"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی میں لاشوں کی ’’بارش‘‘…!

سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں سیکڑوں لوگ مر رہے ہیں‘ لیکن حکومت سندھ کے پاس میتیں قبرستان تک پہنچانے کی سہولت تک نہیں ہے۔ کراچی میں گرمی کا پارہ 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک کیا پہنچا، سب کے پول کھل گئے۔ کے الیکٹرک سے لے کر اسپتالوں اور مردہ خانوں تک کی صورت حال ''ایکسپوز‘‘ہو گئی۔ سبی اور جیکب آباد میں گرمی شروع ہوتے ہی پارہ 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے، لیکن اموات اتنی نہیں ہوتیں۔ بات سیدھی سی ہے، ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کی بجلی سردیوں میں بھی بند کر دیں تو کچھ لوگ تو اس وقت بھی مر ہی جائیں گے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں تو درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر ہی رہتا ہے لیکن وہاں کے رہائشیوں کو آج تک محسوس ہی نہیں ہوا کہ گرمی کیا ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں تو اس سال شدید ترین گرمی پڑ رہی ہے اور پیش گوئی کی مطابق درجہ حرارت 65 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو جائے گا، لیکن اب تک اتنی اموات کی خبر کہیں سے نہیں آئی۔ کراچی میں اتنی اموات گرمی سے نہیں ہوئیں جتنی کے الیکٹرک کی نااہلی، درختوں کی کٹائی اور اسپتالوں میں ادویات کی کمی کے باعث ہوئی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی جگہ آگ لگ جائے تو وہاں کا اہم ریکارڈ پانی کے بے دریغ استعمال سے تباہ ہو جاتا ہے اور قصوروار آگ کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ شدید گرمی کے بعد بجلی غائب ہو جائے، ہوا بند ہو جائے، حبس بڑھ جائے اور پانی نہ ہو تو موت یقینی ہو جاتی ہے۔
1913ء میں قائم ہونے والی کے الیکٹرک کو 1952ء میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا‘ جس کے بعد اس کا نام بدل کر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس ای) رکھ دیا گیا تھا۔ 2009ء میں ایک بار پھر اسے دبئی کی ابراج کیپیٹل کے ''حوالے‘‘ کر دیا گیا‘ اور اس کا پرانا نام بھی بحال کر دیا گیا۔ کے الیکٹرک نے معاہدے کے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ پورا سسٹم اپ گریڈ کرے گی اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہو گا، لیکن کام اس کے برعکس ہوا۔ سسٹم کو ''اپ گریڈ‘‘ کرنے کے بجائے اسے ''ڈی گریڈ‘‘کر دیا گیا... کاپر (تانبے) کی تاروں کی جگہ سلور کی تاریں ڈال دی گئیں جو 40 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی برداشت نہیں کر سکتیں اور ٹوٹ کر گرنے لگتی ہیں۔ ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ جائے تو کے الیکٹرک کا نظام ''فیل‘‘ ہو جاتا ہے اور اگر بارش کی چند بوندیں سلور کی ان تاروں کو چھو جائیں تو بجلی ناراض ہو جاتی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ آج بھی کے الیکٹرک واپڈا سے 4 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید کر 18 سے 25 روپے میں فروخت کر رہا ہے اور وفاقی وزیر پانی و بجلی کہتے ہیں کہ ''ہم کراچی کو 650 میگاواٹ بجلی فراہم کر کے احسان کر رہے ہیں، ہمارا کے الیکٹرک سے معاہدہ ختم ہو چکا ہے‘‘۔
دبئی میں آج سے 10 سال قبل بجلی کا ایک ہائی ٹینشن ٹاور گر گیا تھا، افراتفری مچ گئی، کئی انجینئرز اور افسران معطل کر دیے گئے، شیخ مکتوم بہت ناراض ہوئے کہ ''معیشت کو بڑا نقصان پہنچا ہے‘‘۔ کے الیکٹرک نے تو کراچی کی ''معاشی قبر‘‘ کھود دی ہے۔ پورے ملک کو 67 فیصد ریونیو دینے والے شہر کی بجلی ایک ایسی کمپنی کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے‘ جسے صرف اپنے پرافٹ کی پروا ہے، ملکی معیشت کی نہیں۔ اب تو سندھ حکومت بھی اپنی جھینپ مٹانے کے لیے کے الیکٹرک کے خلاف میدان میں آ گئی ہے۔ نمائشی دھرنے شروع ہو گئے ہیں، احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں، کوئی سندھ حکومت سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ ''آپ کے دورِ حکومت میں بھی کے ای ایس سی تھی، بجلی کا بحران تھا، لوڈ شیڈنگ تھی، آپ نے کیوں ایکشن نہیں لیا؟ آپ کے کیا مفادات تھے؟
کراچی میں گرمی سے ہلاکتوں کی تعداد اتنی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی پرائیوٹ ایمبولینس سروس ''ایدھی‘‘ کے اسٹریچر بھی کم پڑ گئے۔ مردہ خانہ بھر گیا۔ اسپتالوں میں بستر اور قبرستانوں میں قبریں بھی ڈھونڈنے سے نہیں مل رہیں۔ پہلی بار عوام کو یہ معلوم ہوا کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر میں ایک بھی سرکاری مردہ خانہ نہیں ہے۔ اگر ایدھی‘ چھیپا‘ خدمت خلق فائونڈیشن اور دیگر فلاحی ادارے نہ ہوتے تو اموات کی تعداد گنتی میں ہی نہ آتی۔ جہاں اتنی بڑی تعداد میں کراچی کے شہری مر رہے تھے‘ وہاں قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں صرف ایک گھنٹہ ایئرکنڈیشنر بند کرنے پر اتفاق نہ ہو سکا... کیسے بے حس لوگ ہیں؟ جن لوگوں نے انہیں اسمبلی میں بھیجا‘ اُن کے لیے ایک گھنٹہ گرمی میں نہیں بیٹھ سکتے۔ سیکڑوں خاندان اُجڑ گئے، اسپتال بھر گئے، قبرستانوں میں جگہ نہیں لیکن کوئی حکومتی نمائندہ یا بلدیاتی افسر چار دن تک اسپتال پہنچ سکا‘ نہ ہی کسی متاثرہ خاندان کے گھر تعزیت کے لیے گیا۔ لوگ مرتے رہے... جنازے اٹھتے رہے... لیکن کسی کو یہ یاد نہ آیا کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ''میری حکومت میں نہر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو میں ذمہ دار ہوں گا‘‘ جبکہ آج کے حکمران، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کہتے ہیں: ''گرمی کی وجہ سے لوگوں کی اموات کی ذمہ دار حکومت نہیں‘‘۔ پھر ذمہ دار کون ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینے سے سیاستدان اور حکمران گریزاں ہیں، وہ صرف وقت گزرنے کا انتطار کر رہے ہیں تاکہ ''بیچارے عوام‘‘ یہ سب کچھ بھول جائیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں