"ISC" (space) message & send to 7575

…اوراب پیپلزپارٹی!!

ابھی ایم کیو ایم بقاء کی جنگ لڑرہی تھی کہ اچانک پیپلزپارٹی اندرونی'' بغاوت‘‘ کا شکار ہوگئی یا کردی گئی... ایک مرزا ایم کیو ایم کے خلاف جیل سے بول رہا تھا تو دوسرے مرزانے پیپلزپارٹی کے خلاف دریائے سندھ کے کنارے آباد شہر سے طنز اورالزام کے نشتر برساناشروع کردیئے... صرف یہی نہیں سلطان راہی سٹائل میں اپنے آبائی حلقے بدین میں ''دہشت ناک‘‘انٹری دی‘ ایسی کہ تھانے پر حملے سمیت مخالفین کی دکانیں بھی بند کروادیں۔ پیپلز پارٹی نے اس کے ردعمل میں جو محاذ کھولا اُس میں حیرت انگیز طورپرخواتین کو آگے لایا گیا۔ نصف درجن اراکین اسمبلی نے پریس کانفرنس میں ذوالفقار مرزا کو چوڑیوں کے تحائف سمیت ''مردانہ وار‘‘چیلنجزبھی دیئے‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یاتو پیپلزپارٹی کے پاس کوئی ''بہادر‘‘مرد نہیں یاپھر پی پی کی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ''لڑاکا‘‘ہیں۔
گزشتہ چند روز سے پیپلز پارٹی کے سرکل میں یہ افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ایک اہم طبقے کے خلاف آپریشن ہونے والا ہے اور کئی اہم اور نامور رہنمائوں سمیت 3وزراء کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔ ان گرفتاریوں سے پیپلز پارٹی کے حلقوں میں بھگدڑمچ سکتی ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے دو طبقوں میں تقسیم رہی ہے‘ ایک وہ سیاسی کارکن جو جیالے کہلاتے ہیں‘ دوسرا وہ مفاد پرست ٹولہ جو اقتدار کی بھینس سے دودھ نکالنے تو آجاتا ہے لیکن تکلیف اور مصائب کے دنوں میں'' سلیمانی ٹوپی‘‘ پہنے بغیر غائب ہوجانا اُن کی روایت ہے۔ اور اگر اب بھی کوئی کارروائی ہو ئی تو یہ ٹولہ دم دباکر اندرون ِسندھ یا بیرون ِملک روپوش ہوسکتاہے۔ اور پارٹی کے اصل جیالے مصائب‘مشکلات اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے اور پارٹی کو بچانے کیلئے ایک بار پھربادل نخواستہ آجائیں گے کیونکہ یہ کارکن پیپلز پارٹی کا سیاسی اثاثہ ہیںیہ لوٹ مار پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اُن کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ آگے ‘پیچھے‘ اوپر ‘نیچے ‘اندر‘ باہرکہیں چھپ سکیں‘ فرار ہوسکیں یازیر زمین ہی چلے جائیں۔
پیپلز پارٹی اس وقت ذہنی انتشار کا شکار ہے ...کارکن کھلے عام شکوہ کرتے ہیں کہ پارٹی قیادت نے مسلسل غلطیاں کی ہیں اور اُن کی زیادہ توجہ ترقیاتی کام‘عوامی خدمت اور پارٹی کارکنوں کی دیکھ بھال کے بجائے اپنی ''معاشی نشوونما‘‘پر مرکوز رہتی ہے۔ پارٹی قیادت نے صورتحال دیکھ کر گزشتہ ماہ کے اواخر میں ککری گرائونڈ میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا تاکہ لیاری میں ''ری انٹری‘‘ کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس جلسہ عام کی خوبی یہ تھی کہ کارکن'' جوش‘‘ میں اور قیادت ''ہوش‘‘ میں تھی۔ لیڈران پچیس سے پینتیس منٹ کیلئے ایسے آئے جیسے کسی کی عیادت کرنی ہو اور برق رفتاری کے ساتھ واپس چلے گئے۔ لیاری کیلئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے اس جلسہ عام کیلئے کراچی کے اہم مقامات پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے لیکن ایسے اعلان نے پیپلز پارٹی کو سندھ سے سمیٹ کر ایک حلقے (لیاری)تک محدود کرلیا۔ آصف زرداری ضلعی صدر نہیں قومی سطح کی پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ انہیں کم از کم لیاری سمیت کراچی بھر کیلئے ترقیاتی پروگرام کا اعلان کرنا چاہیے تھا‘ پھرچاہے وہ اور وزیر اعلیٰ سندھ حسب روایت اس پر عمل نہ کرتے لیکن کراچی کے شہریوں کو ماضی کی طرح ایک اور ''تسلی‘‘ضرور مل جاتی ۔
لیاری کے جلسہ عام کو پیپلز پارٹی کی بکھری ہوئی قیادت کو جمع کرنے کا مظاہر ہ قرار دیا گیا۔ سیاسی لفظوں میں یہ طاقت کا مظاہرہ تھا جو پانچویں‘چھٹے روز سوگ میں تبدیل ہوگیا‘ جب پیپلز پارٹی کے ایک وزیر جاوید ناگوری کے ڈیرے پر بم حملہ ہوا جس میں ان کے بھائی اکبر ناگوری کی المناک شہادت ہوئی اور یہ واقعہ دکھ اور اذیت کی ایسی لکیر چھوڑ گیا جسے کوئی نہیں مٹاسکتا۔ یہ ایسا پیغام تھا جسے جاوید ناگوری سمیت تمام جیالے سمجھ گئے جبکہ بعض نے تو اسے پی پی جلسے کا ''بدلہ‘‘بھی قرار دیا...اس حملے کے فوری بعد ذوالفقار مرزا کے گرماگرم بیانات سامنے آگئے۔ پولیس کو شک ہے کہ یہ حملہ کالعدم پیپلزامن کمیٹی یا گینگ وار والوں نے کیا۔ ماضی میںذوالفقار مرزا نے امن کمیٹی والوں کو اپنے بچے قرار دیاتھا۔ جب سیاست حکومتی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر ہوتی ہے تو جیالے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتے۔ گزشتہ ماہ کے
اوائل میں پیپلز پارٹی کراچی کے صدر اپنی سیاست اور زیست کے سب سامان سمیٹ کر لندن فرار ہوگئے۔ ایک طرف لیاری کا محاذ گرم تھا تو دوسری جانب بدین میں ذوالفقار مرزا نے بغاوت کی آگ بھڑکا دی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ابتدامیں صوبائی حکومت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر ''شکار‘‘ کرنا چاہالیکن جلد ہی پارٹی کو یہ بات سمجھ آگئی کہ مرزا سے گرم ماحول میں لڑائی ہوئی تو وہ ایک ایسی دلدل میں پھنس جائیں گے جس میں سے نکلنا مشکل اور نکالنے والوں کے خود ''دھنس‘‘ جانے کے اندیشے زیادہ ہوجائیں گے۔ اس لئے پیپلز پارٹی نے ان کی گرفتاری موخر کردی اور پورے سندھ میں جائزہ لینا شروع کردیا کہ ذوالفقار مرزا کی حمایت کون کون سے اضلاع میں ہوسکتی ہے؟یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ ہمارا ''قلعہ بندلیڈر‘‘کس طرح اُس کا مقابلہ کرے گاجو تھانوں میں گھس جاتا ہے‘ ٹیبل کے شیشے توڑدیتا ہے‘موبائل پھینک دیتا ہے اور ڈی ایس پی کو دھمکیاں دے کر اپنا ساتھی چھڑاکرلے جاتا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی ان سے لڑتی ہے اور بدین میں لگنے والی آگ کے شعلے پورے سندھ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں تو کراچی آپریشن کا نام ''سندھ آپریشن‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اردو محاورے کے مطابق ''آگے کنواں پیچھے کھائی‘‘والی پوزیشن میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں