جب ہوائی جہاز کے پہیے استنبول کی زمین سے ٹکرائے تو تاریخ کا ایک عظیم شہر نگاہوں کے سامنے واضح ہورہا تھا۔ آبنائے باسفورس اور اس کی قدرتی بندرگاہ شاخ زریںکے کنارے واقع ترکی کاشہر استنبول ایک جانب یورپ کے علاقے تھریس اور دوسری جانب ایشیا کے علاقے اناطولیہ تک پھیلا ہوا ہے۔ استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے اور تاریخ عالم میں تین عظیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔
استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ پر مسافروں کا رش اورگہما گہمی اپنی جگہ لیکن نظم و ضبط بتارہا تھا کہ قوم منظم لوگوں سے بنتی ہے۔ مجھے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ جیسے میں دنیا میں آگیا ہوں۔ ایئرپورٹ پر قائم ڈیوٹی فری شاپ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہاںمشرق سے مغرب تک ہر ملک کی اشیاء موجود ہیں۔ ایشیاء کی ثقافت ہویا مغرب کا کلچرآپ کو جو چاہیے یہاںمل جائے گا۔ سلیقے سے رکھی اشیاء اس بات کی گواہ ہیں کہ لوگوں کی زندگی میں ترتیب ہے۔ بے چینی اور افراتفری یہاں کا مزاج ہی نہیں یہ تو پرسکون لوگوں کا شہر ہے۔ جبکہ پاکستانی ائیرپورٹس کی ڈیوٹی فری شاپس اتنی اجڑی ہوئی اور ویران ہوتی ہیں کہ شرم آتی ہے۔ ترکی کے مقابلے میں یہ پرچون کی دکانیں لگتی ہیں اور آدمی کی گردن جھکا جھکا کر دکھنے لگتی ہے۔
جب میں نے ایئر پورٹ سے نکل کر ترکی کی زمین پر قدم رکھا تو میرے ذہن میں اسلامی تاریخ ایک فلم کی طرح چلنے لگی ۔ میں خوش تھا کہ تاریخ ِ اسلام کی ایک ایسی سرزمین پر آگیاتھا جس کی سلطنت کو ''خادمین حرمین شریفین‘‘بننے کا بھی شرف حاصل ہواتھا۔ تاریخ کے سینے پر تمغے کی طرح سجی اتنی بڑی اور وسیع سرزمین پر آنا میرے لئے سعادت کی بات تھی۔ ہمیں ایئرپورٹ سے ہوٹل لے جانے کیلئے آنے والی وین میں کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ میں بچہ نہیں ہوں لیکن اس دن مجھے راحت فتح علی خان کا گانا ''دل تو بچہ ہے جی‘‘سمجھ میں آگیا۔ نئی بنتی ہوئی سڑکیں اور بلند عمارتوں نے خوشی بھی دی اور شرمندگی بھی۔ میں ترکی کی شاندار عمارتوں اور پلاننگ سے بنی عالی شان مساجد کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔ ہمارے ملک میں بھی پلاننگ کے محکمے ضرورہیں لیکن پلاننگ کا نام ونشان نہیں۔ پاکستان میں تو منصوبہ بندی کا محکمہ ''فیل‘‘ ہوگیادیگر کا حال کیا بتائیں؟۔ ہمارے ملک کی مساجد عام عمارتوں کی طرح سیدھی سادی بنائی جاتی ہیں ۔ یہ تو مغلوں کی مہربانی کہ بادشاہی مسجد جیسا یادگارتحفہ دے گئے یا پھر شاہ فیصل جیسے حکمران جدید دور سے ہم آہنگ فیصل مسجد عنایت کرگئے۔ لیکن ترکی میں ایسا نہیںوہاں ہر مسجد کا اپنا علیحدہ حسن ہے ۔ ڈیزائننگ سے مہارت جھلکتی ہے۔ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ فن ِ تعمیر کا شاہکار نمونہ کسے کہا جاتا ہے ؟۔ وہاں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ‘ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور سی ڈی اے جیسے ادارے نہیں ہیں۔ ان اداروں کے افسران شہر نہیں بناتے ، مال بناتے ہیں ۔ اگر یہ ادارے استنبول میں ہوتے تو اس قدر شاندار عمارتیں اور مساجد کی جگہ کھنڈرات اپنی بے بسی کا رونا رورہے ہوتے۔ دنیا اپنے ملکوں کو سنوار رہی ہے ۔ سجارہی ہے ۔ اپنی ثقافت ‘تہذیب اور تمدن کو نمایاں کررہی ہے اور ہم نہ تو لکشمی چوک کی تاریخی عمارتوں کی حفاظت کررہے ہیں اور نہ ایم اے جناح روڈ کراچی میں قابل دید عمارتوں کا ۔
استنبول یورپ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ تاریخ میں استنبول نے اپنے مکینوں کی ثقافت‘ زبان اور مذہب کے اعتبار سے کئی نام بدلے جن میں سے بازنطیم اور قسطنطنیہ اب بھی جانے جاتے ہیں۔ شہر کو ''سات پہاڑیوں کا شہر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کا سب سے قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد قائم ہے۔
استنبول کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ 1993ء میں یہاں کے حالات پاکستان سے بدتر تھے۔ کساد بازاری۔ غربت ۔ مہنگائی ۔ بے روزگاری ۔ جرائم اور منشیات کا استعمال عام تھا۔ لوگ شام کے بعد گھروں سے نہیں نکلتے تھے۔ ترک معاشرہ مکمل طور پر مفلوج ہوچکا تھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ترکی کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں صرف دس سال لگے اور یہ خوشحال، پرامن اور ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرنے والا ملک بن چکا تھا جبکہ پاکستان میں حالات خراب سے خراب تر ہوچکے ہیں ۔ایک نوجوان سے ہوٹل میں گفتگو ہوئی کہ ترکی اتنی ترقی کیسے کرگیا؟کہ اس کی گلیاں نیویارک سے زیادہ جاذب نظر اور لندن سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں ۔کیا یہاں کے حکمران ایماندار ہیں؟جواباً وہ بولا کہ ترک حکمران نوے فیصد کام کرتے ہیں اور دس فیصد ہیراپھیری میں ملوث ہیں لیکن اپنے حصے کا لوٹا ہوا مال ترکی میںہی رکھتے ہیں آپ کے ملک پاکستان میں معاملہ الٹ ہے ۔آپ کے حکمرانوں کا سلوک غیرملکی حملہ آوروں جیسا ہے وہ تو اپنے ملک کو لوٹی ہوئی رقم چھپا کررکھنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے ۔آپ کے ملک کی معیشت تو اتنی مضبوط ہے کہ آپ ایک سال میں ہی ترقی کے سفر کاآغاز کرسکتے ہیںلیکن آپ کے پاس ہمارے جیسے لیڈر نہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا جبکہ اتاترک نے ترکی کی بنیاد لبرل ملک کے طور پر رکھی تھی ۔ لیکن کتنی دلچسپ بات ہے کہ آج پاکستان میں نہ اسلامی قوانین ہیں نہ ہی اسلامی معاشرہ۔ لیکن ترکی میں اسلامی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بتاتا ہے کہ یہاں اسلا م کے کتنے چاہنے والے ہیں۔ ہم نے تو دین کو کاروبار بنالیا۔ لیکن ترکی میں کاروبار اور دین دونوں الگ ہیں ۔ وہاں تو مدرسے بھی کسی سے چندہ نہیں لیتے۔ نہ ہی خیرات اور زکواۃ کے پیسوں پر چلتے ہیں ۔ استنبول کا ایک بڑا مدرسہ16مخیر حضرات کی سرپرستی میں چل رہا ہے ۔ میں نے وہاں کی انتظامیہ سے پوچھا کہ ''اگر ان مخیر حضرات میں سے کوئی انتقال کرجائے یا کسی اور ملک میں سیٹل ہوجائے تو آپ مدرسے کے انتظامی معاملات کیسے چلائیں گے ؟انہوں نے جواب دیا ''جناب ! اتنی طویل ویٹنگ لسٹ ہے کہ آخری مخیر شخص کا نمبر شایدپچیس سال بعد آئے ‘‘میں یہ جواب سن کر چکرا کر رہ گیا ۔ میری نگاہوں کے سامنے پاکستان کے مدارس گھومنے لگے ۔ جن میں سے کئی طلباء سے فیس وصول کی جاتی ہے اور بیشترمعصوم طالب علم چندے کے ڈبے لے کر سڑکوں پرگھومتے پھرتے ہیں ۔ کیا ہمارے پاس مخیر حضرات نہیں ۔ ؟بالکل ہیں لیکن انہیں کسی پر بھروسہ نہیں ۔ جس ملک میں پانی کے کولر کے ساتھ گلاس کو رسی کا پھندہ لگادیا جاتاہو،
فرقہ واریت کے نام پر برین واشنگ کی جاتی ہو ، روٹیوں کی رقم گولیوں پر خرچ ہونے کا اندیشہ ہو ، وہاں اعتماد‘بھروسہ‘ساکھ جیسے الفاظ اپنی حیثیت کھودیتے ہیں ۔ اسلام لوگوں میں توازن پیدا کرتا ہے ۔ محبت اور سکون بانٹنے کیلئے آنے والا اسلام ترکی میں نظر بھی ویسا ہی آتا ہے جیسا یہ اصل میں ہے ۔ ترکی اور پاکستان میں فرق دیکھنا ہو تو آج سے ساڑھے چارسال پرانی ایک تصویر دیکھ لیجئے جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے اور ترکی کے دورے پر گئے تواخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں یوسف رضا گیلانی ان کی اہلیہ فوزیہ گیلانی ‘ترک وزیراعظم عبداللہ گل اور ان کی اہلیہ موجود ہیں۔ ترک وزیر اعظم کی اہلیہ نے سر پر اسکارف ایسے باندھا ہے کہ ایک بال بھی نظر نہیں آرہا جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خاتونِ اول فوزیہ گیلانی کے بال کھلے ہوئے ہیں۔
ترکی میں یورپ کا چہرہ زیادہ نظر آتا ہے جبکہ ایشیا ئی جھلک انتہائی کم ہے ۔شہر کی مختلف کافی شاپس ‘میوزیم ‘شاپنگ سینٹرز اور اہم سڑکیں برطانیہ ‘فرانس اور اٹلی کی''فوٹوکاپی‘‘لگتی ہیں ۔یہاں کی مساجد ایسی ہیں کہ باہر آنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ یہاں مساجد چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔ ہمارے ملک کی طرح تالے نہیں لگائے جاتے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ فجر کی نماز سے ظہر تک مسجد بند ہو اور عشاء کے بعد رات بھر اس ڈر سے تالا لگایا جائے کہ کوئی مسجد سے پنکھا نہ چرالے۔ ہمارے ملک میں تو مساجد میں آخرت سے زیادہ جوتوں کی فکر ہوتی ہے شاید اسی لئے شاعر نے کہا ہے ۔
کہا ایک مولوی نے دیکھ کر جوتا میرے آگے
گر سامنے ہو جوتا تو سجدہ نہیں ہوتا
میں نے کہا بجا ارشاد ہے آپ کا لیکن
گر پیچھے رکھیں جوتا تو پھر جوتا نہیں ہوتا