کراچی کے حلقے این اے 246کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ آج یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ دولہا کون ہوگا؟ ایسا لگ رہا ہے یہ الیکشن نہیں پاک بھارت ورلڈ کپ کا فائنل ہے ۔ ایک حلقے کے ضمنی الیکشن میں پورے ملک کی دلچسپی حیرت انگیز ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کی تو جیسے ''لاٹری‘‘نکل آئی ۔ دیگر خبریں ''مجبوری‘‘ میں نشرکرکے واپس اِسی حلقے میں آجاتاہے۔ تجزیہ نگاروں اور کالم کاروں کی آراء بھی بدلتے دن کے ساتھ تبدیل ہوتی ر ہیں ۔ پہلے تو تحریک انصاف کو جتوادیا گیا تھا اور کہا جارہا تھاکہ لولی‘ لنگڑی‘زخم خوردہ ‘آپریشن زدہ اورنیم بے ہوش ایم کیو ایم تحریک انصاف کا کیا مقابلہ کرے گی ؟بیشتر تجزیہ نگارابتداء میں جماعت اسلامی کوتو بھول ہی گئے‘ لیکن پھر سب نے جماعت اسلامی کا جلسہ دیکھااور ''فیصلہ ‘‘سنایا کہ مقابلہ دو نہیں تین امیدواروںکے درمیان ہے ۔ ایم کیو ایم کے لیاقت آباد میں بڑے جلسے کے بعد جب تحریک انصاف کا جلسہ ہوا تو تجزیہ نگاروں کو تقابل کی اشدضرورت محسوس ہوئی اور جاوید ہاشمی کی کہی ہوئی یہ باتیں درست نظر آنے لگیں کہ ''دھرنے کے دوران کراچی میں ہونے والا جلسہ ایم کیو ایم کے تعاون سے کامیاب ہوا تھا اور عمران خان نے اس کا شکریہ بھی ادا کیا تھا ‘‘۔ کراچی سے شائع ہونے والے ایک ایم کیو ایم مخالف اخبار نے تحریک انصاف کے جلسے کی حاضری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ''مقامی لوگ پچیس جبکہ مضافات کے لوگ پچھتر فیصد تھے‘‘۔ تحریک انصاف کے جلسے میں جب پختون نغمے بجائے گئے تو سب سے زیادہ رقص ہوا ۔ اورجوش و خروش نظر آیا تو سمجھنے والے سمجھ گئے کہ اب مہاجر ووٹر کہاں جائے گا؟
این اے 246 میں ویسے توپورا ملک لیکن بظاہر قومی سطح کی تین جماعتیں حصہ لے رہی ہیں ۔کسی کا حلقہ ‘ کسی کی عزت‘ کسی کی ساکھ‘ کسی کی محنت اور کسی کی وراثت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ یہ حلقہ ہمارا ''قدیم‘‘حلقہ ہے ۔ ماضی میں ہم یہاں سے بار بار کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔ جس کے بعد ایم کیو ایم نے ہم سے یہ حلقہ انتخاب چھین لیا ۔ ایم کیو ایم کہتی ہے کہ جماعت اسلامی نے ماضی میں کبھی کراچی کے عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ کراچی کی بلدیاتی ٹیکس ادا کرنے والی شہری آبادی سے زیادہ کچی آبادی کی دل جوئی میں لگے رہتے تھے اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کچی آبادیوں کو کراچی کے ماتھے کا جھومر قرار دیاتھا جبکہ الزام لگانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے ایک غیر جماعتی میئرعبدالستارافغانی نے کچی آبادیوں کو پہلی بار ٹیکس ادا کرنے والی آبادیوں کے ''منہ کا نوالہ ‘‘چھین کر ترقیاتی فنڈز دیئے‘ سڑکیں بنوائیں اور پانی کے ٹینکر مفت فراہم کئے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہلیان کراچی کا ایک طبقہ متنفر ہوا ۔ جماعت اسلامی کے ایک ترجمان اخبار کے ایڈیٹرمحمد صلاح الدین نے عبدالستار افغانی کے دور ِمیئر شپ کی غلط پالیسیوں کی مذمت کی ایک سخت اداریہ بھی لکھا۔ جس کے نتیجے میں ''وہ‘‘ نکال باہر کر دئیے گئے ۔
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی لڑائی پرانی ہے ۔ اس سے پہلے کہ اس لڑائی کا کوئی فیصلہ ہوتا تحریک انصاف بھی میدان میں آگئی اور انہوں نے یہ دلیل دی کہ 2013ء کے الیکشن میں ہمیں 31ہزار ووٹ ملے تھے اور ہم دوسرے نمبر پر تھے ۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ''اگر کوئی 25سال سے ہتھوڑے سے دیوار توڑنے کی کوشش کررہا ہواس دوران اگر کوئی بلڈوزر لے کر آجائے تو کیا ہتھوڑے والا یہ کہے گا کہ مجھے یہ بلڈوزر دے دو کیونکہ میں نے اتنے سال تک ہتھوڑے مارے ہیں‘‘لیکن جماعت اسلامی کی یہ منطق بھی سمجھ آتی ہے کہ ''یہ ہمارے ہی ووٹ تھے جو دوپہر بارہ بجے کے بعد ہمارے بائیکاٹ کے نتیجے میں آپ کے ''گمنام امیدوار ‘‘کو مل گئے اس لئے اس حلقے پر ہمارا زیادہ حق ہے‘‘۔
جب سیاسی باتیں چوپالوں اور عوامی محفلوں میں آجاتی ہیں تو بحث مباحثوں میں کہی ان کہی بہت سی باتیں آجاتی ہیں ۔ جماعت اسلامی کی خوبیوں کا ذکر بھی ہوتا ہے اور سیاسی ناکامیوں کا بھی۔ جماعت اسلامی نے بحث مباحثہ میں الجھنے سے گریز کی پالیسی اختیار کی‘ لیکن ایم کیو ایم سے کراچی کا اقتدار چھن جانے کا غم جماعت اسلامی آج تک نہیں بھلاسکی۔ دوسری طرف جماعت اسلامی نے کبھی بھی ایم کیو ایم کے خلاف مؤثر اپوزیشن کا کردار تک ادا نہیں کیا۔ جب ذوالفقار مرزا نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے ہزاروں سندھیوں کو کراچی کے نوجوانوں کی حق تلفی کرکے پولیس میں بھرتی کا انکشاف کراچی پریس کلب میں سر پر قرآن شریف رکھ کر کیا تو جماعت اسلامی بھی ایم کیو ایم کے ارکان ِاسمبلی کی طرح خاموش رہی اور کراچی کی حق تلفی دھڑلے سے جاری رہی ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی مشاورت سے معاہدے کے نتیجے میں عمل میں آنے والے کوٹہ سسٹم کے تحت شہروں کا حق 40 فیصد اور دیہی علاقوں کا حق 60فیصد تھا‘ لیکن کوٹہ سسٹم کی دھجیاں اڑتی رہیں‘ کوئی سمیٹنے والا نہیں تھا۔ جمہوریت کا حسن یہی ہوتا ہے کہ مخالف جماعت کی غلطیوں ‘کوتاہیوںاور خامیوں کو اجاگر کیا جائے۔ سطحی جملوں ‘الزامات اور بیانات سے کبھی بھی کوئی پارٹی اپنی کھوئی ہوئی سیٹ واپس نہیں لے سکتی۔
حضرت علی ؓ کاقول ہے کہ ''تجربہ انسان کو غلط فیصلے سے بچاتا ہے لیکن انسان تجربہ غلط فیصلے سے حاصل کرتا ہے‘‘ تحریک انصاف نے جب ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو اس کے پاس نہ کوئی پروگرام تھا اور نہ ہی کوئی نعرہ! ''کنٹینر سیاست‘‘ کی طرز پر انہوں نے نائن زیرو کے سامنے کیمپ لگانے کا اعلان کیا۔ جلسہ کرنے کا مائنڈ بنایا۔ کراچی کو آزاد کرانے کی بات کی؟ ''زندہ لاشوں‘‘کو حقیقی انسانوں میں تبدیل کرنے کا اشارہ بھی دے دیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ''ہم آگئے تو کراچی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں گے لیکن کیسے؟اس کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شاید وہ الیکشن کے بعد بھی اس کا جواب نہ دینا چاہیں گے۔
ایم کیو ایم کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ غلطی کر ہی نہیں سکتی یہ ایک محتاط تجزیہ ہے‘ لیکن اللہ بھلا کرے الطاف حسین کا وہ ہرتھوڑے دنوں بعد رابطہ کمیٹی کے کان اور لگام دونوں ایک ساتھ کھینچ کر اعتراف کرتے ہیں کہ ''رابطہ کمیٹی کام نہیں کررہی ہے ‘‘رابطہ کمیٹی اتنی بار معطل کی گئی ہے کہ اب اس معطلی کی تعداد بھی یاد نہیں رہی ۔چائنا کٹنگ پر شور مچانے والوں کو بھی الطاف حسین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ہی اِس کرپشن کا راز فاش کیا تھا۔
این اے 246کی انتخابی مہم میں بہت کچھ سامنے آیا ۔تجزیہ نگاروں اور کالم کاروں کو بھی سمجھنے کا بھرپور موقع ملا اور آخری ایام میں ایم کیو ایم کو فاتح قرار دے دیا گیا۔ اب یہ بحث جاری ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر کون سی جماعت آئے گی ؟کرکٹ ورلڈکپ کے پاک بھارت فائنل نما اس معرکے کے آخر میں ووٹوں کی گنتی آپ کو بجٹ کی یاد ضرور دلائے گی اور اعدادوشمار کا نیا کھیل شروع ہوجائے گا کہ اگر دونوں جماعتیں مل جاتیں تو اتنے ووٹ ہوتے۔ ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ کی جگہ 80ہزار ووٹ کیوں پڑے؟ تحریک انصاف کے ووٹ کم کیوں ہوگئے؟ جماعت اسلامی کے ووٹ کیسے بڑھ گئے؟
وغیرہ وغیرہ ۔پوری دنیا میں ضمنی الیکشن کاٹرن آئوٹ عام انتخابات سے کم رہتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں12اپریل کو ضمنی انتخاب ہوا۔کوئی جوش وخروش نہیں تھا ۔ممبئی اور سانگلی میں ہونے والے ان انتخابات میںٹرن آئوٹ صرف 42فیصدرہا جو عام انتخابات کے نصف کے برابر تھا۔ اس لئے ضمنی انتخاب کاعام انتخابات سے موازنہ کرنا عقلمندی نہیں ۔صرف ایک حلقے میں عام تعطیل کیسے ممکن ہے ؟وہاں کی مارکیٹوں اور بازاروں میں دوسرے حلقے کے لوگ کام کرتے ہیں جبکہ اُس حلقے کے ووٹرز کی دکانیں شہر کے دیگر علاقوں میں بھی ہوسکتی ہیں۔جہاں نہ عام تعطیل ہے نہ ہی بینک اور دیگر وفاقی ادارے بند ہوں گے‘ انہیں حصولِ رزق اور ووٹ میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا اور ابھی ہم اتنے ترقی یافتہ نہیں ہوئے کہ ووٹ کیلئے اپنا کاروباراور روزگار ''قربان‘‘کردیں۔
این اے 246کے ضمنی انتخابات نے عام مہاجروں کے درمیان اس قسم کے سوالات کو ابھارا کہ اس حلقے سے تین بار غیر مہاجر کو کیوں پارٹی ٹکٹ دیا گیا؟اگر اِسی حلقے سے قومی اسمبلی کا رکن پہلے ہی اردو سپیکنگ ہوتاتو عمران خان کی شکل میں اتنے سوال جواب پیدا نہ ہوتے اور پارٹی کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آج سے قبل اس حلقے سے نثارپنہور(سندھی)‘ عبدالعزیز بروہی(بلوچ)اور نبیل گبول (کراچی کا پیدائشی بلوچ)کو کامیاب کرایا گیا لیکن وہ مہاجروں کو مطمئن نہیں کرسکے۔ ایم کیو ایم کئی بار حکومت میں آتی اور جاتی رہی‘ لیکن وہ سب کے کام نہ کرسکی۔ کوئی بڑی پالیسی نہ بناسکی اُسے اقتدار میں حصہ تو ملتا رہا لیکن مکمل اقتدار نہیں ملا ۔اب پہلی بار ایم کیو ایم حیدرآباد سے کنور نوید جمیل کو لے کر آئی ہے ۔ایم کیو ایم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کا مہاجر اصلی اور ربڑی کی طرح میٹھا ہوتا ہے لیکن حلقہ این اے 246کے ووٹرزکس کو زیادہ میٹھا تسلیم کرتے ہیں اس کا فیصلہ ووٹروں کو کرنا ہے اور آج رات تک سب کچھ منظر عام پر آجائے گا۔