان و مال کی اہمیت زیادہ ہے یا پانچ سات ہزار دہشت گردوں کی؟ جو عوام کی جان و مال کے دشمن ہیں اور کھلم کھلا کہتے ہیں کہ نہ ہم پاکستان کو مانتے ہیں اور نہ پاکستان کے آئین کو!! خوب ہیں یہ لوگ !! جو ملک اور آئین کونہ ماننے والوں کیلئے پورے ملک سے لڑرہے ہیں۔ کیا یورپ اور امریکہ کی جمہوریت میں کوئی بھی شخص ایسا کرنے کا سوچ سکتا ہے؟ وہاں تو ہر لیڈر وہی کرتا ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو وہاں کوئی بھی ایسا لیڈر نہیںجو کھلم کھلا کہہ سکے کہ ''خدا کا شکر ہے کہ اِس ملک کو بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں تھے۔ ''پاکستان دنیا کا اس لحاظ سے سب سے بڑا جمہوری ملک ہے کہ یہاں ہر کس و ناکس کو ''بے لگام آزادی‘‘ ہے۔ اِس مملکت خدادادِ میں تو ایسے جلسے بھی ہوئے جہاں ملک توڑنے کی باتیں لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے کی گئیں۔ قومی پرچم کو بھی جلایا گیا لیکن کسی نے اُف تک نہ کی۔ ہر موضوع پر بیان دینے والوں کی۔ پاکستان اور عوام سے وفاداری کے معاملے پر زبان گنگ کیوں ہوجاتی ہے ؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ اب ایک بار پھر پارلیمنٹ کی اکثریت کے ہاتھوں منظور ہونے والی اِس آئینی ترمیم کے خلاف''منظم مہم‘‘منصوبہ بندی کیساتھ چلائی جارہی ہے جس کے نتیجے میں فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔
فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والے لیڈران سے کیا یہ
پوچھا جاسکتا ہے کہ کبھی انہوں نے جرگہ سسٹم کے خلاف بیان دیا؟ اِس کی مخالفت کی؟ کبھی لیویز کے خلاف بولے؟ جرگہ سسٹم دنیا کا سب سے زیادہ ظالمانہ نظام ہے جس کے فیصلے کے خلاف نہ کوئی اپیل کرسکتا ہے اور نہ ہی ''جرگے‘‘ میں بلائے جانے ملزمان کو وکیل کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ''جرگہ سسٹم‘‘ کے ججوں کیلئے تعلیم‘ قابلیت ‘ تجربے اور ذہانت کی کوئی پابندی ہے اور نہ جرگے سسٹم کے فیصلوں کا کوئی ریکارڈ ہوتا ہے۔ جرگہ سسٹم میں اسلام کے مسلمہ اصولوں کے تحت شادی اور نکاح کرنے والے لڑکے اور لڑکی کوسنگسار کرنے اور وزنی پتھر باندھ کر ''دریا برد‘‘ کرنے کی شرمناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ ماضی میں بھی اِسی جرگہ سسٹم کے تحت مختاراں مائی کیساتھ اجتماعی زیادتی کے فیصلے پر سرعام عمل کرایا گیا۔ ایک ''مبینہ خطاکار‘‘ پر کتے تک چھوڑے گئے۔ کئی ایک کے منہ کالے کرکے گدھوں پر سواری کرائی گئی۔ سزائیں بھی ایسی کہ زمین پھٹ جائے اورآسمان خون تھوک دے‘ لیکن کیا کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ جرگے کے ''معزز‘‘ جج صاحبان کس قانون اور آئین کی کس شق کے تحت یہ سزائیں دیتے ہیں اور حکومت یعنی پولیس اور انتظامیہ ان کے سامنے کیوں بے بس ہوجاتی ہے؟
بلوچستان کا لیویز سسٹم اس سے بھی زیادہ منفرد ہے۔ سردار اور اس کے ولی عہد کو جج کے اختیار حاصل ہیں۔ پہلے وہ سزادیتا ہے پھر اپنے علاقے میں صوبائی حکومت کے خرچے پر قائم ذاتی جیل میں رکھ سکتا ہے اور جب چاہے اُس کی سزا معاف کرکے رہا بھی کرسکتا ہے‘ یعنی وہ خود جج بھی ہے اور رحم کی اپیل منظور کرنے کا اختیار رکھنے والا ''صدر‘‘ بھی؛ حالانکہ پاکستان کے صدر کے پاس بھی ایسے اختیارات نہیں وہ تو 58ٹوبی کے بغیر ہالی ووڈ کی ہیروئن کے خاوند جیسا ہے۔ لیویز سسٹم میں ''قانون کی دفعات‘‘ نہیں ہوتیںبلکہ سردار کی مرضی کو ہی قانون سمجھا اور مانا جاتا ہے ۔ لیویز سسٹم میں سردار کو پولیس رکھنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ اپنے علاقے کے کچھ چیدہ لوگوں کو پولیس میں بھرتی کرتا ہے۔ حکومت سردار کو ان کی تنخواہ اور اسلحہ فراہم کرتی ہے اور سردار اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تنخواہ طے کرتا ہے اور بعض علاقوں میں سردار سرکارسے ملنے والی تنخواہ میں سے آدھی یا اس سے کچھ زیادہ تنخواہ آگے دیتا ہے اورباقی اپنے ''ذاتی خزانے‘‘ میںجمع کرلیتا ہے۔ اِس طرح مذکورہ علاقے میں سردار کی علیحدہ حکومت قائم ہوجاتی ہے جس کو سرکاری زبان میں ''ریاست‘‘ کے اندر ''ریاست‘‘ کہا جاتا ہے۔ فوجی عدالتوں اور آئینی ترمیم کیخلاف بولنے والے اس '' ملک گیر ظلم‘‘ کے خلاف بھی لب کشائی کرتے تو ان کی حق گوئی اور صاف گوئی کی کوئی بھی قسم کھاسکتا تھالیکن ''آدھے سچ‘‘ والا ''مکمل انصاف پسند ‘‘ کیسے کہلا سکتا ہے؟۔
جس ملک میں ''جرگے‘‘ کے ذریعے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کئے جائیں‘ وہاں اِس وحشیانہ سسٹم کیخلاف آواز کون بلند کرے گا؟ملک کے دانشوروں اور سول سوسائٹیز کے متحرک اور جوشیلے افراد کو چاہیے کہ وہ جرگہ سسٹم اور لیویز سسٹم کے خلاف ناصرف آواز بلند کریں بلکہ اندرون سندھ‘ اندرون پنجاب ‘کے پی کے اور بلوچستان کے پس ماندہ علاقوں میں جاکر حقائق تلاش کریں اور تحریری رپورٹس جاری کریں۔ یہ معلومات ملک بھر کے عوام کو یہ بات ضرور سمجھادیں گی کہ ہم کس وحشیانہ ماحول میں جی رہے ہیںاور ہمیں اس سے چھٹکارا دلانے میں کون کردار ادا کرسکتا ہے؟یا ہمیں اِسی طرح سِسک سِسک کر مرجانا ہے!