"ISC" (space) message & send to 7575

سندھ سکتے میں ہے۔۔۔۔!

کبھی مارشل لاء کی آوازیں تو کبھی گورنر راج کی ہوائیں۔۔۔۔ سندھ میں کیا ہوگا؟
کوئی نہیں جا نتا۔۔۔۔کراچی آپریشن کا انچار ج وزیر اعلیٰ کو بنایا گیا لیکن اچانک تمام ''پاورز‘‘ اپیکس کمیٹی کے سربراہ کورکمانڈر کراچی کو منتقل کردیے گئے اور اپیکس کمیٹی ہی پولیس کی تقرریاں ‘ تبادلے اور تعیناتیوں کی ذمہ دار قرار پائی ہے۔ جب سندھ حکومت نے وفاق کو آنکھیں دکھائیں اور وزیراعلیٰ، کراچی کے ایک ''بڑے گھر‘‘ سے بھیجے ہوئے چیف سیکرٹری کے ہاتھ میں سندھ کی بیوروکریسی کی لگام دینے پر ڈٹ گئے توایسا محسوس ہوا کہ وفاق اپنے اختیارات ''سرنڈر‘‘ کرکے وزیر اعلیٰ کے ''فرمانبردار‘‘ چیف سیکرٹری پر مان گیا۔ لیکن اہل ِ نظر کو بعد میں پتا چلا کہ سرکاری افسران کے تبادلوں اور تقرریوں کے اختیارات بھی آہستہ آہستہ اپیکس کمیٹی کے پاس جانے شروع ہوجائیں گے ۔ کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کا لاڈلا چیف سیکرٹری بہت''ایڈجسٹ ایبل‘‘ ہے، وہ خواہ مخواہ یا مفت کے جھگڑوں میں نہیں پڑتا اور ویسے بھی وہ میمن ہے اور میمنوں کی تویہ خوبی ہے کہ وہ بغیرلڑے ہرمسئلے کا حل نکال لیتے ہیں یا خود کو اُس مسئلے سے ہی نکال لیتے ہیں۔ اِن حالات کے بغورجائزے کے بعد اہل نظر کہتے ہیں کہ سندھ میں غیراعلانیہ مارشل لاء لگ چکا ہے اورپولیس اتنی کنٹرول میں آگئی ہے کہ ایف آئی آر بک رینجرز ہیڈ کوارٹر جا رہی ہے۔ رینجرز کے حکم پر نہ صرف ایف آئی آر کاٹی جارہی ہے بلکہ انگریزی زبان میں کاٹی جارہی ہے۔ سندھ پولیس کی 70 سے 80 سالہ تاریخ میں یہ پہلی ایف آئی آر ہے جوانگریزی میںکاٹی گئی اورسب جـانتے ہیں کہ انگلش ایف آئی آر لندن میں کتنی آسانی سے پڑھی جائے گی۔ اور سب سمجھنے لگے ہیں کہ ایف آئی آرکی اِس پلاننگ کے پیچھے لگتا ہے کہ لندن میں کس کے لیے مشکلات پیدا کرناہیں، اس لیے یہ ایک عام ایف آئی آر نہیں بلکہ عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن وامان کے قیام کے لیے کام کرنے والی ایک موثر ایجنسی کی قانونی شکایت ہے۔کراچی اس معاملے میں خوش قسمت رہاکہ ایم کیوایم نے ایف آئی آر کے معاملے پر احتجاج اور ہڑتال کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ الطاف حسین کے مخالفین کوچاہیے کہ وہ اِس دانائی پرانہیں اعلانیہ شاباش دیں۔ محسوس ہوتاہے کہ یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کرکیاگیا اوراِس میں جذباتیت کا غلبہ نہیں ہے ، ورنہ لڑائی در لڑائی سے کراچی کا امن اور کاروبار دونوں تباہ ہوسکتے تھے۔ لگتاہے کہ اس بار ایم کیوایم اور رینجرز دونوں نے 1992ء کے آپریشن والی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کی ہے۔
ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے پرکراچی میں ردعمل کوایم کیوایم کی مقامی قیادت نے روکا اوردیکھا کہ اِس کے کیا اثرات نکلتے ہیں؟ ایم کیوایم کو یہ بات بھی محسوس ہوئی کہ ابتدائی دنوں میں سیاسی جماعتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، لیکن جلدہی انہیں یہ اندازہ بھی ہوا کہ جب سیاسی جماعتیں طاقتور قوتوں کے قابومیں آجاتی ہیں تو باری باری سب کا صفایا ہوتا ہے۔ابتدا میں یہ بحث چھڑی کہ دوسرا شکار کون ہوگا؟ بلاول ہائوس کا نا م بھی لیاگیا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا حالانکہ خوف اب بھی موجود ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں، سیاسی جماعتیں نہیں رہتیں اور لوٹ مار کے کاروبار میں لگ جاتی ہیں تواِس موقع سے '' کوئی‘‘ بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں سب سے پہلے پیپلزپارٹی کے صوبائی ارکان اسمبلی نے آصف علی زرداری کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں ایم کیوایم کوسندھ کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی۔ ایم کیوایم ابھی تک غور وفکر میں مصروف ہے اورکوئی واضح جواب سامنے نہیں آیا۔ کیا سندھ کی تاریخ میں یہ بھی ہونا ہے کہ ایم کیوایم کے کچھ رہنمائوں کی ''تلاش‘‘ میں اُن کے پیچھے اورکچھ رہنمائوں کے وزیر بننے کے بعد پولیس پروٹوکول کے لیے اُن کے آگے ہوگی اور''ہٹو بچو‘‘ کی آوازیں لگ رہی ہوں گی۔ ایم کیو ایم کو اِس بات پر یقیناً خوش ہونا چاہیے کہ نائن زیرو پرچھاپے کے بعد کراچی شہر کا بڑا حصہ بند ہوا لیکن یہ سوال بھی اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ بغیرکسی اعلان کے شہرخوش دلی سے بند ہوا یا۔۔۔۔؟ ایم کیو ایم کے لیے یہ بہت اچھا موقع ہے کہ وہ اہلیان کراچی اورحیدرآباد کو بتائیں کہ ہم نے آپ کے لیے اتنی خدمات انجام دی ہیں، اتنے ترقیاتی کام کرائے، اتنے پیسے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مضبوط جبڑوں سے نکال کر شہروں کی فلاح و بہبود پرخرچ کیے اور اگریہ خانہ اس قدرمضبوط نہیں تو پھر اِس کی اصلاح ہونی چاہیے تاکہ جب عوام کو پکارنے کی ضرورت پڑے تو انہیں اپنے اوپرکیے جانے والے ''احسانات‘‘ خود بخود یاد آجائیں۔ فیض احمد فیض کی نظم کے چند اشعارکراچی کے حالات پر'' قومی ترانے‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں:
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو‘ فریاد کچھ تو ہو
بیدادگر سے شکوہ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں، بنیاد کچھ تو ہو
کبھی کوئی مریض اسپرین اورپیناڈول سے ٹھیک ہوجاتاہے توکبھی بڑا آپریشن بھی کرنا پڑجاتا ہے۔ ایم کیوایم نے کراچی کے لوگوںکی خدمت بھی کی اور بھلے کام بھی، لیکن وہ بہت کچھ نہیں بھی کرسکے۔ امن وامان ‘ بیروزگاری اورسرمایہ کاری کی بیرون ملک منتقلی کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئی اور پانی پلوں کے نیچے سے گزرتا رہا۔
کراچی ایک کراہتا اور حیدرآباد ایک اجڑتا ہوا شہر ہے ۔۔۔۔ لاقانونیت ‘ بھتہ خوری اور سندھ حکومت کے سرکاری ملازمین کی عدم توجہ نے اِن شہروںکا حُسن اور خوشحالی دونوں کو چھین لیا۔ کراچی اور حیدرآباد کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ سرکاری ملازمتیں حکومت ِسندھ ہڑپ کرلیتی ہے، وسائل لوٹ لیتی ہے ، اربوں روپے کے '' زرعی قرضے‘‘ ڈکارنے والا حکمران ٹولہ کراچی کے صنعتی علاقوں کی سڑکوں کی استرکاری کے لیے بھی تیار نہیںہے اور شہری یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ ''ہم نے کیا کھویا اورکیا پایا؟
ایم کیو ایم اب بھی مضبوط ہے۔ ابتدائی سروے کے مطابق ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کا پلہ بھاری نظر آرہا ہے اور بنی گالہ کی لیڈر شپ کو کراچی میں کھلامیدان ملتا نظر نہیں آرہا۔ عمران خان نے موقعے سے فائدہ نہیں اُٹھایا ، نبیل گبول کے استعفیٰ کے باعث خالی ہونے والے اِس حلقے میں تحریک انصاف نے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی، عمران خان صرف منہ سے ''ہوائی فائرنگ‘‘ کرتے رہے ، ایم کیو ایم پر الزامات برساتے رہے ۔۔۔۔ایسے الزامات جو 20 سال سے لگائے جارہے ہیں۔ اور آج کل تو ایم کیو ایم کو للکارنے کا موسم آیا ہوا ہے ۔۔۔۔ یہ موسم لیپ ایئر کی طرح اکثر آتا ہے۔ 29 فروری بھی چار سال میں ایک بار آہی جاتی ہے۔ اس موسم میں ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم ختم ہوگئی لیکن ہر موسمِ برسات کے بعد ہریالی آجاتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس بار موسم کیسا اور کب تک اپنے جوبن پر رہے گا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں