"ISC" (space) message & send to 7575

’’انتخابی موسم ‘‘کی آمد۔۔۔!

سینیٹ کے الیکشن خیروعافیت سے ہوگئے۔۔۔۔کچھ ''اپ سیٹ‘‘ ہوئے۔۔۔۔ کہیں ''ٹرن آئوٹ‘‘انتہائی کم رہا۔۔۔۔کئی ووٹرز کھل کر سامنے آگئے تو آدھی رات کو جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس نے کہیں الیکشن ہی رکوادیا۔لیکن مسلم لیگ ن کے لیے یہ معاملہ پروین شاکر کے شعر جیسا تھا:
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پائوں‘ ہاروں تو پیا تیری
پاکستان میں اس وقت دوالیکشن ''ہاٹ ٹاپک‘‘کی حیثیت اختیارکرچکے ہیں: سینیٹ الیکشن میں ''ہارس ٹریڈنگ‘‘ اور بلدیاتی الیکشن میں غیرضروری التوا کا معاملہ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں بلدیاتی انتخابات کا نظر ثانی شدہ شیڈول داخل کرواکے یہ سمجھا ہوگا فی الحال توہین عدالت کی تلوار ہٹ گئی ہے لیکن یہ انتخابی شیڈول شیخ رشید کی آئندہ الیکشن کی پیش گوئی جیسا تھا جس کے مطابق سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات تین مرحلوں میں ہوں گے۔ پہلا مرحلہ 3 ستمبر اوردوسرا 4 نومبر کوشروع ہوگا ۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے نظر ثانی شدہ شیڈول پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے استفسارکیا کہ پنجاب اور سندھ میں تین مرحلوں میں بلدیاتی انتخابات کاکیا مطلب ہے؟ آخر یہ احسان کس پر ہو رہا ہے؟ اس پر الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کہا کہ انہیں اس کا علم نہیں‘ انہیں توکہا گیا کہ پیش ہوجاؤ اور وہ عدالت کے روبرو حاضر ہوگئے۔ ایسے جواب پر جسٹس جواد ایس خواجہ کی برہمی بجا تھی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، اگر الیکشن کمیشن کو آئین نافذ نہیںکرنا تو بتادیں۔ اگر سیکرٹری الیکشن کمیشن نہیں آئیں گے توکیا الیکشن کمیشن کو تالا لگ جائے گا۔ ہمیں ایسا آدمی نہیں چاہیے جسے کچھ پتا ہی نہ ہو۔ بے شک نائب قاصد بھیجیں مگر یہ تو بتائیں کہ تین مرحلوں کا کیا مطلب ہے۔
ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان بلدیاتی انتخابات کرواکے بازی لے گیا ہے۔ خیبر پختونخوا بھی اس حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کرکے گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں پھینک چکا ہے اوروہاں بلدیاتی انتخابات رواں سال 7 جون کو ہوںگے، یہاں تک کہ کنٹونمنٹ میں پولنگ کا عمل25 اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ لیکن سندھ اور پنجاب اس معاملے میں کوئی ''کمپرومائز‘‘ کرنے کو تیار نہیں۔ پنجاب میں'' شریف پرائیوٹ لمیٹڈ‘‘ اور سندھ میں ''زرداری پرائیوٹ لمیٹڈ‘‘کی وزارتیں ‘ فنڈز‘ مراعات اور بہت سے دیگر''معاملات‘‘بلدیاتی الیکشن کی راہ کی رکاوٹ ہیں۔ واقفانِ حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اِس معاملے میں دونوں پارٹیوںکا ساتھ دے رہا ہے۔
سندھ میں تو صورت حال اتنی خراب ہے کہ کسی کو یہ پتا ہی نہیں کہ چیف سیکرٹری کون ہیں؟ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے سجاد سلیم کی خدمات واپس لینے کے لیے خط لکھا تھا اور ساتھ ہی ساتھ عبدالسبحان کو چیف سیکرٹری سندھ تعینات کرنے کا حکم بھی دیا تھا مگر سجاد سلیم ابھی تک اپنی خدمات بطور چیف سیکرٹری انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے اپنا آفس خالی نہیںکیا جس کی وجہ سے سندھ بیوروکریسی کے سامنے یہ معمہ کھڑا ہوگیا ہے کہ وہ چیف سیکرٹری کے احکامات کو تسلیم کریں یا نہیں۔ جس صوبے میں چیف سیکرٹری کی کرسی کا ہی علم نہ ہو وہاں بلدیاتی انتخابات کے 10شیڈول بھی بنالیے جائیں تو ان کا کو ئی فائدہ نہیں۔
بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو براہ راست ہورہا ہے ۔ جس شہر کی 28 سڑکیں چند ماہ میں تعمیر ہوچکی ہوں، درجنوں انڈر پاس اور فلائی اوور چند سال میں اپنے اوپر ٹریفک کا بوجھ اٹھاکر بلدیاتی نظام کے فوائد ثابت کردیں، وہاں ایک دو سڑکوں پرنمائشی جھاڑو لگاکر اِس نظام کی کمی پوری نہیں کی جاسکتی ۔ جس صوبے کے اپنے وزیر اسمبلی اجلاس کے دوران اپنی ناکامی خودبیان کریں تو اپوزیشن کے لیے کیا کام رہ جاتا ہے ۔ خواب دیکھنے والے وزیر کے نام سے مشہورمنظور وسان بدھ کو اجلاس کے دوران کھڑے ہوئے اورکہا کہ ''سندھ حکومت جتنا ہوسکے کرپشن کرتی ہے‘‘۔ منظور وسان کی زبان سے ان جملوں کی ادائیگی کے بعد اسمبلی ہال قہقہوں سے گونج اٹھا جس پر صوبائی وزیر خود بھی حیران ہوئے اور ہنستے رہے۔ سندھ کے ایک اور ''اہم‘‘ وزیر شرجیل میمن بھی اپنی جذباتی تقریر میں بے ساختہ کہہ اٹھے کہ ''انتخابات میں دھاندلی پیپلز پارٹی کرتی ہے‘‘۔ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ اِسے زبان کا پھسلنا کہیں یا ''اندر‘‘ کی آواز۔
کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ڈھائی کروڑ آبادی کا شہرکراچی ملک کو تو چلا رہا ہے لیکن اپنے بلدیاتی اداروں کو چلانے کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ۔ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز ملازمین کو پنشن نہیں ادا کرسکتی تو واٹر بورڈ کے پاس بجلی کے بل بھرنے کی رقم نہیں۔ ترقیاتی کاموں کی صورت حال ایسی ہے کہ ملیر ہالٹ اور ملیر سٹی کے دو فلائی اوورز دو سال میں بھی تعمیر نہیں ہوسکے۔ اس سے کم عرصے میں دبئی میں کئی بلند ترین پلازے ‘بیشتر شاپنگ سینٹرز اور بے شمار سڑکیں تعمیر ہوجاتی ہیں۔
بھارت میں ہزاروں خامیاں ہوں لیکن جمہوریت وہاںکی ایک خوبی ضرور ہے۔ حال ہی میں عام آدمی پارٹی نے ''جھاڑو‘‘ سے بی جے پی کا صفایا کردیا ۔ بھارت نے حقیقی جمہوریت کے لیے سب سے پہلے جاگیردارانہ نظام ختم کیا اور ہم 67 سال گزرنے کے باوجود وڈیرانہ سسٹم کو کمزور بھی نہ کرسکے ؛ بلکہ ہماری سیاست میں جاگیرداری کے ساتھ صنعت کاری بھی داخل ہوگئی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
فوج کو بار بار بلانے کے مطالبات کی سب سے اہم وجہ آئین کا وہ آرٹیکل ہے جسے مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا۔ 58 ٹوبی اگر آج آئین کا حصہ ہوتا تو فوج کے بجائے صدر پاکستان سے ''مطالبات‘‘ کئے جاتے ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ آج تک 58 ٹوبی سے ''مسلح‘‘ صدرنے کسی کرپٹ حکومت کو چلنے نہیں دیا، چاہے وہ صدر اسی پارٹی کا کیوں نہ ہو، لیکن جب سے یہ آرٹیکل آئین کے صفحات سے باہر ہوا سب کچھ بدل گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات پہلے ہوتے ہیں یا عام انتخابات۔
تازہ پیش رفت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے بلدیاتی الیکشن کے عدم انعقاد کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمشن کی جانب سے پنجاب اور سندھ میں تین مرحلوں میں الیکشن کرانے کا چوتھا شیڈول بھی مسترد کردیا ہے اور حکم جاری کیا ہے کہ دونوں صوبوں میں 20 ستمبر کو بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں