آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی‘ دنیا کے کئی ممالک ایک بے رنگ‘ بے بو‘بے ذائقہ لیکن اہم بنیادی ضرورت کیلئے ایک دوسرے پر حملے کریں گے‘ پستول سے لے کرمیزائل تک استعمال ہوں گے۔مارا ماری ‘کھینچا تانی اورافراتفری کا بازار گرم ہوگا۔ یہ تمام باتیں مستقبل کے حوالے سے ہیں لیکن کراچی میں ابھی سے خانہ جنگی کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔ کراچی کو پانی کی فراہمی میں روز بروز کمی اور بحران سنگین تر ہوتا جارہا ہے ۔ شہر کا 80 فیصد علاقہ اس بحران کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ شہری بالٹیاں‘ گیلن‘ دیگچیاں اور بوتلیں لئے گھوم رہے ہیں‘ لیکن پانی کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں‘ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ پانی کا بحران کیوں پیدا ہوا؟ کس کی وجہ سے ہوا؟
کراچی کیلئے پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ کینجھر جھیل اور حب ڈیم ہیں۔ کراچی سے ایک سو بائیس کلومیٹر کی مسافت پر ضلع ٹھٹھہ میںواقع کینجھر جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ 24 مربع کلومیٹر پر محیط یہ جھیل کراچی کیلئے فراہمی آب کا اہم ذریعہ ہے۔ آپ اگر کینجھر جھیل پر جائیں تو وہاں اتنا پانی ہے کہ جھونپڑا ہوٹلوں سمیت دیگرتعمیرات پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہاں پکنک کیلئے آنے والوں کو کنارا بہت مشکل سے ملتا ہے لیکن کراچی میں پانی کا بحران ہے۔ یہ پانی پہلے ہالیجی جھیل اور پھر دھابے جی پمپنگ اسٹیشن پہنچتا ہے جہاں سب سے پہلے کے الیکٹر ک کا عتاب بھگتنا اس کا مقدر ہے۔ پمپنگ اسٹیشن بجلی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے بند رہتا ہے جس کی وجہ سے پانی کوپہلا'' فل اسٹاپ ‘‘لگ جاتا ہے۔ بجلی کی بحالی کے بعد پانی کا سفر کراچی کی جانب شروع ہوتا ہے لیکن پھر پورے راستے لائنوں میں ''کنڈوں‘‘کی وجہ سے پانی کی رفتار اور پریشر بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
کراچی کو پانی کی فراہمی کا دوسرا بڑا ذریعہ حب ڈیم ہے۔ دریائے حب پر کراچی سے 56 کلومیٹر دور سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع یہ ڈیم 29ہزار 300 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں آٹھ لاکھ 57 ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ پاکستان کا یہ تیسرا بڑا ڈیم 1981ء میں تعمیر ہوا۔ دریائے حب بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں کوہ کیرتھر سے شروع ہوکر بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اپنے آخری حصے میں یہ دریا صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے مابین سرحد بناتا ہے لیکن یہاں سے پانی کی سپلائی کی صورتحال بھی انتہائی سنگین ہے۔ یہاں سے بھی پانی کی سپلائی میں دس کروڑ گیلن یومیہ کی نمایاں کمی ہوئی ہے یا کی گئی ہے۔ ''کنڈامافیا‘‘جہاں اپنا کام ''دیانتداری‘‘ سے کررہا ہے وہاں رہی سہی کسر واٹر ہائیڈرنٹس پوری کردیتے ہیں۔ 20
کروڑ گیلن پانی کی چوری روکنے میں ناکام سندھ حکومت کراچی کے شہریوں کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی کہ انہیں پائپ لائنوں کے ذریعے پانی فراہم کیا جائے۔ کمائی کے ''ہیڈ کوارٹر‘‘ کو کوئی مفت میں پانی کیوں دے؟واٹر ٹینکرمافیا کے ذریعے خوب ''لوٹ مار‘‘کی جاتی ہے۔ واٹر ہائیڈرنٹس پرنہ پانی کی قلت ہوتی ہے نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ۔ ''پانی بیچو اور پیسہ کمائو‘‘پالیسی اس وقت پورے کراچی میں چھائی ہوئی ہے۔ کراچی کی صنعتیں ابھی لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت کے ''جھٹکے‘‘برداشت ہی نہیں کرپائی تھیں کہ پانی بحران کے ''آفٹر شاکس‘‘نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ ایسا لگتا ہے کہ صنعت کاروں کو جان بوجھ کر بھگایا جارہا ہے‘ کہ جائو کہیں اور جاکر فیکٹریاں لگائو۔ کراچی میں کیا رکھا ہے؟پورے ملک کو ریونیو کا ستر فیصد فراہم کرنے والا کراچی شہر آزادی کے 68سال بعد بھی ضرورت کے مطابق پانی نہیں حاصل کرسکا‘ پوری دنیا میں کیا مقام حاصل کرے
گا؟کراچی میں پانی کی چوری کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سیاستدانوں کی آخری لوٹ مار ہے؛ جبکہ ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ چونکہ ایم کیو ایم آج کل ''آپریشن ٹیبل‘‘پر ہے تو دیہی حکومت آزادی سے کراچی میں اپنا ''کاروبار‘‘ کررہی ہے۔ کئی سال پہلے ایک جج نے مقدمے کے دوران حکومت ِ سندھ کے افسران سے سوال کیا تھاکہ نلکوں کیلئے پانی نہیں ہے تو واٹر ٹینکروں کیلئے کہاں سے آجاتا ہے؟
کراچی واٹر بورڈ نے تسلیم کیا ہے کہ پانی چوری بھی ہورہا ہے اور مشینری بھی اس قابل نہیں رہی کہ ''ڈیمانڈ اینڈ سپلائی‘‘ فارمولے کے تحت پورے شہرکوپانی فراہم کرسکے۔ کراچی واٹر بورڈ کی جانب سے واٹر ٹینکرز کے ذریعے مسئلے پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میںاخبارات میں اشتہارات دئیے گئے کہ ایک ہزارگیلن کا واٹر ٹینکر ہزارروپے اور 2ہزارگیلن کاٹینکر 1300 روپے میں دیا جائے گا تاکہ شہریوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے‘ لیکن اگلے ہی روز زائد رقوم کی وصولی کی دوسو سے زائد شکایات نے واٹربورڈ اور سندھ حکومت کی نااہلی کے تمام پول کھول دیئے۔ واٹر بورڈ کی جانب سے اورنگی ٹائون اور نارتھ کراچی سمیت دیگر مضافاتی علاقوں میں 200مفت ٹینکرز فراہم کرنے کا اعلان بھی محض اعلان ہی رہا عملاً کچھ بھی نہیں ہوا۔
پانی کا مسئلہ سندھ اسمبلی میں پہنچا تو بعض ارکان نے کراچی واٹر بورڈ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔ تحریک التواء کے محرک ایم کیو ایم کے محمد حسین کا کہناتھا کہ کراچی کے ڈھائی کروڑ شہری پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اسمبلی میں یہ آوازیں بھی اٹھیں کہ ٹینکر اور ہائیڈرنٹ مافیا کی سرپرستی کون کررہاہے؟یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ کراچی میں پانی پر فسادات ہوسکتے ہیں‘ لیکن پانی کے بحران کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔
کراچی میں پانی کے نلکوں میں گیس‘ توپنجاب میں گیس کی لائنوں میں پانی آرہا ہے‘ خیبر پختونخوا میں بجلی آنے کے اوقات پانی جیسے ہیں‘ یعنی چوبیس میں سے صرف چار گھنٹے‘ تین صوبوں میں پانی ‘گیس اوربجلی کا بحران ''گڈ گورننس‘‘ کی بدترین مثال ہے ایسی صورتحال میں بلوچستان حکومت کو تو ایوارڈ دینا چاہیے کہ وہ بحرانوں میں دیگر ترقی یافتہ صوبوں سے تو کم از کم پیچھے ہے۔ کراچی میں بارش کی دعائیں مانگی جارہی ہیں۔ استسقاء کی نمازیں پڑھی جا رہی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی امامت میں نماز استسقاء کی پہلی صف میں پوری کابینہ اور پیچھے ارکان اسمبلی باجماعت کھڑے ہوں گے اور اخبارات اس کی خبر دیتے ہوئے سرخی جمائیں گے ''سندھ حکومت نے اللہ تعالیٰ سے جلد از جلد موسلادھاربارش کا پرزورمطالبہ کردیا‘‘۔