پاکستان اِس وقت گرم موسم اور میڈیا کی سخت ترین لڑائی میں مبتلاہے۔ مارو یا مرجاؤ! کبھی یہ محاورہ تھا لیکن آج ملک گیر لڑائی کا سلوگن ہے۔ آزادی صحافت اور اظہار رائے کی لڑائی لڑنے اور آپس میں دست و گریباں ہونے والوں نے مدّمقابل کو روکنے اور اُسے تباہ و برباد کرنے کے لیے ٹِکر سے لے کر ڈی ایس این جی کا پورا زور لگا رکھا ہے۔ ایک ہی مقصد ہے ''بچ کے نہ جانے پائے‘‘ ، ایسا لگ رہا ہے ایک نیام میں دو تلواریں نہ آنے کا محاورہ ''بول‘‘کے نام وقف کردیا گیا ہے؛ حالانکہ اس نیام میں پہلے ہی آٹھ سے دس بڑی تلواریں موجود ہیں۔ ایف آئی اے کے دفتر میں قید ایک نوزائیدہ ٹی وی باس کو یہ بتایا جارہا ہے، سمجھایا جارہا ہے اور جتلایا جارہا ہے کہ دنیا میں جو چاہو کرو بس ہمارے مقابلے پر مت آئو ورنہ نیست و نابود کردیے جاؤ گے۔ مذکورہ نوآموز چینل کے مالک کو قید کروا کر‘ الزامات کے طوفان میں اس کے جہاز کو گرا کر‘ ہاتھ پاؤں باندھ کر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ''آؤ ہم سے کشتی لڑو‘‘۔۔۔۔۔''آؤ ہم سے کرکٹ کھیلو‘‘ ۔۔۔۔۔ آئو ہمارے ٹیلی ویژن کی ریٹنگ کم کرو‘‘ ! پاکستان کی تاریخ کی یہ واحد لڑائی ہے جس میں بعض سرکاری حکام ریفری نہیں بلکہ سہولت کار ہیں۔ وہ مخالف کی ٹانگ پرچوٹ مار کر یہ علاج تجویز کرتے ہیں کہ ''ٹانگ کاٹنی پڑے گی‘‘۔ مریض تڑپ کر کہتا ہے: ''اِس میں تو صرف سوجن ہے ٹانگ کیوں کاٹ رہے ہو؟‘‘ لیکن اس کا جواب نہ حکمران دے رہے ہیں نہ ہی مخالف۔۔۔۔۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ یہ کیا تماشا ہے؟ جواب حاضر ہے۔
سولہ سال پہلے پاکستان کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن چینل کا نام پی ٹی وی تھا۔ رات 9 بجے کے خبرنامے کاانتظار پورا دن کیا جاتا تھا۔ سچ یا جھوٹ خبریں دیکھنا مجبوری تھی کیونکہ کوئی اور ''چوائس ‘‘ہی نہیں تھی۔ اس کے بعد ملک کا پہلا سیٹیلائٹ ٹیلی ویژن ''انڈس‘‘ آیا جس نے پی ٹی وی کے آدھے ناظرین کھینچ لیے۔ انڈس ٹیلی ویژن نے جشن فتح کے تین ‘ چار سال موج مستی میں گزارے ، اچانک سابق صدر پرویز مشرف نے اے آر وائی کو لندن اور دبئی سے پاکستان آنے اور پاؤں جمانے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد جیو آیا۔ بس پھر کیا تھا، اے آر وائی نمبر ون ٹیلی ویژن چینل بن گیا، پی ٹی وی اور انڈس پیچھے رہ گئے۔ پھر جو آیا اس پر نمبر ون بننے کا جنون سوار ہوگیا اور''تخت ِ سیٹیلائٹ‘‘ پر جوچینل سوار ہوا اُس کا پہلا ٹارگٹ یہی تھا کہ اب وہ کسی کو خالی میدان نہیں دے گا۔ اوروہ یہ سمجھتا کہ تاقیامت نمبر ون رہنا اس کا پیدائشی حق ہے۔ کراچی کی حالیہ یک طرفہ میڈیا وار اسی سلسلے کی کڑی ہے۔۔۔۔ '' ہمیں نہ للکارو تو مزے سے جیو!! اگر نمبر ون بننے کی کوشش کی تو آزادی صحافت کے محافظ وزیر اطلاعات سے نوٹس جاری کروادیں گے کہ چینل بند کردو، سب کو گھر بھیج دو‘‘۔ اور الزام صرف یہ ہے کہ آپ کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے جس کا ابھی نتیجہ نہیں آیا۔ اِس کو کہتے ہیں مقدمے سے پہلے سزا ! پاکستان میں قانون تیزی سے حرکت میں آنے کی وجہ اب ناظرین و قارئین بھی جان چکے ہیں۔ کبھی اس قسم کی سزائیں اندھیر نگری چوپٹ راج کے دور میں ہوتی تھیں، یہ لڑائی اشتہار لینے کی نہیں بلکہ جو اشتہارات مل رہے ہیں اس کو روکنے کی ہے کہ وہ کہیں ''اور‘‘ نہ چلے جائیں۔
ایگزیکٹ کے دفتر پر چھاپے کے ساتویں روز جب لاکھوں ڈگریاں برآمد کی گئیں تواہل عقل حیران رہ گئے کیونکہ پہلے دن ہی ایگز یکٹ کے دفتر پر ایف آئی اے نے ''قبضہ‘‘کررکھا تھا۔ حیرت تو یہ ہے کہ ساتویں روز اچانک وہاں کے ایک کمرے سے ڈگریاں برآمد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اتنے عرصے میں وہ ڈگریاں کہیں اور منتقل بھی نہیں کی گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ان ڈگریوں کا کارڈ اتنا ہلکا اور لچک دار تھاکہ ایک ہاتھ سے پکڑا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ پرنٹنگ کی خوشبو اِن کے کرارے ہونے کا راز کھول رہی تھی۔ جعلی ڈگری تو اصلی سے بھی زیادہ خوبصورت اور اچھے مٹیریل سے تیار کی جاتی ہیں۔ سکیورٹی کارڈ ‘ واٹر مارک اور طباعت ، ہر پہلو کا خیال رکھا جاتا ہے۔ سو روپے کے نوٹ کی مثال لے لیں، اس پر بھی دھاتی تار اور واٹر مارک کا استعمال کرکے اسے جاذب ِ نظر بنایا جاتا ہے ۔
کمال سیاست دیکھیے، اُس چینل کو جبراً بند کرایا جارہا ہے جو ابھی ناظرین کے سامنے ہی نہیں آیا۔ بنی اسرائیل کے بچوں کو بھی پیدا ہونے کے بعد قتل کیا جاتا تھا، اکیسویں صدی میں بچوں کو قتل کرنے کا نیا طریقہ نکالا گیا ہے، آقا اپنے ماتحت ادارے کو خط لکھ رہا ہے ''بول کو بولنے نہ دو‘‘۔ پہلے یہی کام ڈکٹیٹر کرتے تھے لیکن اب یہ کام فرمائش پر منتخب اشخاص کریں گے۔ کیا یہ قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں کہ شیر ہرن کے لشکر سے خوفزدہ ہوکر درخت پر چڑھ گیا ہے تاکہ جان بچاسکے۔ جن صحافیوں نے جدوجہد کر کے آزادی صحافت کا قلعہ فتح کیا ہے آج وہ یقیناً اداس ہوں گے کیونکہ اب اجارہ داری برقرار رکھنے کا واحد طریقہ یہی دریافت ہوا کہ چینل کی نسل کُشی کی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ قدرت کا قانون کیا فیصلہ کرتا ہے۔
حکمرانوں کو شک میں بھی مبتلا کردیا گیا کہ ہوسکتا ہے''بول‘‘ نادیدہ قوتوں کے کام آنا شروع کردے، پھر ''سویلین چینل‘‘ کا کیا بنے گا؟ اِس لیے اس کو پرواز سے پہلے ہی مار دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ بھی رن وے پر ادا کی جائے۔ اسی لیے اتنی اندھا دھند خبریں گھڑی گئیں کہ اہل نظر کو یقین آجائے۔ صرف سچے اور کھرے وہی ہیں جنہوں نے نہ ہی کوئی رقم خرد برد کی نہ ٹیکس روکا ہوا ہے، یہ لوگ دودھ کے دھلے اور گنگا کے ''اشنان شدہ ‘‘ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ''سچا وہ ہے جس کا چینل آن ایئر ہے‘‘ ۔ سنگسار کرنے کے لیے بھی پتھر اسے مارنا چاہیے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔کامران خان نے ''بول‘‘ میں نوکری کے آخری دنوں میں ''بول‘‘ کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ ''یہ لوگ بھی پاک صاف نہیں ہیں، سب خامیوں سے بھر پورہیں، مسٹر'' کلین‘‘ کوئی بھی نہیں‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا تھا: '' جب تم یہ دیکھو کہ کہیں دولت کے ڈھیر ہیں تو سمجھ لینا کہ کسی کا حق مارا گیا ہے‘‘۔ اس ملک میں یہ دن بھی آگیا کہ حق مارنے والے اب ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لڑتے لڑتے مرجائیں اور عوام کی عید ہوجائے۔ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔