کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز ''نائن زیرو‘‘پر چھاپے اور گرفتاریوںنے ملک کی سیاست میں ہلچل مچادی ۔ابھی سینیٹ انتخابات میں'' خریدوفروخت‘‘ سے ''مُک مکا‘‘تک کا سفر ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ کراچی کو خبروں میں گرم کردیا گیا۔کئی سوال اٹھے ۔کئی جواب بھی ملے ۔لیکن ایک ایسے موقع پر جب چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے نام پر ایسے ہی اتفاق ہورہا تھا جیسے ماضی میں یوسف رضا گیلانی کے نام پر ہوا تھا،مفاہمت کی پتنگ آسمان پر پورے ''جوبن‘‘کے ساتھ اڑرہی ہو ایسے وقت میں کراچی کی ''پتنگ‘‘کو کاٹنے کا خیال کب،کسے اور کیوں آیا؟ یہ وہ سوال ہے جو اب تک ایم کیو ایم کی قیادت کو بھی سمجھ نہیں آرہا ۔ سیاست اور چھاپہ مار کارروائی میں '' ٹائمنگ‘‘ کا کھیل سب سے اہم ہوتا ہے۔ نائن زیرو پر چھاپے کے معاملے پر ملک کی اہم شخصیات اور تاجر برادری بھی تقسیم نظر آتی ہیں۔کچھ کے خیال میں اصل آپریشن اب شروع ہوا ہے تو بعض اِسے کراچی میں'' آخری رائونڈ‘‘قرار دے رہے ہیں۔تاجر برادری ایک جانب خوش ہے تودوسری جانب اُسے امن وامان کی صورتحال تشویش ناک بھی نظر آرہی ہے۔پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کیساتھ سینیٹ میں تو ساتھ نظر آئی، واک آئوٹ بھی کیا لیکن پیپلز پارٹی کو ابھی کئی ''عملی امتحانوں‘‘کی آتش سے گزر کر عشق کو سچا ثابت کرنا ہوگا۔
خبر گرم ہے کہ جلد ہی عزیر بلوچ کو پاکستان لایا جارہا ہے اور وہ جلد ہی ایک ''سابق سلطان‘‘کے خلاف سلطانی گواہ بننے والا ہے اور وہ بہت سی ایسی باتیں بھی منظر عام پرلائے گاجسے سن کر لوگ ششدر رہ جائیں گے ۔ فارم کی مرغیوں نے خوش گوار زندگی کا جو فارمولا ایجاد کیا ہے لگتا ہے سیاسی جماعتیں اسی پر عمل پیرا ہیں ۔جب ایک مرغی ذبح ہورہی ہو تو باقی ''ڈونٹ وری بی ہیپی ‘‘کہہ کر اداس اور افسردہ نہیں ہوتیں بلکہ مست رام بن کر زندگی کے آخری لمحات گزار رہی ہوتی ہیں،کیونکہ صرف وہ نہیں جانتیں کہ ''قصاب‘‘کا اگلا پروگرام کیا ہے ؟حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ باری لگی اور لکھی ہوئی ہے۔
کچھ واقفان ِ حال کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن چیئر مین سینیٹ کی اچانک بلامقابلہ کامیابی کے امکانات کے بعد ہوا۔چیئرمین سینیٹ اُس شخص کو بنایا جارہا ہے جس نے فوجی عدالتوں کے قیام پرچند آنسو بہانے کا ''مظاہرہ‘‘ کیا تھا اور جمہوریت کی بے وقت موت کاڈرائونا خواب بھی دکھایا تھا؛بلامقابلہ متوقع چیئرمین سینیٹ کی بڑی ''خدمات‘‘ ہیں۔انہوں نے 1973ء کے آئین کی 18ویں ترمیم کے ذریعے ایسی ''پلاسٹک سرجری‘‘کی کہ پارٹی سربراہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے کہ کوئی پارلیمینٹیرین پارٹی چھوڑ کر نہیں جا سکتا اور نہ ہی پارٹی سربراہ سے اختلاف کی جسارت کرسکتا ہے۔ضمیر وغیرہ تو پتھر کے دور کی بات بن کر رہ گئی ۔اب تو پارٹی کا ''لاک اپ ‘‘ہے اور اُس میں ''آزاد ‘‘پارلیمینٹیرین !!!۔رضا ربانی صاحب نے یہ قانون بھی بنوادیا کہ نیب‘سپریم کورٹ اور ایف آئی اے کسی موجودہ یا سابقہ پارلیمینٹیرین کو گرفتار نہیںکرسکتے اور نہ ہی کوئی سرکاری ایجنسی اُن سے حساب کتاب لے سکتی ہے۔اگر انتہائی ناگزیر ہو تو پارلیمانی کمیٹی یہ فیصلہ کرے گی کون دودھ کا دُھلا ہے اورکون کیچڑ سے لت پت ؟ کون احتساب کا مستحق ہے اور کون آزادی کا حقدار؟
جس طرح 58ٹوبی کو ختم کرکے وزیر اعظم کو احتساب اور جواب دہی کے ''جمہوری چنگل‘‘سے نکال کر ہرطرح کی آزادی دے دی گئی،تو پھر باقی پارلیمنٹیرینز نے کسی غریب کا کیا بگاڑا تھا۔وہ اِس رعایت سے کیوں محروم رہتے ؟18ویں ترمیم اُن کیلئے پارس ثابت ہوئی جس نے انہیں واقعی ''سونا‘‘بنادیا۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ بھٹو کے جمہوری آئین کا چہرہ جس نے مسخ کردیا اب وہ پاکستان کے سب سے بڑے ایوان کا سربراہ بننے جارہا ہے ۔ترامیم کیلئے ذہانت ایسی کہ دو''بڑوں‘‘کی ''رضا‘‘ شامل ہوئی اور یہ حکم ''ربانی ‘‘بن گئیں۔سب خوفزدہ تھے کہ نواز شریف کی سینیٹ الیکشن میں واضح شکست اور تنہا رہ جانے کے بعد ''بہت کچھ‘‘ہونے کا امکان تھا۔لیکن سیانے کہتے ہیں ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ نائن زیرو پر چھاپہ بہت سی کہانیوں کو بے نقاب کررہا ہے۔ایک ہی دن چھاپہ اور صولت مرزا کی پھانسی کی تاریخ کا اعلان بھی حیرت انگیز ہے۔ الطاف حسین کی رہائش گاہ کے حلقہ انتخاب میں نبیل گبول کی خالی ہونے والی نشست این اے246کے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی تاریخ 19مارچ ہے اور اِسی روز صو لت مرزا کو پھانسی دی جانی ہے جس کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دئیے گئے ہیں۔ نائن زیرو پر آ پریشن کے بعد ایم کیو ایم کے جو شیلے کارکنان اپنا سیاسی جوش خروش کم کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس حلقے میں ایم کیو ایم ایک لاکھ سینتیس ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھی اور اس کے مقابلے پر تحریک انصاف کا امیدوار تھاجس نے اکتیس ہزار ووٹ لئے تھے۔ اگر تحریک انصاف ضد کر کے پھر ایم کیو ایم کے مقابلے پر لڑ نے آ گئی تو الزامات کی لا ٹھیا ں اور گرفتار یوں کی ضربیں کھانے والی ایم کیو ایم کیلئے یہ الیکشن آ سان نہیں ہو گا ۔
1992ء میں ہو نے والے آ پریشن کے دنوں میں ایم کیو ایم نے یہ پا لیسی اپنائی تھی کہ آپریشن کے اعلان کے ساتھ ہی اُس کے تمام کارکنان زیر زمین چلے گئے تھے لیکن اِس بار انہوں نے آپریشن سے بچائو کے سیاسی اقدامات نہیں کئے اور ایم کیو ایم کے کئی اہم لوگ آ سانی سے گرفت میں آ گئے۔1992ء میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا تھا کہ '' ایسی جگہ چھپ جائو جہاں سو رج کی کرن بھی تمہیں نہ دیکھ سکے ‘‘اور آج 2015ء میں الطاف حسین نے آ پریشن کا مقابلہ کر نے والے کارکنوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ''جا نے انجانے میں کچھ غلطیاں ہو گئیںاور اگر کوئی کسی کیس میں مطلوب تھا تو اِدھر اُدھر ہو جاتا نائن زیرو کو مصیبت میں کیوں ڈا لا،پوری دنیا پڑ ی ہے میں بھی تو 25سال سے لندن میں رہ رہا ہوں ‘‘ بدھ کے آ پریشن پر الطاف حسین کا عقل مند کو اشارے والایہ مختصر تبصرہ طویل تقریر سے زیادہ بھاری ہے لیکن اخبار نویسوں کا تجزیہ ہے کہ ایم کیو ایم 1992ء کے آپریشن کے مقابلے میں آج زیادہ با لغ اور سمجھ دار نظر آ ئی۔ایم کیو ایم نے اپنے بیشتر ''سٹائل‘‘ تبدیل کئے ہیں۔کئی دانشو روں کا کہنا ہے کہ 10سال سے کسی اخبار کا بائیکاٹ نہیں ہوا۔اخبار نویسوں اور کالم نگاروں سے بھی ایم کیو ایم کا انداز گفتگو دوستا نہ ہو گیا ہے۔ ایم کیو ایم نے کارٹون کو'' انجوائے ‘‘ کر نابھی سیکھ لیا ہے جبکہ ہمارے باقی سیاستدان بھی تحمل مزاجی کا زیادہ مظاہرہ کر تے نظرآ رہے ہیں۔آپریشن کرنے والوں کو بھی سیاست کاروں کو اصلاح کا موقع ضرور دینا چاہیے۔